22/10/2018

بین الاقوامی سیمنار "اسلام اور مغرب: تنوع اور انضمام"

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
امام الاکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر کی طرف سے، اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کی عصری قراءت کے مسائل کے مطالعہ اور تحقیق کی اہمیت کے پیش نظر، اور خاص طور پر دنیا بھر میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے پیروکاروں کے ساتھ مکالمے اور رابطے کے مزید پل تعمیر کرنے، لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنا مؤثر حصہ ڈالنے کے لیے امام الاکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر نے نظامی گنجاوی انٹرنیشنل سینٹر (NGIC) کے تعاون سے قاہرہ میں 22 سے 24 اکتوبر 2018 تک؛ اسلام اور مغرب کے تعلقات کے عصری مطالعہ کے مسائل پر مطالعہ اور تحقیق کرنے کے لیے، "اسلام اور مغرب... تنوع اور انضمام" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی سمپوزیم کا انعقاد کیا۔ چونکہ اسلام مغرب کے لیے اجنبی نہیں ہے، اور "مغرب کے لیے غیر ملکی" عجیب و غریب عقائد کے کے مجموعے کی نمائندگی بھی نہیں کرتا ہے۔ لیکن اب یہ یورپ میں دوسرا مذہب ہے، اور بہت سے مغربی ممالک میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد اسے قبول کرتی ہے۔

انتہا پسند عناصر اور دہشت گرد آبادی کی اکثریت اور ان کے درمیان بسنے والے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہدف تھا جس کا تعاقب بہت سے انتہا پسند گروہوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں پر انحصار کرتے ہوئے یا پسماندہ یا حتیٰ کہ ذہنی طور پر بیمار لوگوں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو اپنا کر کیا۔ 
پاپولسٹ سیاستدانوں نے عوام کے خوف کا فائدہ اٹھایا ہے، وہ امیگریشن، کثیر ثقافتی اور بے روزگاری کے مسائل پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ان کے لیے مضبوط سہارے کی ٹھوس بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔


متعدد مسلم اکثریتی ممالک میں محافظ تنظیموں نے بھی رواداری والے اسلامی مذہب میں جڑے رویوں سے کوسوں دور گفتگو کو فروغ دے کر بیگانگی کے احساس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس کی گواہی قرون وسطیٰ میں مسلمانوں کی تاریخ سے ملتی ہے، اندلس سے ہندوستان تک اور وسطی ایشیا سے افریقہ تک، ایک ہزار سال کے قریب آنے والی طویل تاریخ سے گزرتے ہوئے اور زیادہ تر حصہ یورپ کے تاریک دور سے ملتا ہے۔

یہ سمپوزیم مشرق و مغرب کے اس اقدام کے تحت آیا جو الازہر اور مسلم کونسل آف ایلڈرز نے دو سال قبل عالمی شراکت داروں کے ساتھ شروع کیا تھا جیسے: ورلڈ کونسل آف چرچز، کینٹربری کے آرکڈیوسیز، اور سینٹ ایگڈیو آرگنائزیشن۔



اس سمپوزیم کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دقیانوسی اور پیشگی تصورات سے بالاتر ہو کر، کچھ میڈیا اداروں کی طرف سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے لیے جو الزام تراشی کی گئی تھی، اس سے ہٹ کر ایک معروضی وژن اور علمی  بنیادوں پر مبنی ایک مشترکہ فہم پر پہنچنا تھا، نیز مشترکہ تعاون کو تقویت دینا، نظریات کی ہم آہنگی، اور تین توحیدی مذاہب "یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔"  جو چیز لائے ہیں ہس کو مضبوط کرنا: (اور وہ ہے) ایک دوسرے کو جاننے کی دعوت ، تشدد کو ترک کرنا اور غلط فہمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

سمپوزیم میں اسلام اور یورپ کے تعلقات سے متعلق عصری مسائل پر گفتگو کی گئی۔ سمپوزیم میں آٹھ سیشنز شامل ہیں، جن میں کئی مباحثے ہیں، جن میں سے سب سے نمایاں یہ ہیں: "اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کی ترقی" – "اور مسلمانوں اور باقی یورپین کے درمیان کشیدگی کا حل شہریت ہے"۔  اور "قوم پرستی، شہرت اور مذہب کی حیثیت"، ڈیموگرافی، نظریہ، ہجرت اور مستقبل" 
اسی طرح سمپوزیم نے کچھ کامیاب بقائے باہمی کے تجربات کا بھی جائزہ لیا، جیسے "مصری خاندانی گھر"  کا اقدام اور "سوئس تجربہ"۔

