28/03/2017

الازہر بین الاقوامی امن کانفرنس

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
الازہر بین الاقوامی امن کانفرنس
28/03/2017
انسانی برادری اس وقت شدید بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے جو ہمارے انسانی وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور انسانی زندگی کے جوہر کو تباہ کر رہے ہیں۔ اخلاقی اور فکری بحران خونی مسلح تصادم کی صورت میں جنم لیتے ہیں جو اعلی ترین مخلوق کو قتل کرتے ہیں، اور اس کے حقوق اور وقار کو پامال کرتے ہیں، جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تنازعات اور ان میں اضافہ جس شکل میں آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ اعلیٰ ترین مذہبی اقدار اور انسانی نظریات سے متصادم ہیں۔.
چونکہ عدل اور امن کے حصول کے لیے کام کرنا ایک انسانی ضرورت ہے، نہ کہ اپنی ذات میں کسی خاص عقیدے یا فلسفے کی ضرورت ہے، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے ایک مقصد ہے، اور اس کی تہذیب اور ترقی کی بنیاد ہے۔ لہذا جو چیز ہم سب پر لازم ہے وہ یہ کہ ہم ان اعلیٰ مشترکہ اقدار کو حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
جنگوں اور تشدد کے وسیع دائرے اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کے پھیلاؤ کی وجہ سے کے امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف، نے عقل  کی آواز کی ثالثی اور مصائب کے اسباب کو دور کرنے کی پوری کوشش کرنے کی طرف بلایا۔  ( اور بتایا کہ) ہمیں نفرت کے بجائے تعاون، دوری کے بجائے احترام، قتل کے بجائے امن، انتہا پسندی کے بجائے رواداری کی ضرورت ہے۔ اور اس سوچ سے آگے بڑھنا چاہیے کہ بقائے باہمی ایک مقصد اور ایک پیغام ہے جو تمام مذاہب لائے  ہیں۔
اس نقطہ نظر سے، امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف، نے 27-28 اپریل 2017 کو منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کا مطالبہ کیا۔ اس میں ویٹیکن کے پوپ پوپ فرانسس نے اپنے تاریخی دورہ مصر کے دوران "الازہر عالمی امن کانفرنس" کے عنوان سے شرکت کی۔
اس بات پر زور دینے کے لیے کہ انسانوں کے درمیان انصاف کے حصول اور غربت، بیماری، تشدد اور نفرت کے اسباب کو ختم کیا جائے۔ یہ ہم پر تمام ادیان اور ثقافتوں کی طرف سے  فرض ہے۔
اور امام الطیب نے اعلان کیا کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا مطلوبہ ہدف عالمگیر انسانی بنیادوں پر اکٹھا ہونا ہے۔ جو مختلف انسانوں، ادیان عقیدوں، اور نسلوں کے لوگوں کے درمیان امن قائم کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقصد کے لیے مذہبی شخصیات اور علماء، فکری و ثقافتی رہنماؤں، فیصلہ سازوں اور بین الاقوامی اداروں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ جو ان اصولوں کی توثیق کر سکتا ہے جو اس وژن کو پورا کرتے ہیں۔ چونکہ تنازعات، تشدد اور نفرت کی وجوہات کو ختم کیے بغیر اور یہاں یا وہاں پیدا ہونے والے تناؤ کو دور کیے بغیر ایک منصفانہ اور دیرپا امن حاصل نہیں کیا جا سکتا، ، کیونکہ پیش آمدہ بیماری کا علاج کرنے اور بیماری کی اصل کو نظر انداز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اسی وجہ سے، امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تاکہ پوری دنیا کو ایک مشترکہ پیغام دیا جا سکے۔ اسی لیے الازہر الشریف کے حرم میں جمع ہونے والے ادیان  کے نمائندوں نے متفقہ طور پر مذاہب، معاشروں اور دنیا کے تمام ممالک کے رہنماؤں سے امن کی اپیل کی ہے۔ وہ اپنے باہمی اعتماد کی بنیاد پر، وہ مذاہب کے پیروکاروں کو ان کی پیروی کرنے اور عدم برداشت اور نفرت کے تمام اسباب کو ترک کرنے اور محبت، رحمت اور امن کی ثقافت کو مستحکم کرنے کے لیے اس دعوت کے ساتھ کام کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔
الازہر بین الاقوامی امن کانفرنس میں گرینڈ امام کا خطاب

بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.. ؛
 مجھے بہت خوشی ہے کہ میں آپ تمام حضرات خاص طور پر مصر  کے  معززمہمانوں کا خیر مقدم کر رہا ہوں۔
عالی جناب - مغززحضرات - مشرقی اور مغربی گرجاگھروں کے عالی مقام دینی رہنما۔
معزز بھائيو اور بہنو!
