جب سے امام الاکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب نے شیخ الازہر کے طور پر اپنے فرائض سنبھالے ہیں، وہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے معاملے اور جو انہیں مذہبی اور نسلی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے برما کے مفتی اعظم سے ان کی حالت کے بارے میں جاننے اور ان کے مسائل سننے کے لیے کئی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے جامعہ الازہر میں زیر تعلیم برمی طلباء کو راحت پہنچانے کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کیں۔ ، اور ان کی مکمل حمایت کرنے کی کوشش کی۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم میں اضافے اور تشدد، قتل و غارت گری کی مسلسل لہروں کے سامنے آنے کی کئی رپورٹس کے بعد جامعہ الازہر کے شیخ امام الاکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، نے 3 جنوری 2017 کو منعقدہ ایک کانفرنس کے ذریعے اس مسئلے کو حقیقت پسندانہ اور تعمیری مکالمے کے ذریعے حل کرنے میں جلدی کی، جس کا عنوان تھا " میانمار (برما) کے شہریوں کے لیے ایک مہذب انسانی مکالمے کی طرف" اس میں قاہرہ میں میانمار کی یونین کے سفیر میانٹ لوئن اور میانمار میں "اسلامی - عیسائی - ہندو - بدھ" مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اور یہ ان کی طرف سے دنیا کے تمام حصوں میں تمام انسانوں کے درمیان امن اور بقائے باہمی کی ثقافت کو پھیلانے کے لیے کام کرنے کی اہمیت پر یقین اور مسلمانوں کے ایک امام اور باوقار ادارہ الازہر جو دنیا میں مسلمانوں کے لیے مرجع ہے کے شیخ کے طور پر اپنے کردار کو ادا کرنا ہے۔
کانفرنس کے پہلے سیشن کا آغاز امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین کی سرپرستی اور صدارت میں متعدد نوجوانوں کے درمیان مکالمے کے دوروں کے انعقاد سے ہوا جو برما کی ریاست "راخین" میں تنازعہ سے متعلقہ فریقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اس عنوان کے تحت: " میانمار (برما) ایک مہذب انسانی مکالمے کی طرف۔
متعدد سفیروں، ادیبوں، مفکرین اور میڈیا کے ماہرین کی موجودگی میں تمام مذاہب "بدھ مت، اسلام، عیسائیت اور ہندو مت" سے تعلق رکھنے والے برمی کمیونٹی کے نوجوانوں نے سیشن میں شرکت کی۔
مکالمے کے اس سیشن کا مقصد نوجوانوں کے ساتھ بقائے باہمی کے ذرائع کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا، برما میں تنازعہ کی وجوہات کا پتہ لگانا، اور اسے ختم کرنے کے لیے بنیادی حل نکالنے کی کوشش کرنا اور شہریوں کے درمیان شہریت اور بقائے باہمی کی بنیادوں کو مستحکم کرنا تھا۔ کیونکہ میانمار کے عوام کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کے علاوہ امن قائم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
كلمات الإمام كلمة فضيلة الإمام خلال اجتماع بورما –ميانمار
معزز حاضرین کرام !
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اپنی بات کی ابتدا نئے سال کی مبارکباد سے کرتا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس سال کو ساری دنیا کیلئے امن و سلامتی اور خوشیوں کا سال بنائے، اور ایسا سال بنائے جس میں خون کی حفاظت ہو اور جنگ کی آگ جو برادران وطن و ملت اور انسانی بھائی چارگی کے درمیان لگی ہوئی ہے وہ بجھ جائے۔
برما کے دینی و نسلی اختلاف رکھنے وا لے چیدہ نوجوان لڑکےاور لڑکیوں کو دعوت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے والى " مسلم دانشور کونسل" کو خوشی ہے کہ آپ لوگوں کا آپ کے اپنے دوسرے ملک مصر میں استقبال کررهى هے یہ وہ سرزمین ہے جس میں مذاہب باہم گلے ملتے ہیں اور انکی تجليات ایک ہی قومی لڑى ميں ظاهر هوتى هيں ، گویا کہ ایک ایسا فولادی چٹان ہے جس پر ان مجرموں اور فساديوں کی رغبت بیکار ہوچکی ہے، جنہوں نے یہاں کے باشندوں کے تئیں اپنے دلوں میں شرو فساد اور تباہی کو چھپا رکھا ہے۔
