8 مارچ 2017 م۔

بقائے باہمی ایک مذہبی ، قومی اور انسانی ضرورت ہے۔

اب ہماری عصری دنیا کو اس کے دبے ہوئے بحرانوں سے نکلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے – وہ  لوگوں اور ان کے اختلافات کے درمیان تعددیت  کے اصول کو قائم کرنا ہے، یہ ایک فطرت ہے جس کا فیصلہ قرآن نے کیا ہے۔
اسلام کے سماجی فلسفے میں قوموں اور لوگوں کے درمیان تنازعات اور معاشی ، ثقافتی اور عسکری تسلط کے تعلقات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
آج ہماری دنیا نازک حالات اور ایک اخلاقی بحران سے گزر رہی ہے جس کا تجربہ پوری انسانیت نے کیا ہے ، یہاں تک کہ محبت اور امن کے معنی اس اصول سے مستثنیٰ ہو گئے  ہیں جو آج ہمارے معاشروں پر حکمرانی کرتا ہے۔ یہ خود غرضی ، نفرت اور تنازعات پر مبنی ہے ، ہمیں شاید ہی کوئی ایسا وطن ملے جو پائیدار امن اور ایسی زندگی کے لیے تڑپتا نہ ہو جس میں نہ تشدد ہو اور نہ ہی دہشت گردی ہو۔
آسمانی مذاہب انسانوں کے لیے امن کے پیغام کے طور پر آئے ہیں ، اور میں یہ دعویٰ بھی کرتا ہوں کہ یہ جانوروں ، پودوں اور تمام فطرت کے لیے امن کا پیغام ہیں۔ لیکن یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ الزام لگانے والے تمام لوگ اب مذاہب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ، یہ لعنتی دہشت گردی کی تہمت کا بھی ان ادیان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اور ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اسلام بطور مذہب مسلمانوں کو اپنی زمین اور وطن کے خلاف جارحیت کو روکنے  کے علاوہ ہتھیار اٹھانے  کی اجازت نہیں دیتا ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلمان دوسروں سے ان کو زبردستی دین اسلام میں داخل کرنے کے لیے لڑے ہوں۔ دراصل اسلام غیر مسلموں یعنی عیسائیوں ، یہودیوں اور دیگر کو دشمنی ، تناؤ اور تنازعات کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ محبت اور انسانی بھائی چارے کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
قرآن میں واضح آیات ہیں جو صراحت سے بیان کرتی ہیں  کہ مسلمانوں کا تعلق دوسروں کے ساتھ جو ان کے لیے پرامن ہیں - ان کا مذہب یا دین کوئی بھی  ہو – نیکی  اور مساوات کا تعلق ہے۔ یہاں یہ بتانا کافی ہے کہ اسلام اس الہی دین کے  سلسہ کی آخری کڑی ہے جسے "اسلام" کہا جاتا ہے۔ جو حضرت آدم سے شروع ہوا، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی اور حضرت عیسی سے گزرتا ہوا ، حضرت محمد پر ختم ہوا۔  (عليهم جميعًا أفضل الصلاة والسلام).
مزید یہ کہ اسلام کہتا ہے کہ ان تمام پیغامات میں دین  کی اصل ایک ہے ، اسی لیے قرآن مجید نے تورات اور انجیل کا انتہائی احترام اور اعتراف سے ذکر کیا ہے۔ 
قرآن کریم میں ، خداوند عالم تورات اور انجیل دونوں کو "ہدایت اور روشنی" کے طور پر بیان کرتا ہے [مائدہ: 46]۔ جیسے یہ قرآن کو ایسی کتاب کے طور پر بھی بیان کرتا ہے جو سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اگرچہ اسلام کا تمام آسمانی ادیان کے ساتھ ایک نامیاتی تعلق ہے ، لیکن یہ عیسائیوں کے لیے ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ وہ تمام لوگوں میں مسلمانوں کے قریب ترین لوگ ہیں، اور دو ادیان والوں  کے درمیان تعلق دوستی ، بھائی چارے اور ہمدردی کا ہے۔  بہت سے مسیحی افراد اور ان کے علماء جب  قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں  عیسائیت اور عیسائیوں کے بارے میں عام طور پر اور حضرت عیسی اور مریم علیہما السلام کے بارے میں خاص طور پر پڑھتے ہیں تو اپنی خوشی کا اعلان کرتے ہیں ۔ 