آپ سب كو خوش آمديد ،اور ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں  کہ آپ حضرات نے ازہر شریف اور مسلم دانشور  کونسل کی دعوت پر "ازہر کی عالمى  سلامتی کانفرنس" میں شرکت فرمائی، ہماری یہ کانفرنس اس مسئلہ پر منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس نہيں ہے،  اور نہ ہى  یہ آخری کانفرنس ہوگی، میرے لئے باعث فخر ہے کہ میں اس کانفرنس کے افتتاحی کلمات پیش کرنے والوں میں شامل ہوں، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ " عالمى سلامتی" کا موضوع جس پر اگرچہ بہت کچھ كہا جا چکا ہے  اس پر اب بھی مزید  بحث و تحقیق اور  کام کرنے کی ضرورت ہے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ " عالمی سلامتی"  ایک پیچیدہ اور نہ سمجھی جانے والی پہیلی بن چکی ہے جسے منطقی اصولوں اور فکری بدیہات کے مطابق سمجھنا کسی بھی عقل کے لئے آسان نہیں ہے،یہ اس "گمراہی" کا نتیجہ ہے جس کی گہرائی میں مفروضہ اشیاء  کھو گئی ہیں اور دلیل و حجت اور قیاس بے سود ہو چکے ہیں۔ انسانى زندگی میں وہ امن وسلامتى كا  کوئی ایک مسلم قاعدہ نہیں ہے جیسا کہ سلامتی کا نظریہ رکھنے والے تاریخی فلسفیوں کا خیال ہے، جو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ "امن و  سلامتی" ہی انسانی زندگی کا عام قاعدہ ہے، اور جنگ و جدال اور تشدد استثناء ہیں ۔ جنگ و جدال کا نظریہ رکھنے والے لوگ اس وقت سب سے دور انديش ثابت ہوئے جب انہوں نے  اس بات كى تائيد کی کہ "انسانی تاریخ خون سے لہو لہان تاريخ ہے، جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ  انسانیت نے کبھی چین کی سانس نہیں لی اور امن امان کے سایہ میں زیادہ دیر تک نہیں رہی، یہاں تک کہ کچھ امریکی مصنفین نے قلم بند کیا ہے کہ انسانیت کی لکھی ہوئی تاریخ جس کی  مدت تقریبا ساڑھے تین ہزار سال ہے اس ميں  صرف (268) سال سلامتی کا دور تھا  اس کے علاوہ باقی  سب جنگ و جدال کا عرصہ ہے، اسی وجہ سے  مشہور مصنف جورج ویل نے یہ نتیجہ نکالا کہ سلامتی اپنے آپ کو بچانے سے عاجز ہے( )۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ  امن وسلامتی کے مفہوم میں عروج وزوال نے بہت سے دیگر محققين کو بھی اس میں غوطہ زنی کرنے پر مجبور کیا ہے،  بالفاظ دیگر: وہ  مصادر جو زمان و مکان، ماحول اور مخصوص حالات اور تاریخی اتار چڑھاؤسے متاثر نہيں ہوتے ہیں، يعنى  جو ذاتی اغراض و مقاصد اور فکر و نظر كى كمى سے متاثر نہیں ہوتے،  اس سے میری مراد: اديانِ الہى  اور ان کی مقدس کتابیں ہیں، جن ميں لوگ ایسے ہی پناہ لیتے ہیں جیسے کہ خوفزدہ پرندہ اپنے محفوظ گھونسلے ميں پناه ليتا ہے۔
