امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے مکالمے، رواداری، بھائی چارے اور امن کے مسائل کو بہت اہمیت دی۔انہوں نے ان انسانی اقدار کو زمین پر لاگو کرنے کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جب انہوں نے "مصری خاندانی گھر" کے قیام کا اعلان کیا، جو مصر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرتا ہے۔ جس کا ہدف قومی دھارے کی حفاظت تھا اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک میں بقائے باہمی، رواداری اور بھائی چارے کے لیے ان کی مسلسل پکار اس کے علاوہ ہے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ مذاہب تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے آئے ہیں، اور یہ کہ پوری دنیا میں امن کا غلبہ ہونا چاہیے اور تمام انسانوں کو اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے، اور یہ چیز صرف مضبوط ارادے اور ان ثوابت پر پختہ یقین، اور انسانی خاندان کے تمام افراد کی مخلصانہ خواہش اور مشترکہ ذمہ داری کے ساتھ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
امام الاکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد اطیب، شیخ الازہر ، اپنے بھائی پوپ فرانسس، ویٹیکن کے پوپ کی زیارت کے موقع پر اور ایک فراخ دل دستر خوان پر، جہاں وہ اپنے بھائی پوپ فرانسس کے گھر میں مہمان تھے۔ انسانی برادری کی دستاویز کا خیال اس وقت پیدا ہوا جب اس مبارک میز پر موجود نوجوانوں میں سے ایک نے یہ خیال پیش کیا۔
اس فکر کو تقدس مآب پوپ کی طرف سے پرتپاک خیرمقدم اور توثیق ملی، اور ان کے عظیم الشان امام الاکبر شیخ الازہر کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوئی۔ پھر یہ کئی مکالموں کے بعد جس میں انہوں نے دنیا کے حالات و واقعات پر غور کیا، نیز مرنے والوں، غریبوں، دکھیوں، بیواؤں، یتیموں، مظلوموں اور خوف زدہ لوگوں کے المیے، اور اپنے گھروں، اپنے وطنوں اور اپنے خاندانوں سے بھاگنے والوں پر غور کیا، اور سوچا کہ الہامی مذاہب ان پریشان حالوں کے لیے کیا نحات کا راستہ پیش کر سکتے ہیں۔
جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی، دونوں نے مشترکہ طور پر 3-4 فروری 2019 کو "انسانی برادری سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس" کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا، جس کی میزبانی متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی نے متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد آل مکتوم اور ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زید النہیان کی موجودگی میں کی۔ اور مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد، اور دنیا بھر سے اہم ترین دانشور، ثقافتی اور میڈیا شخصیات کے ایک گروپ نے شرکت کی۔ اس کا مقصد انسانی بھائی چارے کے حصول کے لیے دنیا بھر کے امن پسند لوگوں کے ساتھ تعاون کے لیے ایک مشترکہ فارمولے تک پہنچنا ہے۔
اس کانفرنس کے سب سے نمایاں نتائج میں سے ایک ڈاکٹر احمد الطیب، شیخ الازہر اور ویٹیکن کے پوپ پوپ فرانسس کے درمیان "انسانی برادری" کی دستاویز پر دستخط تھے۔
یہ نیک اور مخلصانہ ارادوں کے مشترکہ اعلان کے طور پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ ان تمام لوگوں کو دعوت دی جائے جو اپنے دلوں میں خدا پر یقین اور انسانی بھائی چارے کا یقین رکھتے ہیں۔ اور اس دستاویز کے لیے متحد ہونا اور مل کر کام کرنا تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے رہنما بنیں، انہیں باہمی احترام کی ثقافت کی طرف لے جائیں۔
