23/01/2020

فکر اور اسلامی علوم میں تجدید کے لیے الازہر بین الاقوامی کانفرنس

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
بلاشبہ تجدید ایک فوری مسئلہ اور ایک موجودہ حقیقت ہے۔ اور یہ کہ یہ ایک مذہبی، شرعی اور علمی ضرورت ہے جس کی تاکید ہر وقت اور جگہ ہوتی ہے۔ یہ علماء اور مصلحین پر فرض ہونے کے علاوہ اس دین کی جاندار اور امت اسلامیہ کے مسائل کے بارے میں اس کے فہم کی مضبوط دلیل ہے۔ اس کے بارے میں اور اس کی ضرورت کے بارے میں بہت کلام ہوا  ہے۔ سو یہ دین اور دنیا کی ایک ساتھ ضرورت ہے۔ مطلوبہ نظم و ضبط کی تجدید کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے ان علماء کے جو دین کے اعلیٰ مقاصد کو جانتے ہیں اور اجتہاد کی ادوات سے لیس ہیں ۔ وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں۔
 
 
اور "تراث" قوموں کی میراث ہے۔ انبیاء نے درہم یا دینار نہیں چھوڑے بلکہ وہ علم کے وارث تھے، لہٰذا جس نے علم کو لیا تو اس نے بہت بڑا حصہ لیا۔ اور جاہل یا دیوانہ ہی اپنی میراث کو ضائع کرتا ہے۔ ہم اس تراث کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں اور اس کی تقدیس نہیں کرتے ، بلکہ ہم اسے مبالغہ آرائی بہتان اور افراط وتفریط کے بغیر اس کے مناسب درجہ میں رکھتے ہیں، 
 
اور اسی پر امت  قول و فعل میں آگے بڑھی ہے۔ اور بہت سے اقوال ایسے ہیں جو تقدیس کے فقدان کی تصدیق کرتے ہیں اور تجدید کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔علماء کے ان ماثور اقوال میں سے:
ہر شخص کے قول کو لیا جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حق صرف کسی ایک شخص میں جمع نہیں ہوا۔
 
 
حق افراد سے نہیں پہخانا جاتا۔
 
علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں، اور یہ امت میں تقسیم ہے، اس کے طلبگاروں کے لیے موجود ہے،
 اور  اس طرح  کے بہت سے اقوال ہیں۔
 
اور عملی طور پر یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اصحاب فقہاء نے اپنے شیوخ کی اگر ان سے خطا ہوئی ہو تو ان سے اختلاف کیا ہے یا  ان کے غیر کو ان پر ترجیح دی ہے۔ اور قاضی ابو یوسف اور محمد بن الحسن شیبانی کے امام ابو حنیفہ سے اختلافات ہم سے بعید نہیں۔ رضى الله عنهم. 
اس پر دلالت کرنے والی مثالیں ہماری قدیم تراث میں بہت سی ہیں۔ جب سے فقہ تدوین ہوئی ترجیح اور اختیار کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اور جب سے مرویات ہیں، ان پر تنقید اور چھان بین شروع ہو گئی۔ سو تجدید تراث کے ساتھ تھی اور اب بھی ہے۔ سو تراث اور حال کے درمیان مسئلہ من گھڑت ہے۔ اور عقل ونقل سے اس کی کوئی دلیل نہیں۔
 
اور اس بحران جس سے تجدید اب گزر رہی ہے: وہ یہ کہ کچھ لوگ اس کا دعوی کرتے ہیں لیکن اس سے وہ فساد کرنا چاہتے ہیں، اور ساتھ ہی کچھ لوگ جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ درحقیقت، وہ فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں، اور تجدید کے دشمن ہیں۔
 
 
اور وہ تجدید جس کا الازہر الشریف مطالبہ کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے طریقے تلاش کرتا ہے۔ اس کا مصدر اللہ کی کتاب ، سنت صحیحہ صریح عقل، اصولوں کی حفاظت، اور پھر اس پر تجدید کی بناء رکھتا ہے۔ وہ ثوابت کو جانتا ہے ان سے تمسک اختیار کرتا ہے وہ متغیرات سے واقف ہے، ان کے ساتھ نرمی کرتا ہے دوسروں کے لیے وسعت ظرفی اختیار کرتا ہے  انہیں فائدہ دیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
تساہل کے بارے میں سب سے قبیح بات یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے، اور انتہا پسندی کے بارے میں سب سے بری چیز یہ ہے کہ یہ تساہل کے لیے زرخیز زمین پیدا کرتی ہے! ان دو بدصورت صورتوں کا علاج صرف اعتدال اور اعتدال ہی  ہے۔
 