میری رائے میں ، اسلام اور عیسائیت میں مذہبی بھائی چارے کے پیغامات مشرق اور مغرب میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان دیرپا تفہیم اور مسلسل تعلقات کے پل بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اگر انہوں نے مادیت پرستی کے ظلم ، سیاست کی لالچوں ، مذاہب کے  غصب کرنے،  اور مفادات اور مقاصد کے بازار میں ان کے تقدس کا کاروبار کرنے سے دور رہتے ہوئے یہاں تک کہ اخلاقی اور انسانی اصولوں کی قیمت پر ان  دونوں مذاہب کو موضوعی  علمی  نقطہ نظر سے دیکھا تو ،  
ہماری عصری دنیا کو اس وقت  اس کے دبے ہوئے بحرانوں سے نکلنے کے لیے ضرورت ہے  کہ یہ لوگوں اور ان کے اختلافات کے درمیان تکثیریت کے اصول کو قائم کریں یہ ایک فطرت ہے جس کا فیصلہ قرآن کریم نے کیا ہے ، اور اسلام میں بین الاقوامی تعلقات کے قانون نے اس کا اہتمام کیا ہے۔ یہ "تعارف" کے ذریعے کیا جاتا ہے ، جس میں لازمی طور پر ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کا اصول شامل ہوتا ہے جن سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور جن سے ہم اختلاف کرتے ہیں۔ لہذا  ایک مسلمان کے لیے لوگوں ، امم اور اقوام کو ایک ہی دین یا ایک ثقافت میں ڈھالنے کا تصور کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ مشیت ایزدی یہی ہے کہ لوگ مختلف بنائے جائیں ، یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے نشانات میں بھی مختلف  ہیں۔ قرآن کہتا ہے: "اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راه پر ایک گروه کر دیتا۔ وه تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے" (ہود: 118) قرآن پر ایمان رکھنے والے کو شک نہیں ہے کہ  کسی بھی طاقت یا تہذیب کے ذریعے  لوگوں کے لیے  خدا کی مرضی کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ ان نظریات کو دیکھتا ہے جو لوگوں کو ایک مذہب یا ایک مرکزی ثقافت پر اکٹھا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے حالت بیداری میں خواب دیکھ رہے ہوں یا پھر وہ بخپن کے خوابوں کی بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
اسی لیے یہ ایک  فطری اور منطقی  بات تھی کہ ۔اسلام دیگر ادیان کے لیے قابل ذکر طریقے سے توسع اختیار کرتا، ۔ وہ ان کے ساتھ بقائے باہمی اور باہمی امن کے پل بڑھاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مسلمان کی شادی ایک عیسائی یا یہودی  عورت سے کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ اپنے مذہب پر قائم  رہ سکتی ہے۔ اور اس کے مسلمان شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے چرچ یا مندر جانے سے روکے ، یا اسے اپنے مسلمان شوہر کے گھر میں اپنی رسومات پر عمل کرنے سے روکے۔ لوگوں اور اقوام  کا ایک دوسرے سے تعلق  انسانی زندگی اور زمین کی تعمیر نو کی خاطر تعارف ، تعاون ، بھائی چارہ اور مفادات اور فوائد کے  تبادلے کی بناء پر ہے  ہے۔ ، اسلام کے سماجی فلسفے میں قوموں اور لوگوں کے درمیان تنازعات اور معاشی ، ثقافتی اور عسکری تسلط کے تعلقات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 
کیونکہ قرآن کی منطق ایک ٹھوس اور قابل مشاہدہ سچائی کے تعین پر مبنی ہے۔ یہ ہے کہ خدا تعالی نے لوگوں کو مختلف عقائد ، ادیان ، رنگوں اور زبانوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے نشانات میں بھی مختلف ہیں، لہذا  لوگوں کو ایک عقیدے ، ایک مذہب یا ایک ثقافت میں اکٹھا کرنا ناممکن ہے ، اور ایسی کوئی بھی کوشش ناکامی سے دوچار ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی تخلیق میں اس کی مرضی اور مشیت  کے خلاف کوشش کرنا ہے۔
اس مذہبی ، قومی اور انسانی  نقطہ نظر سے ہم تشدد ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دعووں کو حل کرتے ہیں ، اور ایک ہی قوم کے لوگوں میں تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ان کی بدنیتی پر مبنی کوششوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد شہریت ، مکالمے اور بقائے باہمی کے اصولوں کو مستحکم کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024