اے برما کے فرزندو! اور بھائیو! آپ کے لئے ان تباہ کن خطرات کو مزيد بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو آپ کے ملک کے ریاست راخائن میں جاری بحران کے سبب سب كو لاحق هيں ۔ ایسا بحران جو دینی ، انسانی اور تہذیبی اسباب سے عاری ہے، بیشک برما کی قوم كے لئے یہ واقعی عجیب بحران ہے، کیونکہ یہ ایسی قوم ہے جس کی جڑیں پرانے زمانے سے دین و حکمت اور سلامتی کی تاریخ میں مضبوط نظر آتی ہیں، اور جس نےانسانوں کو بہت کچھ سیکھایا ہے، اور جس کی تہذيب اور دین تمام انسانیت کیلئے سلامتی کا مشعل تھا۔
میں کبھی دین اور کبھی نسل کے نام پر قتل و غارت گری اور خونریزی سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہیں جانتا ، چنانچہ کوئی بھی نبی یا رسول قتل کی غرض سے نہیں بھیجے گئے اور نہ ظلم و زیادتی اور بے گھر کرنے کے لئے کوئی حکیم اور خدا پرست آئے۔
ایسا کیوں ہے ! جبکہ تمام الہی دین اور انکی کتاب مقدس نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اللہ عزوجل کی مشیت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین و زبان کا اختلاف رہے، اگر وہ چاہتا تو ایک ہی رنگ و نسل اور زبان اور ایک ہی دین كے ساتھ سب کو پیدا کر دیتا، اور وہ ایسا کرنے پر قادر بھی ہے، اور تخليق و تکوین کے فلسفہ کی اس محوری حقیقت کی تاکید تمام مذاہب کرتے ہیں: ﱡﲏ ﲐ ﲑ ﲒ ﲓ ﲔ ﲕ ﲖﲗ ﲘ ﲙ ﲚ ﲛ ﲜﱠ ( اس( كى قدرت) كى نشانيوں ميں سے آسمانوں اور زمين كى پيدائش اور تمہارى زبانوں اور اور رنگتوں كا اختلاف( بھى) هے، دانش مندوں كے لئے اس ميں يقينا بڑى نشانياں هيں) (سورۀ روم: 22) اور جس طرح ہم نے مذهبى اخوت سیکھی اسى طرح انسانی اخوت بھی سیکھی ہے، تو مؤمن کے پیمانہ سے یا تو لوگ دینی بھائی ہونگے یا انسانی، چنانچہ مسلمانوں کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد اسے دھراتے اور اس بات کی گواہی دیتے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو مخاطب کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: "میں گواہ ہوں بیشک محمد تیرا بندہ اور رسول ہے، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب میں گواہ ہوں کہ تمام لوگ آپس میں بھائی ہیں"۔۔۔ تو اس گواہی سے بڑھکر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی جو انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین کی تمیز کے بغیر ہمیشہ کیلئے بھائي چارگی کا دروازہ کھولے، تو دین نے ہمیں سکھایا کہ جیسے اللہ تعالی نے مؤمن کو پیدا کیا ایسے ہی کافر کو بھی پیدا کیا ہے، ہم مسلمان قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان پڑھتے ہیں : ﭐﱡﱕ ﱖ ﱗ ﱘ ﱙ ﱚ ﱛﱜ ﱝ ﱞ ﱟ ﱠﱠ (اسى نے تمهيں پيدا كيا هے سو تم ميں سے بعض تو كافر هيں اور بعض ايمان والے هيں، اور جو كچھ تم كررهے هو الله تعالى خوب ديكھ رها هے) (سورۀالتغابن: 2)۔
علمائے قرآن کہتے ہیں کہ اس آیت میں کافر کو مؤمن پر مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں میں کفر غالب اور زیادہ ہے، اور ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اللہ کی حکمت اس سے بالا ہے کہ کافروں کو پیدا کر کے مؤمنوں کو ان کے قتل اور نسل کشی کا حکم دے، یہ مخلوق کی حکمت کے مطابق بیکار سی بات ہے تو بھلا خالق کی حکمت کا کیا کہنا، کیونکہ پورى مخلوق اسی کی خلقت اور پیداوار ہے، حدیث شریف میں ہے : "تمام مخلوق اللہ تعالی کا عیال ہے، اور اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو عیال کیلئے زیادہ نفع بخش ہو" تو مؤمن اور کافر کے درمیان حکمت کے ساتھ دعوت دينا اور اچھی بات كهنى اور نصیحت كرنى ہے، اس کے بعد ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔
اہل یمن کے نام ایک خط میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو یهودی یا عیسائی اسلام کو ناپسند کرے اسے اپنے دین پر چھوڑ دیا جائے"، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : ﱡﭐﱢ ﱣ ﱤ ﱥﱦ ﱧ ﱨ ﱩ ﱪ ﱫ ﱬﱭ ﱠ ( اور اعلان كردے كه يه سراسر بر حق قرآن تمهارے رب كى طرف سے هے۔ اب جو چاهے ايمان لائے اور جو چاہے كفر كرے) (سورۀالكهف: 29)۔
جب تمام مذاہب اپنی دعوت میں مؤمن اور غیر مؤمن کے درمیان تعلق میں اس بلند انسانی ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا یہ معقول بات ہے کہ مذاہب کی تعلیم، اور انسانی حقوق اور اخلاقی ذمه داريوں كو فراموش کردیا جائے!
بورما کے تمام رنگ ونسل اور دین ومذہب کے نوجوانو!