 
اس کے باوجود کہ الازہر نے اپنے طرز عمل اور تجدید کی کوششوں کی طویل تاریخ میں اپنے اعتدال پسند منہج کے ساتھ مسلح ہو کر اور ہزار سال سے زیادہ کی طویل تاریخ  میں بہترین ائمہ اور علماء کے ایک گروہ کے ساتھ بہت کچھ  کیا ہے۔ تاہم امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب  شیخ الازہر نے "ا فکر اور سلامی علوم  میں تجدید کے لیے الازہر کی بین الاقوامی کانفرنس" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی اہمیت کو محسوس کیا۔ نظریہ اور اطلاق میں، تجدید کی ایک درست  تعریف کرنے کی ضرورت پر ان  کے پختہ یقین کی وجہ سے، اور اس یقین کے ساتھ کہ کوئی ایک فرد یا ادارہ اس عظیم کام سے نمٹ نہیں سکتا۔ اس میں پوری دنیا سے امت کے علماء، فقہاء، اور معروف مکاتب فکر اور فقہی کونسلوں کے نمائندے شرکت کی۔
 
اس لیے ہمارے دور میں "تجدید" کے بارے میں الجھن کو دور کرنے کے لیے اسلامی فکر اور علوم کی تجدید کے لیے کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت تھی۔ جو اس کی حقیقت کو ظاہر کرتی اور اس کے احاطے کو واضح کرتی۔ اور عصر حاضر کے مختلف مسائل اور جدید قضایا میں مجتہدین کے نقطہ نظر کو جاری کرنے کے لیے کانفرنس کے شرکاء ایک نئی شروعات کا اعلان کریں۔ جس پر بہت سے لوگوں نے طوفان برپا کرنے سے گریز کیا، یا بہترین طور پر، انہوں نے خوف اور شرم کے مارے بمشکل اس کے اطراف کو چھوا۔
 
یہ کانفرنس دو دن پر محیط صدر جمہوریہ عبدالفتاح سیسی کی سرپرستی میں اور وزیر اعظم انجینئر مصطفی مدبولی کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے مرکزی موضوعات تجدید کے تصورات اور طریقہ کار کے فریم ورک، غلط فہمیوں کو ختم کرنے، خواتین اور خاندان کے مسائل اور اسلامی فکر کی تجدید میں بین الاقوامی، مذہبی اور علمی اداروں کے کردار پر مرکوز تھے۔
 
یہ اسلامی فکر کی تجدید ، موجودہ مرحلے میں ہماری عرب اور اسلامی دنیا کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی گفتگو کے تصور کی تدوین اور غلط فہمیوں کی اصلاح  کے لیے امام الاکبر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر کی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کے دائرے میں آتا ہے۔
 
کانفرنس میں ان موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا:
تجدید کی  شرائط، اسباب اور ضوابط، اور متغیر اور مستقل  شرعی احکام۔ متعلقہ ادارے اور تجدید میں ان کا کردار،  الازہر کی تجدید کے پرانے اور نئے مظاہر  کا پیش کرنا۔
 
یہ محاور بھی شامل تھے: سائبر اسپیس کے ذریعے دعوتی گفتگو میں جہاد اور لڑائی سے متعلق غلط فہمیوں کو ختم کرنا، عصری شرعی وژن کے ذریعے شہریت کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کرنا، نیز اسلامی فکر کی تجدید میں بین الاقوامی، مذہبی اور علمی اداروں کے کردار کے بارے میں بات کرنا، جیسے کہ الازہر شریف، وزارت اوقاف، فتویٰ ہاؤسز، یونیورسٹیز اور علمی ادارے۔
 
نیز بحث کی گئی: تجدید کے چیلنجز، جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعوتی گفتگو میں بعض لوگ امت کی تکفیر اور اعتزال کو عام کر رہے ہیں، اور دہشت گرد گروہ کو فرد کے لیےمقدس قرار دیتے ہیں، اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال کرتے ہیں، اور دہشت گردانہ خونی سوچ کو ڈسکس کرتے ہیں اور آخر میں، تجدید پر سیاسی، اقتصادی، سیکورٹی اور تکنیکی اثرات پر گفتگو ہوئی۔
 
الازہرعالمى كانفرنس برائے تجديدِ فكر اسلامى 
27 اور 28 جنورى 2020ء كو الازہر الشريف نے مصر كے دار الحكومت قاہره ميں اسلامى فكر كى تجديد كے حوالے سے ايک عالمى كانفرنس كا انعقاد كيا، جس ميں 46 ملكوں كے وزارات اوقاف اور مذہبى امور اور دار الافتاء كے نمائندوں نے شركت كى- اس كانفرنس ميں كئى نہايت اہم موضوعات پر بحث كى گئى۔ کانفرنس کے افتتاح شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب نے ان الفاظ سے کیا: 
 