اس دستاویز کو بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی ملی اور وسیع پیمانے پر یہ پھیلی ۔ انسانی تعلقات کو مضبوط بنانے اور تمام انسانی معاشروں کے درمیان رابطے، ہم آہنگی اور محبت کے پُل بنانے کے لیے ایک عملی اور اہم قدم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی دو اہم اور سب سے بڑی مذہبی علامتوں کے درمیان اس پر دستخط کی وجہ سے اسے جدید دور کی سب سے اہم تاریخی دستاویز سمجھا جاتا ہے۔
كلمات الإمام كلمـة فضيلة الإمام الأكــــبر أ.د/ أحـمــد الطــيب شــيخ الأزهــــر رئيس مجلس حكماء المسلمين في: اللقاء العالمي للأخــــوة الإنســــانية
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیتھولک کلیسا کے پوپ میرے بھائی اور دوست جناب پوپ فرانسس، عزیز بھائی عالی مرتبت
محمد بن زاید اور ان کے بھائی جناب محمد بن راشد اور متحدہ عرب امارات کی تمام قیادت
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اما بعد :
میں سب سے پہلے متحدہ عرب امارات کی قیادت اور عوام کا بھرپور شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اس تاریخی لمحے کی میزبانی کا شرف حاصل کیا، جہاں مختلف مذاہب كے رہنما، علماء، اہل کلیسا، سياستدان، مفكرين، ادباء اور ميڈيا والے جمع ہوئے ہیں۔
یہ مشاہیر عالم جو پاک سرزمین ابو ظہبی میں اكٹهے ہوئے ہیں تاکہ بھائی چارے کی دستاویز اور اس کے نتیجے میں آنے والی امن وسلامتی، دوسروں کے احترام اور تمام انسانیت کی بھلائی جیسے کلچر کو عام کرنے کی دعوت کا بطور خود مشاہدہ کرسکیں؛ بجاۓ اس کے کہ ظلم ونفرت ، تشدد اور خون بہانے جیسے وحشیانہ اعمال پنپتے رہیں، اور یہ تمام مشاہیر عالمی قیادت، پالیسی سازوں اور ان تمام لوگوں سے مطالبہ کریں جن کے ہاتھ میں قوموں کی قسمت کے فیصلے ہیں اور جن کے پاس عسکری واقتصادی قوت کے پیمانے ہیں کہ وہ اس خون کو بہنے اور معصوم جانوں کے قتل کو روکنے کے لیئے فوری مداخلت کریں، اور تمام فسادات، فتنوں اور فضول جنگوں کو ختم کروائیں جن کے باعث ہم تہذیبی پستی کے اس کنارے کو جا پہنچے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بجنے کو ہے۔
حاضرین کرام!
میں اس نسل کا نمائندہ ہوں جسے جنگوں میں پروان چڑھنے والی نسل کہا جا سکتا ہے، جس میں پوری طرح خوف اور دہشت کا راج تھا۔ مجھے ابھی بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد کی ہولناکیوں اور تباہیوں پر لوگوں کی باتیں یاد ہیں، میں ابھی دس سال کی عمر کو ہی پہنچا تھا کہ اکتوبر 1956 کی جنگ نے آدبوچا - اپنی آنکھوں سے اپنے شہر لکسر( اقصر ) میں جنگی طیاروں کی بمباری دیکھی، جب ہم صبح تک سونا تو کیا پلک بھی نہیں جھپک پاتے تھے اور ہم تہہ خانوں کی طرف دوڑتے تھے تاکہ اندھیروں کی پناہ میں خود کو محفوظ کرسکیں - آج بھی یا دداشت میں تمام المناک یادیں یوں محفوظ ہیں کہ جیسے ان پر 60سال گزرے ہی نہ ہوں - ابھی اس جنگ کو دس سال ہی نہ گزرے تھے کہ 1967ء کی جنگ آن بھڑکی جو پہلی جنگوں سے زیادہ سخت تھی، جس کو ہم نے اس کے تمام مصائب سمیت گزارا، اور اس کے بعد چھ سال تک وہ دور گزارا جسے جنگی اور عسکری اقتصادیات کا دور کہا جاتا تھا- ہم نے 1973ء کی جنگ میں کامیابی کے بعد ہی سكون کا سانس لیا جس نے تمام عربوں کا وقار واپس لوٹا دیا تھا - ان کی عزت وشرف اور فخر کو اجاگر کیا اور انہیں ظلم اور ظالموں کو دھکیلنے اور دشمنوں اور زیادتی کرنے والوں کو توڑنے کی قدرت دی ۔