سیمینار کا مہنج:
اس سیمینار میں مغرب کے اسلامی اسکالرز کے علاوہ اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کا مطالعہ کرنے والے مشہور اسکالرز کو جمع کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ تاکہ یورپ اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولے جائیں، اور  انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے لیے میڈیا کی جانب سے استعمال کیے جانے والے متنازعہ اور الزام تراشی کے طریقوں سے دور کر مغرب میں مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان دراڑ کو ختم کرنے کے بارے میں کچھ عملی نتائج تک پہنچا جائے

یہ اجتماع نامور ماہرین تعلیم کی زبردست صلاحیتوں اور علم پر مشتمل تھا۔ سمپوزیم نے ہمارے علمی شعبوں میں مطالعہ اور تحقیق کی حالت کے جرات مندانہ انکشاف پر انحصار کیا، اور اسلامی علوم کے میدان میں کیا بہتر کام کیا جا سکتا ہے اس کی طرف دریچے کھولنے کے لیے متعدد سوالات کیے، جن میں سے سب سے نمایاں یہ تھے:

نمبر 1: اسلامی علوم سے متعلق مضامین کے تدریسی طریق کار اور ان علوم پر تحقیق کا دائرہ کار اور طریقہ کار اعلیٰ تعلیم کے مغربی اداروں اور مسلم اکثریتی ممالک میں مختلف ہے۔ اتفاقی نکات کیا ہیں؟ اختلافی نکات کیا ہیں؟ ہم مشترکہ بنیاد کہاں تلاش کر سکتے ہیں؟

نمبر 2: نئی ڈیجیٹل حقیقت کی آمد کے ساتھ، ڈیجیٹل کتابیں اس سے نمٹنے کے نئے طریقوں کی اجازت دیتی ہیں۔ ان میں بڑے ڈیٹا اینالیٹکس، مشین لرننگ، اور پیٹرن کی شناخت کا استعمال شامل ہے۔ دیگر نئے طریقوں کے علاوہ، جو فی الحال تیار ہو رہے ہیں اور وقت کے ساتھ تکرار کی تعداد سے لے کر مختلف اعمال کے درمیان فوقیت کا تعین کرنے تک۔ ہمیں ہر چیز کو استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔

بہت سے مغربی اداروں میں  علم مخطوطات (کوڈیالوجی) کو بڑا مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ابھی بہت سے مشرقی اداروں میں ابھر رہا ہے۔ کیا نئی ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں کچھ کیا جا سکتا ہے، اسلامی دنیا میں ابھی تک جن اہم ذرائع کا مطالعہ نہیں کیا گیا ان کے مطالعہ کے میدان میں پیش رفت ہو گی؟ کیا اس سے مغربی اور اسلامی معارف کے درمیان تعلق کے مطالعہ میں تعاون کا کوئی میدان کھلتا ہے؟ کیا ہم اس طرح کے تعاون کے لیے کوئی پروگرام تیار کر سکتے ہیں؟

نمبر 3: اس سیاسی صورتحال کی روشنی میں جس نے دنیا میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ کیا مغربی علماء کے لیے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک یا زیادہ کتابچہ (انگریزی، فرانسیسی اور عربی میں) تیار کرنے میں مشرقی اداروں کے ساتھ حصہ لینا لازم ہے؟ جو مغرب اور عرب نوجوانوں کے لیے یکساں مرجع بن سکتا ہے؟

آگے بڑھنے کے لیے اگلے کون سے اقدامات پر متفق ہو سکتے ہیں؛ تاکہ  یہ انوکھا واقعہ ایک ہی وقت کا واقعہ نہ بن کہ رہ جائے؟