انسانى تاريخ گواہى ديتا ہے كہ اسلام لوگوں كے مفادات كى تحقيق پر قادر ہے۔ اسلام نے نسل، مذہب اور عقیدہ سے قطع نظر معاملات اور طرز عمل ميں ايک بے مثال نمونہ قائم كيا- ليكن جمود، روايت اور انتہا پسندى كى بدولت آج يہ محض ايک " تاريخ" بن چكا ہے، جو نوادرات اور قديم تہذيبوں كے ميوزيم ميں پيش كيا جا رہا ہے، اور جس كا ذكر عبادت گاہوں (مسجدوں)، تہواروں (عیدوں) جنازوں يا قبروں پر ہى ہوتا ہے-
يہ بد بخت حقيقت مشرق اور مغرب ميں اسلام سے نفرت كرنے والوں كے لئے جس ميں اس كے پيروكار بھى شامل ہيں دراصل ايک روشن اميد اور خوشگوار خواب كى حيثيت ركھتا ہے-
مسلمانوں كو جاننا چاہيے كہ تجدد يا تجديد كا قانون ايک خالص قرآنى قانون ہے، جس پر ہمارے عظيم علما نے بہت تحقيق كى ہے، سياست اور معاشرے كى ترقى ميں اس كى ضرورت كو اشد طور پر محسوس كيا گیا، اور يہ بھى ثابت كيا گیا كہ خداوند عالم نے اس كو تبديلى كى ايک شرط بنائى ہے، اور جس كے بغير زندگى كے مختلف ميدانوں میں ان كى حالت بد سے بدتر ہى ہو سكتى ہے- 
ان علمائے كرام نے اس قانون كى طرف اشاره كرنے والی ان آيات كو دليل كى طور پر پيش كيا-
اللہ تعالی نے فرمایا: « ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ » (يہ اس لئے كہ الله تعالى ايسا نہيں كہ كسى قوم پر كوئى نعمت  انعام فرما كر پھر بدل دے جب تك كہ وه خود اپنى اس حالت كون ہ بدل ديں جو كہ  ان كى پنى تھى اور يہ كہ الله سننے والا جاننے والا  ہے۔)  (الانفال 53 ) ۔
« إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَال» ) كسى قوم كى حالت الله تعالى نہيں بدلتا جب تك كہ وه خود اسے نہ بدليں جو ان كے دلوں ميں ہے  الله تعالى جب جب كسى قوم كى سزا كا أراده كرليتا ہے تو وه بدلا نہيں كرتا اور سوائے اس كے كوئى بھى ان كا  كارساز نہيں 
(  (سورۂ الرعد 11 ) ۔
«     وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ » (اور آپ پہاڑوں كو ديكھ كر اپنى  جگہ جمے ہوئے خيال كرتے  ہيں ليكن وه بھى بادل كى طرح اڑتے پھريں گے، (  (سورۂ النمل 88) ۔
« أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ» (كيا ہم  پہلى بار كے پيدا كرنے سے تھك گئے؟ بلكہ يہ لوگ نئى پيدائش كى طرف سے شك ميں ہيں) (سورۂ  ق 15)   ۔
« صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ » (اس الله كى  راه كى جس كى ملكيت  ميں آسمانوں اور زمين كى ہر چيز ہے۔ آگاه رہو سب كام الله تعالى ہى طرف لوٹتے ہيں۔
- (سورۂ الشورى 53) ۔
« لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ» (الله كے سوا كوئى معبود نہيں۔ اسى كى طرف واپس  لوٹنا ہے) ۔ (سورۂ غافر3 ) ۔
رسول الله نےارشاد فرمايا كہ:«إن الله يبعث على رأس كل مائة عام من يصلح لهذه الأمة أمر دينها»( اللہ تعالى اس امت ميں ہر سو سال اس كى دين كى تجديد كرنے والا بھيجے گا) ۔( ابو داوود ، شرح عين المعبود ، كتاب الملاحن، باب  ما يذكر في قرن المائه،  ( 11/259)،  رقم 4282.
ياد ركھا جائے كہ اسلامى احكام اور تعليمات ميں كچھ احكام ثابت اور نا قابلِ تجديد يا تبديل ہيں، ترقى كے قانون - جو در اصل ايک سنت الہى ہے- كے سامنے اس كے ثابت ہونے كى وجہ يہ ہے كہ يہ احكام ہر زمانے اور ہر جگہ قابلِ تطبيق اور تعميل ہيں، ان ميں سے بيشتر احكام عقائد، عبادات اور اخلاقيات ميں شامل ہيں ان ميں سے چند ہى خاندانى نظام يا دوسرے امور كے دائرے میں داخل ہوتے ہيں-
مسلمان آج كے خلائى دور ميں اسى طرح نماز پڑھتا ہے، جس طرح كے صحرا اور اونٹوں كے دور ميں پڑھا كرتا تھا، یہى حال روزے اور زكات كا ہے، حج بھى صديوں سے كسى تبديلى كے بغير ادا كيا جا رہا ہے-
اس كے علاوه كچھ دوسرے اسلامى احكام ہيں جو قابلِ تبديل ہيں، يہ احكام انسانى زندگى كے ديگر شعبوں سے وابستہ ہيں، ان ميں معاشرتى، دستورى، معاشى، سياسى، بين الاقوامى تعلقات، شائستگى كے آداب اور خوراک ولباس ميں لوگوں كى عادات شامل ہيں-
 