ہمیں لگا کہ اب ہم نے جنگوں کو الوداع کہہ دیا ہے، اور امن وسلامتی اور ترقی کا دور شروع ہو گیا ہے۔ ليكن پھر اچانک ہی ہمیں دہشت گردی کی جنگ کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا، جو نوے کی دہائی میں شروع ہو کر اتنی پھیلی کہ آج مشرق ومغرب ہر جگہ میں اپنے پنچے گاڑھ کر کاٹنے لگی ہے۔
ہم اس امید پر تھے کہ اكيسويں صدی کے آتے ہی تشدد و دہشتگردی اور معصوم لوگوں، بچوں اور عورتوں کا قتل رک جائے گا، مگر ہماری امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب گياره نوفمبر 2001 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے كا واقعہ ہوا اور عالم اسلام نے جس کی بھاری قیمت چکائی اور ڈیڑھ ارب مسلمان ان چند لوگوں کا وحشیانہ اعمال کا خمیازہ بھگتنے لگے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اس واقعے کو بین الاقوامی میڈیا نے منفی طور پر خوب استعمال کیا کہ انہوں نے اسلام کو خون کا پیاسا مذہب ظاہر کرنا شروع کردیا، اور مسلمانوں کو بربریت اور درندگی کی تصویر بنا کر پیش کیا، جو تہذ یبوں اور معاشروں کے لیئے ایک شدید خطرہ بن گئے - اس میڈیا نے مغربی لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت یوں بھردی کہ وہ صرف دہشتگردوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں ہی سے دہشت زدہ ہونے لگے ۔
خواتين وحضرات:
یہ بھائی چارے کی دستاویز جو آج اس پاک زمیں پر تیار ہوئی ہے، اس نے در حقیقت میرے بھائی اور دوست پوپ فرانسس کے گھر كے دسترخوان پر جنم لیا تھا، جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے اس كى تجويز پيش كى - جناب پوپ نے اسے سراہا اور میں نے اس کی تائید کی۔ اور یہ پیشکش تمام مطالبوں کے بعد آئی جس میں ہم نے تمام دنیا کے حالات و صورتحال، قتل وغارت، فقر و ناامیدی، یتیموں، بیواؤں، مظلوموں اور بے گھر و بے وطن لوگوں کی حالت زار پر غور و فکر کیا - اور اس بات کو زیر بحث لایا کہ ان ناچار لوگوں کے لیئے آسمانی مذاہب نجات کی نوید بن سکتے ہیں - میں حیران رہ گیا کہ جناب پوپ اور میری سوچ مکمل طور پر ہم آہنگ تھی - ہم میں سے ہر ایک اس ذمہ داری کا احساس لیئے ہوئے تھا کہ قیامت کے دن جس کی جوابدہی ہونا تھی - میرے یہ عزیز دوست بلا تفریق و امتیازعام لوگوں کی پریشانیوں میں تڑپتے ایک رحمدل انسان ہیں اور سب سے زیادہ ہم نے جن باتوں پر اتفاق کیا تھا وہ یوں تھیں:
آسمانی مذاہب ان تمام تحریکوں اور مسلح جماعتوں سے بری ہیں جنہیں آج دہشتگرد کہا جاتا ہے، ان کا جو بھی مذہب؛ عقیدہ یا فکر ہو اور چاہے کسی بھی سر زمین پر اپنے جرائم سرانجام دیتے ہوں، یہ لوگ قاتل، خون بہانے والے اور آسمانی پیغام پر زیادتی کرنے والے ہیں، اور مشرق ومغرب كے تمام ذمہ داروں پر واجب ہے کہ وہ ان کا پوری قوت سے مقابلہ کریں، اور لوگوں كى جانیں ؛ ان کے عقائد اور عبادت گاہوں کو ان ظالموں کے جرائم سے محفوظ بنائیں ۔
اسی طرح ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ خون کی حرمت پر تمام مذاہب کا اجماع ہے ۔ اور اللہ رب العزت نے اپنے تمام الوہی پیغامات میں قتل نفس کو حرام قرار دیا ہے۔
سیدنا موسی نے سینا کہ (حورب) پہاڑپر کھڑے ہوکر اپنی دس وصیتوں میں پرزور انداز میں کہا تھا کہ :
"قتل نہ کرو، زنا نہ کرو،
چوری نہ کرو" ۔ پھر سیدنا عیسی ×فلسطین کے (کفر ناحوم) کے علاقے کی پہاڑی پر اپنے (پہاڑ کے وعظ) میں سیدنا موسی علیہ السلام کی تائید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