محترم حضرات مجھے اجازت دیں کہ میں اس مقدمہ کو مختصر  کروں جو کچھ لمبا ہوگیا ہے، اور اسلام میں سلامتی کے فلسفہ کو مختصر الفاظ میں بیان کروں،  جو میرا دین ہے جس کے نور سے میں حق اور سلوک و اعمال میں خیر کی ہدايت و روشنی حاصل کرتا ہوں، میں کہنا چاہتا ہوں : کہ اسلام میں سلامتی کے تئیں جو کچھ بھی کہا گیا بالكل اسى طرح عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی ہے، اور یہ بات میں آپ حضرات کی خراج چاپلوسى ميں نہیں کہہ رہا حالانکہ ایسے موقعوں پر  چاپلوسى قابل تعريف هوتى هے ، لیکن یہ میرا عقیدہ ہے جو میں نے بطور مسلم  قرآن کی تعلیم سے سیکھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام  حضرت عیسی،  حضرت  موسی ،  حضرت ابراہیم، اور حضرت نوح علیہم السلام سے جدا یا   الگ پیغام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ہی دین کی آخری کڑی ہے،  جس کی ابتدا آدم سے ہوتی ہے اور اسکی انتہا نبی اسلام پر ہوتی ہے، اور یہ پیغام شروع سے آخر تک اپنے مضمون اور مواد میں ایک جیسا ہے،  اگر کچھ فرق ہے تو وہ صرف عملی قانون سازی میں ہے،  کیوں کہ ہر زمانہ کا قانون اس زمان و مکان اور اس کے ماننے والوں کے مطابق ہوتا ہے۔
یہاں وقت تنگ ہے کہ میں ان آیات کو پیش کروں جو اس بات کی تاکید کرتی ہيں کہ اللہ تعالی نے جو پیغام محمد  پر نازل کیا ہے یہ وہی پیغام ہے جو  حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہم السلام پر نازل کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب کا اتفاق،  بنیادی اخلاق و فضائل اور اچھى صفات اوراحکاماتِ عشرہ (یا دس احکام) اور پہاڑ پر ملنے والى وعظ ونصيحت  اور  ایسے احکامات کی عکاسی کرنے والی  آیات پر ہے ،گويا  یہ تمام نغمے ایک ہی ساز و احساس اور ایک ہی جذباتی زبان کے ہیں۔
اسلام میں سلامتی کے فلسفے کا تصور بیان کرنے کیلئے   میں آپ حضرات کے سامنے  اس کو چند پیغامات  کی شکل میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں  گا جو ایک دوسرے پر منطقی ترتیب سے مرتب ہوتے ہیں ، اور یہ پيغامات مندرجہ ذیل ہیں :
قرآن کریم  دین ، عقیدہ ، زبان اور نسل  کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان اختلاف کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے ، اللہ  نے چاہا کہ وہ اپنے بندوں کو مختلف پیدا کرے ، اپنے بندوں میں اختلاف اللہ کی سنت ہے جو تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی دنیا و ما فیھا کے ختم ہونے تک ختم ہو گی ۔
دین میں اختلاف کی حقیقت پر منطقی طور پر عقیدہ میں آزادی کا حق مرتب ہوتا ہے ، کیونکہ دین میں اختلاف اور عقیدے کی آزادی ایک سکے کے دو رخ ہیں ، اور پھر لازمی طور پر عقیدہ کی آزادی دین میں زبردستی کی نفی کو مستلزم ہے ، قرآن کا موقف عقیدوں میں زبردستی کی نفی کے ساتھ ساتھ عقیدہ میں آزادی کو ثابت کرنے میں واضح ہے ۔ 
جب ہم مختلف عقیدے کے لوگوں اور اپنے عقیدہ کے اختیار میں آزاد لوگوں کے درمیان تعلق پيدا کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہم قرآن کو اس تعلق کو دو پہلوؤں سے متعین کرتے ہوئے واضح طور پر  پاتے ہیں : 