اس سمپوزیم میں متعدد سابق صدور اور وزراء، ممتاز سیاسی، بین الاقوامی اور علمی شخصیات، اور مشرق و مغرب سے تعلق رکھنے والے متعدد زعماء، اور مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی، خاص طور پر: جمہوریہ البانیہ کے سابق صدر؛ جناب امین جمیل، جمہوریہ  لبنان کے سابق صدر، بیلجیئم کے سابق وزیراعظم، اور جناب عمرو موسیٰ، عرب لیگ یونیورسٹی کے سابق سیکریٹری جنرل، اور جاپانی ایسوسی ایشن فار کیویسی اسٹڈیز کے نائب صدر (قابل ذکر ہیں)۔

بین الاقوامی سیمنار "اسلام اور مغرب: تنوع اور انضمام" میں گرینڈ امام کا خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الحمد للہ، والصلاۃ و السلام علی سیدنا رسول اللہ، وعلی آلہ و صحبہ و من اھتدی بھداہ ۔
اسٹیج کی زینت قابل احترام شخصیات!
معزز مہمانان گرامی قدر!
حاضرین محترم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کو دنيا كے سب سے قدیم علمی انسٹیٹیوٹ اور پرانی یونیورسٹی ازہر شریف کے شہر، وادی نیل، سرزمینِ اہرامات، علوم و ثقافات کی آغوش اور تہذیبوں کے سنگم مصر محروسہ میں خوش آمدید ۔۔آپ اپنوں میں آئے ہیں اور اچھی جگہ آئے ہیں ۔۔ آپ خوش رہيں، آپ كا سفر اور آپ كا قیام کرنا مبارک ہو ۔
شرق وغرب کے درمیان مکالمہ کے سیمینارز میں سے اس عالمی سیمینار میں شرکت کے لئے آپ کا دعوت قبول کرنے پر ازہر اور اس کے تمام ادارے آپ کے شکر گزار ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ سیمینار اسلام اور مغرب کے درمیان  تعلقات کے معاملہ پر تبادلہ خیال کرنے میں ایک نمایاں ثمرآور سیمینار ثابت ہوگا، ایسا تبادلہ خیال جو کھل کر بات کرنے اور حقیقت حال کو واضح کرنے پر مبنی ہو گا اور ان تلخ حالات کو اپنے پیش نظر رکھے گا جن کا یہاں مشرق میں ہماری عوام سامنا کر رہی ہے اور وہ آپ جیسے عقلاء کے تدبر اور حکماء کے غوروفکر کے محتاج ہیں ۔
محترم خواتین وحضرات!
میں نے بہت غوروفکر کیا كہ اس سيمى نار ميں مجهے كيا گفتگو كرنى چاہيئے - اور میں نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جو ایک متکرر موضوع کے بارے گفتگو کرنے پر مجبور شخص کی حالت کے مشابہ ہے، اس کے بارے میں بہت گفتگو کی جا چکی ہے اور کئی ایسے بیانات اور سفارشات صادر ہوئی ہیں کہ  تہذیبوں کے درمیان مکالمہ، اور اپنے اس دور حاضر کو تصادم اور کشیدہ سلامتی، کل کی سرد جنگوں اور آج کی بھڑکتی ہوئی جنگوں کے خطرات سے بچانے کے لئے ان کے درمیان ایک جامع بات پر اکٹھے ہونے کی ضرورت  کی دعوت دینے میں ان کی قدر و قیمت  کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا، مگر شرق و غرب کے حکماء کی ان قابل قدر کاوشوں کے باوجود راستہ ابھی تک دشوار ہے اور اس سے بھی بڑھ کر يہ كہ مزيد کوشش کرنا ضروری ہے، میں نے موجوده اور متوقع صورتحال کے درمیان اس غیر منطقی خلا میں غوروفکر کیا ہے اور میرے لئے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس كى وجہ مکالمہ کی راہ میں رکاوٹوں کے پائے جانے کی ہو سكتى ہے ، ان رکاوٹوں کی تشخیص اور ان کا حل پیش کرنے کے لحاظ سے ان پر توجہ مرکوز کرنے میں مشغول ہونا اس طویل سفر کی مختصر ترین اور مفید راہ ہو سکتی ہے، اس سیمینار میں میری کی جانے والی گفتگو اسی پہلو سے ہو گی جسے میں افکار ، تاملات اور بیداری کے خواب کی صورت میں اختصار کے ساتھ پیش کروں گا ۔ 