تم نے سنا کہ پہلے لوگوں کو کہا گیا تھا کہ قتل نہ کرو، جو قتل کرے گا اس پر فیصلہ صادر ہوگا، میں تو کہتا ہوں کہ جو اپنے بھائی پر غصہ كرتا ہے تو اس پر فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔
پھر سیدنا محمد >آئے اور عرفات کی پہاڑی پر اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں وہی اعلان فرمایا جو ان کے پیشرو کہہ گئے تھے کہ:
اے لوگو! مجھے نہیں معلوم کہ اس دن اور جگہ کے بعد میں دوبارہ تم لوگوں کو مل پاؤں گا کہ نہیں، اللہ اس پر رحم کرے جس نے آج میری بات سنی اور محفوظ کیا۔
اے لوگو! تمہارے خون مال اور عزتیں اس دن اور اس شہر کی حرمت کی طرح حرام ہیں، تم اپنے رب سے ملو گے تو تم سے تمہارے اعمال کے بارے سوال کیا جائے گا۔ جو یہاں موجود ہیں وہ غیر موجود لوگوں تک میری بات پہنچا دیں۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس نے ایک ماں اور بچے کو الگ کیا اللہ قیامت کے دن اسے اپنے پیاروں سے الگ کرے۔ اور جس نے اپنے بھائی پر اسلحہ تانا، فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔
اسی طرح دسیوں قرآنی آیات ہیں جو قتل نفس کو حرام کرتی ہیں، اور اعلان کرتی ہیں کہ جس نے ایک جان کو قتل کیا، گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا، اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ رکھا۔
حاضرین کرام!
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کا پیغام اور اس کی معنویت میں ایک جیسی وحدت اور ہم آہنگی ہے۔ بلکہ وہ سٹیج بھی ایک ہی تھا جس پر ان انبیاء نے خطاب کیا جو کہ جبل طور، فلسطین کی پہاڑی اور مکہ میں جبل عرفات ہیں۔
یہاں مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ : مذاہب کی بارے یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ جنگوں کے بنیادی اسباب ہیں، اور يہ كہ تاریخ اس پر گواہ ہے، لہذا جدید تہذیب نے دین واخلاق کے خلاف انقلاب کی توجیہ بنا کر انہیں سماجی امور سے بے دخل کر دیا ہے۔ چنانچہ لوگوں اور نوجوانوں میں خاص طور پر مغرب میں جب یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی، اس كے نتيجے ميں یہ الحاد ؛ مادی فلسفوں، انتشار اور تفرقہ پهيلانے والے نظریات، مادرپدر آزادی اور دین کی بجائے تجرباتی علوم کی اجارہ داری عام ہوئى ۔ آسمانی مذاہب اور خدا کے خلاف اس انقلاب کو تین صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نتیجہ صرف مکمل تباہی کی صورت ہی نکلا ہے، جن میں انسانی مصائب کا صرف ایک متکبر ہی انکار کر سکتا ہے۔
جبکہ وہ حقیقت جس سے ہم اس افتراء بازی کو دور کرسکتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بحران کا پہلا سبب انسانی ضمیر اور دینی اخلاقیات کا ناپید ہونا ہے- مادی و الحادی شہوتوں اور ان بانجھ فلسفوں کا زور پکڑنا ہے جو انسان کو خدا بنا کر اللہ رب العزت اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، اور ان اعلی اقدار کو استہزاء کانشانہ بناتے ہیں جو انسان کو جھکانے اور اس كے اندر چھپے بھیڑیے
کو سدھارنے کا واحد ضابطہ ہیں۔
جبکہ وہ جنگیں جو مذاہب کے نام پر شروع ہوئی ہیں، اور لوگوں کا قتل عام ہوا ہے، مذاہب سے ان کے بارے سوال نہیں ہوگا بلكہ ان منحرف پالیسیوں سے پوچھا جائے گا جنہوں نے بعض مذہبی لوگوں کو استعمال کیا، اور ان معاملات میں گهسيٹا ، مذہب جن کو نہ جانتا ہے اور نہ ہی ان کو احترام کی نگاہ ہے دیکھتا ہے ۔