آپ کی سرزمین بدھ مت، ہندو مت، عيسائيت اور اسلام کی حکمت سے بھری پڑی ہے، یہ حکمت صبح وشا م آپ کو پکار پکار کر یہ کہ رہی ہے کہ قتل مت کرو ، جھوٹ مت بولو، عفت وپاکدامنی کاد امن پکڑے رہو، شراب نوشی مت کرو ۔ ہم نے ازہر شریف میں اصولِ دین کے کالج میں مشرق کے دانشوروں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ معلوم كيا ہے کہ بدھ مت بنیادی طور پر انسانی اور اخلاقی تعلیمات ہے اور یہ خاموش دانشور بدھ، انسانی تاریخ میں عظيم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کی نمایاں صفات متانت وسنجیدگی، عقلمندی، بے تحاشہ محبت وشفقت اور لطف وکرم ہیں۔ ادیان ومذاہب کے بڑے مؤرخین ان کی تعلیمات سے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی تعلیمات غیر معمولی رحمت وشفقت پر مبنی تھیں اور وہ خود بردبار، صلح پسند، ملنسار اور متواضع تھے ، اسی طرح وہ بہت ہی سہولت پسند ، نرم مزاج اور لوگوں کے قریب تھے ۔ ان کی وصیت یہ ہے کہ لوگ آپس میں محبت کریں، ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں۔
میں تو اس موقعہ سے اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم دانشور كونسل آپ نوجوان مرد وخواتین سے اس بات کی امید کرتی ہے کہ آپ لوگ یہاں امن وآشتی کا ماحول پیدا کریں جس کے سائے میں "ریاست راخائن" کے عوام بلکہ پورے بورما کے عوام زندگی گزار سکيں اور قومیت وشہریت کی ایسی ثقافت کا آغاز کریں جس سے اقلیت جیسے لفظ کا خاتمہ ہو جائے، اسی طرح اقلیت کو کنارے اور حاشیہ پر رکھنے کے مفہوم کا بھی خاتمه ہو جائے تاکہ قتل وغارت گری اور معصوموں کی جلا وطنی کا جرم ختم ہو، اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم میڈیا کے ذریعہ نقل کردہ قتل وغارت گری ،ظلم وزیادتی اور جلاوطنی کى تصویر کشی کو اپنی نگاہوں میں رکھیں اور یہ احساس کریں کہ یہ ساری حرکتیں ایک ایسی قوم کے لئے مناسب نہیں ہيں جس کی ایک تہذیب وثقافت ہو یا قدیم تاریخ ہو جیسے کہ بورما کی قوم کی ہے، اور ایک قوم کے درمیان تفریق سے صرف معاملہ سنگین ہی نہیں ہوگا بلکہ اس ملک کی تمام ترقی کی امیدوں اور آرزوؤں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
میں اور میرے ساتھ مسلم دانشور كونسل کے یہ علمائے کرام، دانشوران قوم اور مصری میڈیا کے یہ اہلکار اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں انسانیت کو تکلیف پہنچانے والی یہ بد نما تصویر بند کر دی جائے اور ہم یہاں مسلم دانشور كونسل اور ازہر شریف کے پلیٹ فارم سے میانمار کے عوام کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ بغض وحسد اور نفرت کو اپنے دلوں سے نکال پھیکیں، اور ہم ایسا اس وقت تک نہیں کر سکتے ہیں جب تک کہ ہم دین ومذہب اور رنگ ونسل سے قطع نظر ایک قوم کے ما بین مکمل قومیت اور مکمل مساوات کی بنیاد کو نافذ نہ کر دیں اور مسلم دانشور كونسل اس سلسلہ میں ہر طرح کی امداد وتعاون کرنے کو تیار ہے۔ اسی طرح مصر کے بیت العائلہ ( خاندانى گھر ) نامی تنظیم کا تجربہ بھی پیش کرنے کو تیار ہے جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں شریک ہیں اور اسی تنظیم کی وجہ سے مختصر سے وقت میں مکمل قومیت اور بقائے باہم کے مفہوم کو فروغ دیاجا سکا ہے۔
نوجوانو! میں آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتا کہ ہم مسلم دانشور كونسل کے نمائندہ کی حیثیت سے میانمار میں امن وآشتی سے متعلق بہت مشغول رہے ہیں اور بہت غور وخوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بورما کے عوام سے گفتگو کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ یہی عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہے، یہی اس بحران کو ختم کر سکتے هيں اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ایک نہ ایک دن سب اس کے شکار ہوں گے، یہ عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہيں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے افکار وسیع ہیں، ان کے اندرون صاف ہیں، ان کے ضمیر بے داغ ہیں اور يه امن وآشتی کے بهت دلدادہ اور اس كے لئے سرگرم هيں۔
اخیر میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات آئندہ ملاقاتوں کی تمہید ہو جس کے ذریعہ ہم میانمار میں امن وآشتی اور عدل وانصاف قائم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکیں گے۔اسی طرح میں خواہش مند ہوں کہ دانشور كونسل آپ کی باتوں کو سنے ، آپ کی تکلیفوں اور آپ کی امیدوں اور آرزوں سے باخبر ہو تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم آپ لوگوں کی تکلیفيں كس طرح كم كرسكتے هيں اور آپ كى اميديں كس طرح برلا سكتے هيں ۔
ہم آپ کا اور آپ کے مسئلے کی حمایت کرنے والے شركاءِ اجلاس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