میں آپ حضرات کے سامنے اس بارے میں سب سے پہلے ميں آپ كو يقين دلانا چاہتا ہوں كہ مجھے یقین ہے کہ مختلف ادیان اور تہذیبوں کے لحاظ سے شرق کو غرب کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، خواہ ہم غرب کو وه سمجهيں جس كى نمائندگى اس کے بڑے بڑے دینی ادارے كرتے ہيں یا ہم اسے ایک مادی علمی تہذیب کے مفہوم کے طور پر لیں- اور یہ مشرقی تہذیبوں کی تاریخ اور دین اور علم کے بارے میں ان کے ثابت شدہ موقف کی بنیاد پر ہے- اس دین اور علم کا وطن جو بھی ہو اور وہ عالم اور مومن جو بھی ہو ۔ 
میں نہیں خیال کرتا کہ یہ  مسئلہ کسی دلیل یا استدلال کا محتاج ہے، ماضی میں یورپ کے وسط میں اندلس کی تہذیب اور دور حاضر میں ازہر شریف کا یورپ میں تمام بڑے بڑے دینی اداروں کے لئے فراخدل ہونا اور ان مغربی اداروں کی طرف سے ذمہ دارانہ سنجیدہ جواب شرق میں اسلامی معاشروں اور غرب میں مسیحی اور سیکولر معاشروں کے درمیان باہمی قرب کے امکان کی قوی دلیل ہے، یہ باہمی قرب پہلے بهى ہوا  ہے اور اس کا دوباره ہونا ممکن ہے، اور اس کا معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ شاعر Rudyard Kipling نے کہا ہے کہ: "شرق شرق ہے، غرب غرب ہے، اور یہ دونوں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے"۔
یہاں میں اسلامی مسیحی مکالمہ کے مسئلہ کے بعض مغربی متخصصین کی نئی تحقیقات كا ذکر کرتا ہوں جن میں وہ اسلامی، مسیحی اور یھودی تینوں اندلسی تہذیبوں کے طرز کی تاریخ کا تقاضہ کرتے ہیں تاکہ حالیا جاری مکالمہ کی راہ کے لئے نقشہ سازی کرنے اور اس مکالمہ کے اصولوں اور اس کے بنیادی اغراض و مقاصد کے لئے نظری اور تطبیقی دائرہ کار کی خاکہ سازی  کرنے میں ان نمونوں سے رہنمائی حاصل کی جائے، اور بالخصوص دور حاضر کی ان مغربی کاوشوں کے صرف کئے جانے کے بعد جن کا مشرقی کاوشوں نے اسلام اور غرب کے درمیان مکالمہ کے کارواں کو آگے بڑھانے کے لئے جواب دیا ہے، اور ان میں سرفہرست ويٹيكن دوم اکیڈمی(1962-1965) کی قرار دادیں، پوپ پولس ششم کا بعض عرب  ممالک، جن میں سرفہرست فلسطین ہے، کا دورہ ، 2004م میں تہذیبوں کے باہمی معاہدے کے پروجیکٹ کی بنیاد رکھنے والا اقوام متحدہ کا اعلان جس نے شرق و غرب میں مکالمہ کی عالمی کانفرنسز کرنے پر ابھارا، اسی طرح گزشتہ اپریل میں پوپ فرانسیس کا دورہ مصر اور سلامتی کے لئے ازہر کی عالمی کانفرنس کی افتتاحی نشست میں شرکت، ازہر اور كنٹربيرى کے صدر، جنيوا میں کلیساؤں کی عالمی کونسل اور جرمنی میں پروٹسٹينٹ کلیسا کے درمیان باہمی دورے ہیں ۔ 
ان متخصصین نے مقامی اور عالمی سطح پر کی جانے والی کاوشوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اور ان ملاقاتوں سے برآمد ہونے والے نتائج کے درمیان دوری پیدا کرنے والی  مشکلات اور مصائب کو محسوس کیا جن کو "گمشدہ سلامتی" کا غم رکھنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے ۔ 
