5 جولائی 2017م

الازہر اور بھائی چارے اور جان پہچان کے پلوں/ تعاون کی بحالی۔

مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی تہذیب دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھائی چارے کے دائرے سے نہیں نکلی۔ اور ان کے ساتھ اس شرعی قاعدے کی بنیاد پر معاملہ کرتی ہے۔ کہ "ان کے لیے وہی کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے اور ان پر وہی کچھ ہے جو ہم پر ہے" جو غیرمسلموں  کے لیے ان کے مذاہب اور عقائد کی بقاء کو قائم کرتا ہے ، اور ان کی رسومات کو قائم کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے ، اور ان کے گرجا گھروں اور عبادت گاہوں اور ان کے تمام مذہبی اور سماجی رسم و رواج کی حفاظت کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی معاشرے کی تصویر فرشتوں کی تصویر تھی ، غلطیوں اور خامیوں سے پاک تھا اور یہ کہ تناؤ اور انحراف پیدا نہیں ہوا - چاہے حکمرانوں کی طرف سے ہو  یا عوام کی طرف سے ہوا ہو۔ اس طرح کا عیب ایسے معاشروں میں استثنائی طور پر تھوڑا بہت ہوتا رہتا ہے  جہاں متعدد ادیان نسلیں اور مذاہب ہوں۔ تاریخ نے مشرق میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ شروع ہونے کو ریکارڈ نہیں کیا۔ اس کی وجہ خالصتا شرعی  ہے۔اور وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی شریعت مسلمانوں کے حکمرانوں کو غیر مسلموں کی حفاظت اور ان کے امن کی ضمانت اور ان کی سلامتی  کو یقینی بنانے کا پابند کرتی ہے۔ ؛ یہ غیر معقول ہے کہ مسلم فوج کو عیسائی شہریوں کی حفاظت کا کام سونپا جائے ، اور پھر اسے ان کے خلاف اعلان جنگ کرنے یا ان کے خلاف اعلان کردہ جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔
مجھے اسلام اور مسلمانوں کو ان دہشت گردانہ کارروائیوں سے براءت یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے جو اس کے نام پر کی گئیں۔ اور اسے مشرق اور مغرب میں برا بنایا، اور اسے مغرب میں خون کے پیاسے ایک وحشی مذہب کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے پیروکاروں کو وحشیوں کی شکل میں دکھایا ، اور کچھ نشریات اور میڈیا ڈیوائسز نے ناظرین اور قارئین کے لیے  ان مظالم کو ان کی تمام ہولناکی اور بدصورتی کے ساتھ۔ ریکارڈ کرنے کے لیے متحرک کیا ،  پھر اسے خلا میں نشر کیا تاکہ اس مطلوبہ تصویر کو  لوگوں کے ذہنوں میں اور خاص طور پر نوجوانوں کے  ذہن میں راسخ کیا جائے۔ 
اور میں یقین دلاتا ہوں کہ  اسلام اور مسلمان ان  قابل مذمت جرائم کو نہیں جانتے اور  میں علماء دین  ، دانشوروں اور مہذبوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف متحد کھڑے ہوں۔ اور یہ کہ ہم سب اسے ایک مشترکہ دشمن سمجھیں اور اس کے لیے ہماری ذمہ داری بھی مشترک ہے۔ جیسے میں مغرب کے پادریوں سے بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی لوگوں کے ذہن میں غلط شبیہ کو درست کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اور یہاں ازہر شریف جو دنیا میں مسلمانوں کے لیے کی سب سے بڑی مذہبی اتھارٹی ہے خود مغرب کے بڑے مذہبی اداروں کی تلاش میں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا: "بھائی چارے اور جان پہچان کے پل بنانے کے لیے" بلکہ ، ان پلوں کو بحال اور مستحکم کرنا ہے تاکہ تمام مذاہب اس خطرے کے مقابلہ میں متحد کھڑے ہوں۔  اور لوگوں کو یاد دلائیں کہ دہشت گردی شیطان کا عمل ہے ، نہ کہ اللہ رب العزت ، اس کے انصاف ، اس کے حساب اور اس کی سزا پر ایمان والوں کا عمل ہے۔
اور میں نہیں جانتا: لوگ کیسے یقین کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے ، حالانکہ اس کے متاثرین کی اکثریت خود مسلمان ہیں؛ مرد ، عورتیں ، بچے ، فوجیں ، گھروں میں محفوظ ، سڑکیں ، نقل و حمل وغیرہ۔ 
میری رائے میں ، یہ وقت ہے کہ مغرب میں چرچ کی گھنٹیاں اور مشرق میں میناروں کی پکار کا جواب دیا جائے اور کہا جائے: "نہ مذاہب کے نام پر کھیل نہیں ، اور نہ  ہی غریبوں ، مسکینوں ، ضرورت مندوں ، عورتیں اور بچے کے نام پر یہ کھیل ہونا چاہیے۔ جو لوگ اپنے خون ، جسم اور جسم کے اعضا سے جنگی بل ادا کرتے ہیں جس میں ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ ان لوگوں کی سست روی کے بعد جو ان جنگوں کو روکنے کے قابل ہیں جنہوں نے عرب دنیا کی ہر چیز کھا لی۔ نوجوان - جو مستقبل کا آلہ اور حال کی طاقت ہے - لوگوں میں امن ، بھائی چارے اور واقفیت کی ثقافت کو پھیلانے اور نفرت کی ثقافت کو ختم کرنا ، اور آمریت اور تنگ مفادات کے مقاصد کے لیے تہذیبوں کے درمیان بنائی گئی علیحدگی کی دیواروں کو نیچے لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ افہام و تفہیم کے پلوں کی تعمیر کریں ، ایسی انسانی زندگی کے لیے  جو اکیسویں صدی کے لائق  ہو۔
اور میں - ذاتی طور پر – اے نوجوانو  تم پر جنگوں سے پاک مستقبل بنانے میں بھروسہ کرتا ہوں۔ جن جنگوں نے میری نسل کی پچھلی صدی اور موجودہ صدی بھی برباد کی  ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024