شیخ الازہر کا عرب میڈیا سمٹ میں خطاب: "اسلاموفوبیا" کی لعنت سے نمٹنے کے لیے ہمیں ابھی بہت سی مؤثر میڈیائی کوششوں کا انتظار ہے
"زہریلی مغربی مہمات کی آندھیوں کا مقابلہ کرنا ہم سب کی، بالخصوص ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے۔"
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے دبئی میں عرب میڈیا سمٹ کی افتتاحی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا: کہ "ہمیں اب بھی ’اسلاموفوبیا‘ جیسے ناجائز اور مصنوعی رجحان سے نمٹنے کے لیے زیادہ پراثر اور منظم میڈیا کوششوں کا انتظار ہے۔ یہ ایک جھوٹ پر مبنی تصور ہے، جسے مغربی معاشروں میں اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے، اور اس کے امن و بقائے باہمی کے اصولوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔"
انہوں نے زور دیا کہ یہ سب کچھ اسلام کی اُس شریعت کے باوجود ہو رہا ہے جو نہ صرف انسان، بلکہ جانور، پودے اور بے جان اشیاء کے بھی حقوق تسلیم کرتی ہے۔ ایسی جامع رحمت و عدل پر مبنی شریعت کی کوئی مثال ہمیں جدید قوانین یا پالیسیوں میں نہیں ملتی، جن پر مغرب فخر کرتا ہے اور ہمیں انہی باتوں کی کمی کا طعنہ دیتا ہے۔ لیکن جب غزہ کی تباہی جیسا المیہ سامنے آتا ہے، تو ان دعوؤں کا سچ چھپ نہیں سکتا، نقاب اتر جاتا ہے، اور جو کچھ چھپا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ ہولناک اور بڑا ہے۔
شیخ الازہر نے تاکید کی کہ مغربی میڈیا کی مہمات صرف اسلام کو بدنام کرنے اور اس کے تحت پنپنے والی عظیم تہذیب کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں رہیں، بلکہ انہوں نے مشرقی تہذیب کی اخلاقی اور خاندانی بنیادوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ یہ سب کچھ 'انفرادی آزادی' کے نام پر ہو رہا ہے۔"
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ اس وقت بھی جاری ہے جب کہ اس کے نتائج خاندانی نظام کی تباہی اور اس کی ساخت کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں، اور اس کی جگہ ایسے نظام رائج کیے جا رہے ہیں جو بچوں کے حقوق کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں، اور اُن افعال کو جائز قرار دیتے ہیں جنہیں نہ صرف آسمانی مذاہب بلکہ انسانی ذوق اور عام معاشرتی اقدار بھی حرام قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، ساتھ ہی الحاد کو جواز بخشا جا رہا ہے اور فطری دین داری کے جذبے سے بغاوت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ یہ سب ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد قوت، خودمختاری، اور عربی و اسلامی شناخت پر فخر کے تمام سرچشموں کو خشک کر دینا ہے۔انہوں نے کہا: یہ تمام (رجحانات)، چاہے جزوی ہوں یا کلی، ہمیں بالخصوص میڈیا کے شعبے سے وابستہ افراد کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں کہ ہم سنجیدگی سے غور کریں کہ ان زہریلی ہواؤں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے، اور اپنے نوجوانوں اور وطنوں کو تباہی، خود فراموشی، اور شناخت کے زوال سے کیسے بچایا جائے۔"