میرے اس یقین کی، کہ شرق یا اسلام کو غرب کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، جو چیز مزید تاکید  کرتی ہے وہ ہماری موجودہ صورتحال ہے جس کی آسائش و تلخی اور خیر و شر کے ساتھ ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر آج تک جب سے غرب پر مسلمانوں کے دروازے کھلے ہیں اس وقت سے مسلمان نظری اور عملی لحاظ سے اپنى زندگی میں مغربی تہذیب کی بے شمار چیزوں پر اعتماد کرتے ہیں، یہ ہمارے سکولز اور یونیورسٹیز بلکہ ہمارے بچوں کے غیر ملکی سکولز ہیں – بڑے افسوس کے ساتھ کہ- یہاں وہ عربی زبان، جو کہ ان کے آباء و اجداد اور ان کی قومی زبان ہے، میں گفتگو کرنے سے زیادہ  بہتر انگلش، فرانسيسى اور جرمنی میں گفتگو کرتے ہیں ۔
میں کہتا ہوں: کہ یہ تعلیمی ادارے ہمارے بچوں کو اس سے زیادہ علمی اور ادبی مواد سکھاتے ہيں جو یورپی طلبہ اپنی مغربی یونیورسٹیز میں سیکھتے ہیں، یہ ازہر یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جو میڈیکل، فارمیسی، انجینئرنگ، انفارمیشن اور زراعت وغیرہ کی فیکلٹیز میں نئے مغربی تعلیمی مناہج پڑھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تراث پڑھانے پر فخر کرتی ہے ۔ 
اس یونیورسٹی میں اجنبی زبانوں کی تعلیم اور مختلف علمی شعبوں میں ان کے آداب کی تدریس کے لئے ایک فیکلٹی ہے جس کے بڑے ہالوں میں مغربی ادب کے مختلف مدارس کے قائدین کے نام گردش کرتے ہیں، بلکہ میں اس سے  بڑھ كر كہتا ہوں کہ ((ہماری یونیورسٹیز میں عربی ادب کے شعبے اپنے مسلم اور غیر مسلم عرب طلبہ کو مغرب میں معروف تمام تنقيدى مذاہب پڑھاتے ہیں، اور اسی طرح فلسفہ کے شعبے اپنے طلبہ کو مغربی فلسفہ کے تمام مذاہب پڑھاتے ہیں، بلکہ میں اس سے بھی مزید آگے جاتا ہوں جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں فیکلٹی آف اصول الدین میں ایسے جلیل القدر شیوخ کے ہاں فلسفہ پڑھا جنہوں نے یورپ کی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کی، اور یورپی اساتذہ کے ہاتھوں اپنی اعلی ڈگریاں حاصل کیں، اور انہوں نے ہمارے دلوں میں ان اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کے احسان کا اعتراف پیدا کیا اگرچہ ہمارا ان کے ساتھ اختلاف ہے)) - یہ فراخدلی جو ہمارے اساتذہ ہمیں سکھانے پر حریص تھے، اتنی اس تعلیم کا عکس نہیں تھی جو انہوں نے مغرب کی یونیورسٹیز کے ہالوں میں سکھی جس قدر یہ اسلام کا دوسرے کے ساتھ متاثر ہونے اور متاثر کرنے کے لحاظ سے باہمی تعلق رکھنے کے بارے میں اسلامی فلسفے کا عکس تھی۔۔
یہ مسلم فلسفى  ابن رشد ہے جسے مغرب کی یونیورسٹیز جانتی ہیں، اور قرون وسطی میں یورپ پر اس کے احسان کو بھی جانتی ہے، وہ ایک نص میں- میں جس کو یاد دلانے  میں اكتاہٹ  محسوس نہیں کرتا ،۔ عقلی نظر کی ضرورت،  مسلمانوں کا دوسروں کی ثقافتوں کو  قبول کرنے کی مشروعیت اور تمام علوم جن میں علم فلسفہ بھی ہے جو کہ ادیان اور عقائد کو مس کرنے والا سب سے زیادہ خطرناک علم ہے، میں اپنے سے گزشتہ لوگوں کی کاوشوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت کا اصول بیان کرتے ہیں، ابن رشد اس نص میں کہتے ہیں: ((اگر ہم اپنے سے پہلی امتوں کا موجودات کے بارے میں کوئی غوروفکر پاتے ہیں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس بات میں غوروفکر کریں جو انہوں نے اس بارے میں کہی ہے، اور اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے، پس اس میں سے جو حق کے موافق ہو گا ہم اس کو قبول کریں گے، اس سے خو ش ہونگے اور اس پر ان کے شکر گزار ہونگے، اور جو حق کے موافق نہیں ہو گی ہم اس پر متنبہ کریں گے، اس سے محتاط رہیں گے اور ان کو اس پر معذور سمجھے گے))۔ 