پہلا پہلو: مکالمے کا پہلو ، ہر قسم کا مکالمہ مراد نہیں ہے بلکہ  اس سے ایک مہذب اور اچھا مکالمہ  مراد ہے ، اور خاص طور پر جب کسی مسلم کا کسی یھودی یا عیسائی کے ساتھ مکالمہ ہو تو قرآن فرماتا ہے:  ﭐﱡﭐ ﱂ ﱃ ﱄ ﱅ ﱆ ﱇ ﱈ ﱉ ﱠ (اور اہل كتاب كے ساتھ بحث ومباحثہ نہ كرو مگر اس طريقہ پر جو عمده)  (سورۀ عنكبوت: 46)
ﭐﱡﭐ  ﲶ  ﲷ ﲸ ﱠ  (اور لوگوں کو  اچھی باتیں كہنا ) (سورۀ بقره: نمبر83 ) ۔
دوسرا پہلو : باہمی تعارف کا پہلو ہے جس سے مراد سمجھ بوجھ،باہمی تعاون ، متاثر کرنا اور متاثرہونا ہے ، "  اے لوگو ّ ہم نے تم سب كو أيك  (ہى) مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور اس لئے تم آپس مسں أيك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديئے ہيں، الله كے نزديك تم  سب ميں باعزت  وه ہے جو سب سے زياده ڈرنے والا ہے۔ يقين مانو كہ الله دانا او ر باخبر ہے۔"  [ سورت الحجرات : آیت نمبر 13 ] ، اس آیت
میں پہلے ہمیں  اصل یکتائی کی یاد دہانی کروائی اور پھر یکتائی سے مناسب باہمی تعارف کے تعلق کی یاد دہانی کروائی ۔
اے بھائیو! واضح ہوگيا کہ قرآن لوگوں کےدرمیان تعلقات کا تعین اس باہمی تعارف کے تعلق پر کرتا ہے جو کہ عقیدہ کی آزادی اور اختلاف کی طبیعت کا منطقی نتیجہ ہے ۔
اسلام میں جنگیں ضروری ہیں ، یہ استثنائی کیفیت ہوتی ہے جس کی طرف اس وقت رجوع کیا جاتا ہے جب یہ ناگزیر ہو ، اور یہی نبی اسلام کی نصیحت ہے : " تم دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو ، اور اللہ سے عافیت مانگو "، جنگیں اقدامی نہیں ہيں بلکہ یہ دفاعی ہیں ، پہلا حکم جو مسلمانوں کو اجازت دے رہا ہے کہ وہ اعلان جنگ کریں اور ہتھیار اٹھائيں ، اس حکم کا سبب مظلوم لوگوں کا دفاع کرنا اور ظلم کو روکنا بیان کیا گیا ہے: ﭐﱡﭐ ﱁ ﱂ ﱃ ﱄ ﱅﱆ ﱇ ﱈ ﱉ ﱊ  ﱋ ﱌ ﱠ  (جن (مسلمانوں ) سے (كافر) جنگ كر رہے ہيں انہيں بھى مقابلے كى اجازت دى جاتى ہے كيونكہ وه مظلوم ہيں۔ بيشك ان كى مدد پر الله قادر ہے)  (سورۀحج : 39 )۔
اسلام میں لڑائی کی اجازت صرف مساجد کا دفاع کرنے  ہی تك محدود نہیں ہے بلکہ یہ اسی قدر گرجا گھروں اور یھود يوں کی عبادت گاہوں کا دفاع کرنے کے لئے بھى جائز قرار دی گئی ہے ، اگر تجھے تعجب کرنا ہے تو اس دین پر تعجب کر جو اپنے بیٹوں کو آگے کرتا ہے تاکہ وہ دوسرے خدائی ادیان کے پیروکاروں اور ان کی عبادت گاہوں کی امن و سلامتی کی خاطر لڑائی کريں ۔ جو سوال بہت سے لوگوں کو حیرانگی میں مبتلا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں سے لڑائی کیوں کی  ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ان کے"  کافر" ہونے کی وجہ سے ان سے لڑائی نہیں کی ، یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مسلمان جس قرآن کو جنگوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے وہ کہتا ہے کہ " جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے " کس طرح اسلام زبردستی دوسروں کو دین میں داخل کرنے کے لئے لڑائی برپا کر سکتا ہے حالانکہ قرآن يه بات تسليم کر رہا ہے کہ : " دین میں کوئی زبردستی نہیں " اسلام کفر کی وجہ سے لڑائی نہیں بلکہ زیادتی کی وجہ سے لڑائی کرتا ہے ، اور اس شق کے تحت قرآن کوئی لحاظ نہیں رکھتا کہ وہ زیادتی کرنے والے کافروں سے لڑے یا زیادتی کرنے والے مومنین سے لڑے :