 
اجتہاد اور تجديد كا باب كئى اسباب كى وجہ سے بند ہوا، ہمارے جديد دور ميں مسلم علما اور دانشوروں كا اس مسلئہ سے موقف كو بيان كرنا  فى الحال دشوار ہو گا، ليكن جس بات كى طرف ميں مختصر طور اشاره كرنا چاہتا ہوں  وه يہ ہے كہ آج كى اسلامى ثقافتى دنيا ميں كسى بھى شخص نے ہمارى امت اور اس كے نوجوانوں كى ذمہ دارى اٹھانے ميں سنجيدگى نہيں برتى- تعليم اور اسلامى دعوه كى سطح پر سب نے انتہا پسندى كے پھيلاؤ پر خاموشى ہى اختيار كى- اگرچہ انتہا پسندى كے يہ دعوے اسلام كى حقيقت سے از حد دور ہيں، ليكن اس كے باوجود اس كو مادى اور غير مادى حمايت حاصل ہوتى رہى  اس كے علاوه مغربيت (Westernization) اور جديديت (Modernization) كى جماعات نے مسلمانوں كى صورت كو بگاڑنے كے لئے خود كو وقف كر ديا- تنازعہ كے اس ميدان ميں ان دونوں رجحانات كے درمياں كئى مسلمان نوجوان حيران كھڑے رہے- انتہا پسندى، نفرت، تشدد یا غير روادارى اور دوسری طرف خالى پن، آواره گردى اور خودكشى-
انتہا پسندى كے رجحان كى ناكامى ہوئى، جس نے اس بات پر شرط لگائى تھى كہ مسلمان مغربى تہذيب وثقافت سے مسلسل اور مکمل دورى اختيار كر سكتے ہيں، اور یہى نا كامى مغربيت اور جديديت كے نصيب ميں بھى آئى، جس نے اپنے تہذيبى ورثہ سے مكمل عليحدگى اختيار كى، بلكہ اس كا مذاق اڑايا اور اس پر ہجوم بھى كيا، جس كى وجہ سے حالات مزيد بگڑتے چلے گئے- 
بلا شک وشبہ آج ہم یہ كہہ سكتے ہيں كہ معتدل اصلاحى پسند رجحان ہى تجديد كى اس مہم كى ذمہ دارى اٹھانے كے قابل ہے- ميرا مقصد وه تجديد ہے جو ہمارے مذہب كو نسخ يا منسوخ نہ كرے، بلكہ اس كے خزانوں سے فائده اٹھا سكے اور ان فقہى احكام كو ترک كردے جو ايک خاص اسباب اور وجوہات کے بنا پر عائد كى گئى تھيں-
اگر كسى كو اپنى غايت پرانے احكام ميں نہ ملى تو اسے اس مذہب كے مقاصد كے مطابق نئے اصول وضع كرنے كے سلسلہ ميں اجتہاد كرنا پڑے گا- ميرى اميد ہے كہ اسى امر كى عكاسى آپ كى اس كانفرنس ميں پورى امانت اور ديانت دارى سے كى جائے-
يہ كانفرنس كوئى عام كانفرنس نہيں ہے، بلكہ اس كا مقصد خاص جزوى مسئلوں پر تبادلہ خيال اور اس كے بارے میں فيصلہ كرنا ہے- تجديد والے مسئلوں كى تعداد بہت زياده ہے جس كى وجہ سے الازہر الشريف نے فيصلہ كيا كہ وه ايک با قاعده سنٹر" الازہر سنٹر برائے ثقافتى ورثہ اور تجدید" قائم کرے گا ، جس میں مصر اور  خارج مصر سے علما اور ماہرين تجديد كے سلسلے ميں اپنى خدمات پيش كريں، جس كى توقع مسلمان اور غير مسلمان دونوں كرتے آرہے ہيں   
 
سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024