ابن رشد اس نص میں جو بات کہہ رہے ہیں وہ اپنی ذات کی بناوٹ یا دوسرے کی خوشامد کے لئے نہیں کہہ رہے، بلکہ وہ اس میں اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول کو واضح کر رہے ہیں جو حقیقت کی تحقیق کرنے، اس کو ظاہر کرنے والے کا شکر ادا کرنے اور جس پر وہ پوشیدہ رہے اس کو معذور سمجھنے پر ابھارتا ہے اور اس کو ہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہے کہ جو مجتہد حق کو پا لے اس کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے دو اجر ہیں: تحقیق کرنے کی مشقت کا اجر اور حقیقت کو پانے کا اجر، اور جو مجتہد اپنے اجتہاد میں حق تک رسائی حاصل نہ کر سکے اس کے لئے ایک اجر ہے جو کہ تحقیق کرنے کی مشقت اور تکلیف کا اجر ہے ۔ حقیقت کا متلاشی اور اس کو ظاہر کرنے کا اہل آدمی اسلامی فلسفہ میں ہمیشہ یا تو مشکور ہے یا معذور ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی اور مساوات دوسرے کے ساتھ فراخدلی میں اس حد تک پہنچتی ہو یہاں تک یہ مساوات پہنچتی ہے ۔ 
محترم مہمانان گرامی قدر! تم میں سے جو بھی ازہر کے پرانے علاقے میں ہماری قدیم ازہری فیکلٹیز کی زیارت کا ہمیں شرف بخشے گا وہ ہمارے طلبہ کو جو کہ مستقبل کے شیوخ ہیں،  یورپی زبانون کی تعلیم دینے اور ان میں سے ممتاز طلبہ کو یورپ کی یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم کے لئے تیار کرنے کا ایک انسٹیٹیوٹ دیکھے گا، اور ازہر شریف کے ہیڈ آفس کے زیر سایہ  اس انسٹیٹیوٹ کو چلانے اور اس کی نگرانی کرنے میں برطانوی ثقافتی سنٹر، فرانسیی ثقافتی سنٹر اور جرمن گوئٹے انسٹیٹیوٹ شریک ہے ۔ 
ازہر کے یہی مناہج اپنی پختگی اور حکمت خواہ وہ یہاں بھی پائی جائے، کے بارے میں اپنے باشعور فراخدلی  کی وجہ سے  اپنی فکر اور طرز عمل میں معتدل اور زمانے، اس کے اشکالات اور اس کے عطیات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر قادر ازہری عقل تیار کر رہے ہیں-
ایک اور بات جو شرق و غرب کے درمیان تعلقات کے معاملہ میں بہت سے لوگوں پر مخفی ہے وہ یہ کہ یورپی تہذیب و ثقافت کے بہت سے مظاہر آج ہماری مشرقی تہذیب کے مختلف سیاسی، تعلیمی، معاشرتی اور فنی شعبوں کی گہرائی تک رچ بس گئے ہیں، اور دونوں ثقافتوں کے درمیان اختلاف تقریبا دین اور عقیدہ اور ان دونوں کے ساتھ مربوط اقدار، تاریخی اور ثقافتی تقالید کے دائرے تک محدود رہ گیا ہے جس سے کسی بھی قوم یا امت کو جائے فرار نہیں جو اپنی ثقافت پر  حریص ہوتی  ہے اور عدوان، ختم ہونے اور مٹ جانے سے اس کی حفاظت کرتی ہے۔ 
محترم خواتین وحضرات !