ﭐﱡﭐﲉ ﲊ  ﲋ ﲌ ﲍ ﲎ ﲏﲐ ﲑ ﲒ ﲓ  ﲔ ﲕ ﲖ ﲗ ﲘ ﲙ ﲚ ﲛ ﲜ ﲝﱠ  ( اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو ۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے)(سورۀ حجرات : 9 )۔
قرآن و سنت کی انتہائی واضح مقدس نصوص كا  یہ سرسری جائزه ثابت كرتا هے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ، ظلم و زیادتی کا دین نہیں ، اور  سلامتی کے اس بنیادی مدار میں تمام خدائی ادیان برابر ہیں ۔
اس کے بعد کچھ سوالات باقی ہیں جن سے میں اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں اور وہ سوالات یہ ہیں :
  جب میری ذکر کردہ اسلام کی بعض نصوص دوسرے مذاهب والوں كے ساتھ اس مذهب كى ذهنى وسعت اور ان كا اور ان کے عقائد کا احترام کرنے کی حقیقت کو واضح کر رہی ہيں تو پھر اس دین کو  دہشت گرد دین کہنا عقلى  طور پر کس طرح درست ھو سکتا ہے ، اور اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی کرنے والے مسلمان ہیں ؟ تو کیا عیسائیت کو بھی دہشت گرد دین نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس کے نام سے بھی دہشت گردی کی گئی ہے ؟! کیا یہودیت کو بھی دہشت گرد دین نہیں کہا جائے گا کیونکہ اسی طرح اس کے نام سے بڑے ہولناک اور بھیانک کارنامے سر انجام دیئے گئے ؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ مختلف ادیان  پر ایمان رکھنے والوں کے جرائم کی وجہ سے ان کے ادیان پر حکم نہ لگاؤ تو یہ بات اسلام کے بارے میں کیوں نہیں کہی جاتی ، ظلم ، بہتان تراشی اور جھوٹ کی بنا پر اس کو اسلام فوبیا کی جیل میں قیدی بنائے رکھنے پر ہی کیوں  اصرار کیا جاتا ہے ؟۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس نایاب  کانفرنس سے فائدہ اٹھائیں  لوگوں کے سامنے اعلان کریں کہ تمام ادیان دہشت گردی کی تہمت سے بری ہیں ؟ کیا ہم اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اگرچہ شرماتے ہوئے ہی کہ مشرق میں مسلمانوں کی جانوں کو ضائع کرنے والی بھیانک دہشت گردی خواہ جو بھی اس کا نام هو جو بھى اس كا  لقب هو اور بلند کئے جانے والے جو بھى بینرز ھوں ، اس کے اسباب  کا شریعت اسلام اور مسلمانوں کے قرآن سے کوئی تعلق نہیں  ، بلکہ ان  دوررس اسباب کی جڑیں ان بڑی بڑی ظالمانہ سیاستوں سے جا ملتی ہیں جو دوسروں پر تسلط قائم کرنے ، قبضہ کرنے اور دو پیمانوں سے پیمائش کرنے کی عادی ہو چکی ہیں؟   
شکریہ ، اور بات لمبی ہو جانے کیلئے معذرت خواہ ہوں، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
احمد الطیب

مقامِ تحرير: دفتر شيخ الازهر

تحریر 1 شعبان 1438 ھجری، موافق: 27 اپریل 2017ء

سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024