ہم واضح کرتے ہیں كہ بعض مذہب پرستوں نے مقدس متون کی جو تاوہل کی ہے، وہ فاسد تاویل ہے، اور دین کی صحیح تعلیم ہی ان گمراہ کن لوگوں کو کسی بھی آسمانی مذہب سے تعلق کی گنجائش نہیں دے گی اور نہ ہی اللہ کے نازل کردہ دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لیئے ان کی خیانتوں کو جواز بخشے گی۔
در حقيقت متون کی تفہیم میں اس طرح کا انحراف صرف مذہبی متون میں نہیں ہوتا، بلکہ ان بین الاقوامی معاہدوں کے متن میں بھی ہوتا ہے جنہیں سیاست کے بازار میں مخصوص تعبیر کے ساتھ بجائے امن وسلامتی کے، پرامن ملکوں پر جنگ مسلط کرنے اور قوموں کو تباہ وبرباد کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے، اور اس طرح کی ظالمانہ پالیسیوں کو لاگو کر لینے کے بعد یتیموں، بیواؤں اور بے اولادوں سے معذرت کرلینے بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ ان کو سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہے، اور اس طرح کی مثالیں بکثرت اور پوری وضاحت کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔
اسی وجہ سے اس دستاویز میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نفرت و تشدد، تعصبات بھڑکانے اور قتل و غارت گری کو جواز دینے کے لئے اللہ کا نام اور دین کو استعمال کرنا بند کیا جاۓ۔
اللہ نے لوگوں کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ قتل كئے جائیں اور ان کو تعذیب کا نشانہ بنایا جائے، یا ان پر زندگی کو تنگ کردیا جاۓ۔
اللہ رب العزت اس سے بری ہے جس کی طرف یہ لوگ جان لینے اور اس کے نام پر دوسروں کو دہشت زدہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
حاضرین کرام!
مجھے مکمل یقین ہے کہ انسانی بھائی چارے کے لئے اس طرح کے ضروری اقدامات اور عمدہ معاملات ہمارے عرب علاقوں میں نتیجہ خیز ثابت ہوں گے، اور الحمد للہ شروع ہو چکے ہیں جب نئے دارالخلافہ میں کچھ دن پہلے سب سے بڑی مسجد اور کلیسا ایک ساتھ افتتاح پذیر ہوۓ۔ اور یہ عرب جمہوریہ مصر کے صدر جناب عبد الفتاح السیسی کا مذاہب کے مابین اخوت، بھائی چارے اور ہم آہنگی راسخ کرنے کے لئے تاریخی اقدام ہے۔
میں مشرقی مسلمانوں کو کہنا چاہوں گا کہ اپنے مسیحی بھائیوں کو ہر جگہ گلے لگاؤ- وہ ہمارے ہم وطن ہیں - اور ہمارے وہ بھائی ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے وہ تمہارے زیادہ قریبی ہیں، اور ان کی محبت کی علت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ ﱡﭐ ﲚ ﲛ ﲜ ﲝ ﲞ ﲟ ﲠ ﲡ ﱠ " يہ اس لئے كہ ان ميں علما اور عبادت كےلئے گوشہ نشين افراد پائے جاتے ہيں اور اس وجہ سے كہ وه تكبر نہيں كرتے" (سورۀ المائدہ – 82 )
تمام مسیحی برادری کے دل رحمت وخیر سے بھرے ہوئے ہیں - اللہ نے کے دلوں میں یہ اچھے اوصاف ڈالے ہیں، اور قرآن اس کو یوں بیان کرتا ہے ﱡﭐﱶ ﱷ ﱸ ﱹ ﱺ ﱻ ﱼ ﱽ ﱾ ﱿ ﲀ ﲁ ﲂ ﲃ ﲄ ﱠ " ان كے بعد پھر بھى ہم اپنے رسولوں كو پے در پے بھيجتے رہے اور ان كے بعد عيسى بن مريم (عليہ السلام) كو بھيجا اور انہيں انجيل عطا فرمائى اور ان كے ماننے والوں كے دلوں ميں شفقت اور رحم پيدا كرديا "( سورۀ الحدید : 27 )
ہم مسلمانوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ عیسائیت ہی نے اسلام کے ابتدائی ایام میں ہمیں شرک وبت پرستی کے ظلم سے بچانے کے لیئے پناہ دی تھی جو ہمیں ہمارے ہی گھروں میں مار دینا چاہتے تھے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے كمزوروں کو حکم دیا کہ وہ قریش کی سخت ایذاء رسانی کے وقت حبشہ كى طرف ہجرت کر جائیں ، وہاں کا بادشادہ ظلم روا نہیں رکھتا- چنانچہ اس عیسائی بادشاہ نے اپنی مسیحی ریاست میں مسلمانوں کا استقبال کیا، اور انہیں عزت وتکریم دے کر قریش کے ظلم وشر سے بچایا، اور اسلام کے مضبوط ہوجانے کے بعد انہیں مدینہ منورہ واپس پہنچایا ۔