اس بیان کے بعد شاید آپ اس بات پر میرے ساتھ اتفاق كريں کہ یہاں ایک جائز سوال اپنے آپ کو فرض کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کہاں ہے اپنے آپ تک محدود اور اپنے ماضی میں محبوس اسلام جس کے پیروکار مغرب کی تہذیب اور کائناتی اور انسانی علوم میں ان کی بڑی بڑی ایجادات پر ایک سخت خطر بن رہے ہیں؟! کہاں ہے مسلم قوموں میں سے کوئی ایک قوم بھی جو مکمل تباہی کرنے والے ہتھیار کے کارخانوں میں سے کسی ایک کارخانے یا خطرناک متشدد طاقت کے ذرائع میں سے کسی ایک ذریعہ کی مالک ہو جس کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہو کہ وہ ان بین الاقوامی قوتوں کے لئے خطرہ بن رہی ہے جو کہ- بڑے افسوس کے ساتھ - اپنی مرضی کی بات کہنے اور اپنی مرضی کا کام کرنے میں ایسی آزادی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں جس کی کوئی چھت نہیں ہے اور وہ ہر اس شخص پر اپنی سخت لاٹھی چلاتی ہیں جو ان کی مخالفت کرتا ہے یا ان کو واپس لوٹانے میں غوروفکر کرنے کی جرات کرتا ہے!!
میرے خیال کے مطابق اور میں درست بھی ہو سکتا ہوں اور نہیں بھی، مشکل ان عالمی قوت میں پوشیدہ ہے جس پر اس شعور کی بناء پر کہ وہی سب سے ترقی یافتہ اور بہترین تہذیب اور قوموں کی قیادت و رہنمائی کی مطلق حقدار ہے، ظلم و تکبر، دوسروں پر مسلط ہونے اور ان کو اپنے ذاتی منافع اور مصالح کے لئے اپنے تابع کرنے کے حق کا شعور غالب ہوتا ہے ۔
یہ بعینہ وہی ذرائع ہیں جو قدیم سامراج نے اختیار کئے، اور ان کے ذریعے قوموں کی صلاحیتوں اور ان کی پیداوار پر قبضہ کرنے کا جواز مہیا کیا ۔ 
محترم فضلاء کرام! میں ان لوگو ں میں سے ہوں جو ثقافتوں کے باہمی تعارف، ان کی یکسانیت اور ان کے باہمی تعاون پر ایمان رکھتے ہیں، جس قرآن کریم کو میں نے بچپن سے حفظ کیا ہے میں نے اس سے سیکھا ہے کہ باہمی تعارف ہی امتوں اور قوموں کے درمیان تعلقات کا قانون ہے، اور یہ قانوں اس آیت کریمہ میں مذکور ہے جس کو شرق و غرب میں مسلم اور غیر مسلم جانتے ہیں، اور وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
ﭐﱡﭐ ﱥ ﱦ ﱧ ﱨ ﱩ ﱪ ﱫ ﱬ ﱭ ﱮ ﱯﱰ ﱱ ﱲ ﱳ ﱴ ﱵﱶ ﱷ ﱸ ﱹ ﱺ ﱻ ﱠ (سورۂ حجرات: 13) ۔
اے لوگو ّ ہم نے تم سب كو أيك  (ہى) مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور اس لئے تم آپس مسں أيك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديئے ہيں، الله كے نزديك تم  سب ميں باعزت  وه ہے جو سب سے زياده ڈرنے والا ہے۔ يقين مانو كہ الله دانا او ر باخبر ہے۔ (سوؤۀ الحجرات: آيت نمبر 13۔
 اسی طرح میں نے مسلمانوں کے ہاں عقلی تراث کو پڑھنے اور اس کے مشرق وسطی میں دینی فلسفوں اور ہندی اور یونانی ثقافتوں کے ساتھ باہمی تبادلہ سے یہ قانون سیکھا ہے ۔ 
کبھی ذہن میں بھی نہیں آیا تھا کہ بیسویں صدی، تہذیبی ترقی اور انسانی عروج کی صدی، انسانی حقوق اور سلامتی کے بین الاقوامی چارٹر کی صدی، عنقریب ایسے نظریات اور مذاہب کے ظہور ہونے کے ساتھ ختم ہوگی جو قوموں کے درمیان جنگوں کی راہ ہموار کریں گے، اور تہذیبوں کے درمیان کشمکش کو جواز مہیا کریں گے، ایک طویل عرصہ تک طبقاتی کشمکش کا نظریہ ہماری سماعتوں سے ٹکرایا جو آخرکار ختم ہو گیا اور تیز ہوا کے تھپیڑوں کی نذر ہو گیا، تہذیبوں کی کشمکش میں "نظریہ نھایۃ التاریخ" اور نظریہ "ہنگٹنہی وہ نظریات ہیں جن کی جڑیں خالص نسل پرستی کی تجویزات تک پہنچتی ہیں، ان میں سرفہرست اقتصادیات اور حیاتیات کے ماہر جرمن عالم ماکس فیبر (1864-1929) کا نظریہ ہے جس کے گزر ہوئے آج تقریبا ایک مکمل صدی گزر گئی ہے، اس عالم نے اپنے نظريے کی بنیاد اس دعوے پر رکھی کہ: ((مغربی تہذیب کا دوسری انسانی تہذیبوں کے ساتھ موازنہ کرنا مغربی تہذیب کا اپنى نوعیت کی نمایاں خصوصیات میں منفرد ہونا ثابت کرتا ہے جن کی دوسری تمام تہذیبوں میں کوئی مثال نہیں پائی جاتی اور مغربی تہذیب کی خصوصیات کو مغرب کی تہذیب کے باہر کسی بھی دوسری انسانی تہذیب نے نہیں جانا ))۔ 
پھر مشہور انگریز مستشرق (برنارڈ لوى)آیا تاکہ وہ اپنی کتاب (الاسلام) میں یہ یقین دہانی کرائے کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے 1957ء کو [صدام الحضارات: تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ] کا تصور پیش کیا۔ لویس نے عالم عرب اور عالم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے 1990ء میں اس نظریہ کو ایک بار پھر دہرایا تاکہ وہ نئےسر سے یقین دہانی کرائے کہ اسلام کے بالمقابل مغرب کا معاملہ تاریخی اور حقیقی تہذیبوں کے تصادم کا معاملہ ہے، دوسری ساری تہذیبوں میں سے اس دین اسلام اور اس کی تہذیب سے مغرب کا تصادم اس کے بقول: (ہماری یھودی اور مسیحی تراث کے پرانے دشمن کے خلاف رد عمل ہے)، اور پھر وہ کہتا ہے: ((تہذیبوں کا تصادم نئے بین الاقوامی تعلقات کا اہم مظہر ہے))۔
محترم خواتین وحضرات!
میں التماس کرتا ہوں کہ میری گفتگو سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں سارا الزام مغرب اور اس کی تہذیب پر لگا رہا ہوں، مشرق میں بھی ایسے عیب اور منفی چیزیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے اسلام سے خوف کی صورتحال جو کہ آخری عرصہ میں مغرب کی عوام میں عام ہو گئی ہے، کو مزید پختہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اور ان عیبوں میں سے خطرناک عیب دہشت گردی کے بارے میں مشکوک خاموشی ہے جس نے مسلح سیاسی تحریکوں کے لئے اسلام اور اپنے دہشت گردانہ جرائم کے درمیان ربط پیدا کرنا اور اپنی تنظیموں پر دینی نام کا اطلاق کرنا ممکن بنایا جن کے ذریعے انہوں نے بہت سے ان نوجوان لڑكوں اور لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچا جن کو مصنوعی دینی مظہر نے بہکایا حتی کہ یورپی اور امریکی لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہو گئی ہے کہ تشدد اور اسلام دو جڑواں رضائی بھائی ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے ۔
حتی کہ مغرب اور مغربی لوگوں کے سامنے حقیقت کو واضح کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ دین اس پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے پیروکاروں کی آنکھوں کے سامنے خوفناک دہشت گردى كے  انہ جرائم کے ارتکاب کے لئے زبردستی اغوا کیا گیا ہے، اور مسلمان جن پر تشدد اور بربریت کا الزام لگایا جاتا ہے وہی – نہ کہ ان کے علاوہ کوئی اور – اس سیاہ دہشت گردی کا نشانہ ہیں، اور دہشت گردی کے اسباب کا تعاقب کرنے اور اس کی دور رس علتوں کو تلاش کرنے کا محل نہ اسلام ہے اور نہ ہی آ‎سمانی ادیان، اس کا صحیح محل وہ عالمی نظام ہیں جو نئے سامراج، قابل نفرت نسل پرستی کی پالیسیوں اور اسلحہ اور اسلحہ سازی کی مارکیٹوں میں ادیان، اقدار، اخلاق اور اعراف کی تجارت کرتے ہیں-
آپ کے حسن سماعت کا شکریہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024