اپنے مسیحی بھائیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مشرق میں ملت کا ہی حصہ ہيں اور ہم وطن ہيں ، آپ لوگ اقلیت نہیں ہيں اور میری گزارش ہے کہ اقلیت جیسی مکروہ اصطلاح سے آپ نکلیں، اور مکمل حقوق و واجبات کے ساتھ یہاں کے شہری بنیں۔ اور جان لیجئے کہ ہمارا یہی اتحاد ہی ان تمام سازشوں کے خلاف ایک مضبوط چٹان ہے جو مسلم و مسیحی میں کوئی فرق نہیں کرتی ہیں، سنجیدگی اور پھل چننے کا وقت آگیا ہے۔
مغرب میں مسلمان شہریوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ معاشروں میں گھل مل جائیں اور وہاں اپنی دینی شناخت کی حفاظت ضرور کریں جیسا کہ وہاں کے قوانین کا پاس رکھتے ہیں، اور جان ليجئے کہ ان معاشروں کی امن و سلامتی ایک شرعی ذمہ داری ہے، جس کے بارے میں تم اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے، اور اگر کوئی ایسا قانون سامنے آتا ہے جو شریعت کے خلاف تو قانونی طریقے استعمال کریں، یہی طریقے آپ لوگوں کی آزادی اور حقوق کے ضامن ہیں۔
اسی طرح مشرق و مغرب کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ آپ کا مستقبل مسکرا رہا ہے - تمہیں علم و اخلاق اور معرفت و ادراک سے مسلح ہونا چاہیے - اس دستاویز کو اپنی زندگی کا دستور بنالو، اور مصائب و پیکار سے خالی مستقبل کی ضمانت سمجھو - اس کو وہ معاہدہ جانو جو خیر کی بنیاد بنانے اور شر کو مٹانے والا ہے ۔ نفرتوں کو ختم کرو، اپنی نسلوں اور اولادوں کو یہ دستاویز سکھاؤ کہ یہ (میثاق مدینہ) اور (پہاڑی کے وعظ) ہی کی توسیع ہے - یہ انسانی مشترکات اور اخلاقی اصولوں کی نگہبان ہے، اور میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے بھائی پوپ فرانسس کے ساتھ اور تمام مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر معاشرتی استحکام کے لئے کام کرتا رہوں گا۔
میں گذشتہ نومبر میں یہاں ابو ظہبی میں ازہر اور ویٹیکن کی حمایت سے معاشرتی امن و سلامتی کے لئے منعقد ہونے والی ملاقات کا سپاس گزار ہوں، جس میں مذہبی قیادت نے شریک ہوکر بچوں کے وقار (حقوق) کی حفاظت کے لئے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا۔
آخر میں، ميں عالی مرتبت محمد بن زاید کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، جن کی زیر نگرانی بھائی چارے کی یہ دستاویز ایک تاریخی اقدام بن پائی۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے بعد قوموں کے مابین امن و سلامتی، محبت کے جذبات اور باہمی احترام کا رشتہ قائم ہوگا ۔
اسی طرح ميں قابل قدر جناب عبداللہ بن زاید اور تمام نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جاگ جاگ کر اس ملاقات کو اس شکل میں کامیاب بنایا ۔
اللہ تعالی کے قول:ﱡﭐ ﳞ ﳟ ﳠ ﳡ ﱠ ( اے ميرى قوم! ناپ تول انصاف كے ساتھ پورى پورى كرو لوگوں كو ان كى چيزيں كم نہ دو) ، دو مجہول سپاہیوں کا بھی سپاس گزار ہوں جو اس دستاویز کو شروع سے لے کر آج کی اس بین الاقوامی ملاقات میں ظاہر ہونے تک تیار کرتے آئے ہیں۔
اور وہ میرے دونوں بیٹے قاضی محمد عبد السلام شیخ الازہر کے سابق مشیر اور پوپ فرانسس کے پرسنل سكريٹرى فادر یوانس ہیں ۔ یہ دونوں اور وہ سب لوگ جنہوں نے اس ملاقات کو کامیاب بنایا ، سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
حسن سماعت پر آپ تمام حضرات کا شکریہ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امام اکبر شیخ الازھر ڈاکٹر احمد الطیب