انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس
11/12/2014
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر کی کوششوں کے دائرے میں، حقیقی اسلام کے بارے میں انتہا پسندانہ اور دخل اندازی کرنے والے افکار کا مقابلہ کرنے اور اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنے والے گمراہ گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ اور ازہر شریف کے کندھوں پر ڈالی گئی شرعی، قومی اور انسانی ذمہ داری کو لے کر آگے بڑھتے ہوئے، بہت سے اسلامی مسائل، خلافت، جہاد، شہریت وغیرہ کے بارے میں منحرف نظریات اور غلط فہمیوں کے علمی مقابلہ کی ضرورت پر یقین کے ساتھ امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے دنیا کے مختلف حصوں میں ملک کے علماء اور مفکرین سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مسائل پر اسلام کے صحیح نظریے کو واضح کریں، تاکہ ان تنازعات کو حل کیا جا سکے۔ سو 3-4 دسمبر 2014 کو ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی ، جس کا عنوان تھا "انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے الازہر بین الاقوامی کانفرنس"۔ جس میں تقریباً 120 عرب اور بیرونی ممالک کے تقریباً 600 مسلم اسکالرز سمیت مشرقی کلیساؤں کے سربراہان اور بعض دوسرے فرقوں کے نمائندوں نے شرکت کی جو دہشت گرد گروہوں کے جرائم کا شکار ہیں۔ نیز مفتی مصر ڈاکٹر۔ شوقی علام، جامعہ الازہر کے صدر اور نائبین، الازہر اور اوقاف کے رہنما، متعدد دانشور اور ثقافتی شخصیات، اور مصری اور بین الاقوامی عوامی شخصیات جیسے 2014 کے آئین کی تیاری کی کمیٹی کے سربراہ جناب عمرو موسیٰ، قاہرہ میں کچھ اسلامی اور عرب ممالک کے گورنر اور سفیر، متعدد ممالک میں اسلام اور عیسائیت کے نمائندے ، اور ویٹیکن کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
یہ کانفرنس پہلی بین الاقوامی تحریک کی تشکیل کرتی ہے جس میں اس خطے کے علماء، رہنما اور زعما کی اتنی بڑی تعداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں اسلام کے موقف کا اعلان کرنے کے لیے جمع ہوئی تھی۔
کانفرنس میں ان موضوعات توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ : "شدت پسندوں کی طرف سے مسخ شدہ تصورات کی اصلاح، جیسے اسلامی ریاست کا تصور، خلافت، حاکمیت، جہاد، زمانہ جاہلیت، اور تکفیر، اس کے علاوہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کے اسباب پر گفتگو اور وہ عوامل جو ان کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ (زیر بحث رہے)"۔
کانفرنس میں عرب معاشروں اور دیگر ممالک پر دہشت گردی کے اثرات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مستقبل کے وژن اور اس عظیم خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے اس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
کانفرنس میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کی وجوہات اور عالمی امن و سلامتی کے لیے اس کے خطرے اور شہریت اور بقائے باہمی کے مفہوم کو مضبوط کرنے کو زیر غور لایا گیا تاکہ اختلاف ، تنوع اور سماجی بقائے باہمی کی ثقافت کو پھیلایا جائے۔
کانفرنس نے وسیع عالمی پذیرائی حاصل کی، اور فکری اور ثقافتی تنوع کے پیش نظر جو حاضرین میں شامل تھا، زبردست مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی تعریف ہوئی۔ اسلامی علماء اور عیسائی پادریوں نے - اجتماعی طور پر - ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسترد کیا اور دہشت گردی کے طریقوں اور مغرب کے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے دعووں کو مسترد کیا گیا۔
کانفرنس کے دوران گرینڈ امام کا خطاب
آپ تمام حضرات اور ان معزز مہمانوں کا جنہوں نے دعوت قبول کی اور مختلف ملکوں سے اور دور دور مقامات سے تشریف لائے ان سب کا ہم پرتپاک استقبال کرتے ہیں، اور آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اورميں آپ سب کا آپکےدوسرے سرزمين مصر میں اور آپکے اس بردار ملك ميں آپ كا خير مقدم كرتا هوں جس كے بارے ميں سمجھتا هوں كه اس كے لئے آپکے دل میں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے، اور اس ازھر شریف میں آپکا استقبال ہے، جو آپ كى ملاقات سے خوش هے اور جو اس امت كى تاريخ كے اس نازك مرحلے ميں آپ كے بحث ومباحثے سے فائده اٹھائے گا۔
مشرق عربی و اسلامی کی نمایاں شخصیات اور کشادہ دنیا کے سنی اور شیعہ مسلمان، عيسائى برادری کے مختلف فرقے، اور دوسرے عقائد جو اس مشرق کی زمین پر پروان چڑھے، اور جنهوں نے اس كى نعمتوں سے فائدہ اٹھایا، سب کے سب اس کانفرنس میں جمع ہیں، یہ کانفرنس ایسے نازک اور انتہائی پیچیدہ وقت میں منعقد هورهى هے جب همارے ملك اور همارى قوم كو اندر اور باهر دونوں سے خطره لاحق هے، آپ مشرق وسطٰی کے نقشے پر جہاں بھی نگاہ دوڑائیں گے یہ دردناک صورتحال آپ كا هوش اڑا دے گى، اور اس سوچی سمجھی تباہی جو جان، مال، انسان، وطن کو لاحق ہوئی اسکا کوئی بھی منطقى سبب ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائیں گے، اور یہ امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے، تہذیب کو ختم کرنے اور تاریخ کو ختم کرنے ميں لگى هوئى هے۔
میں خود اپنے آپ سے اور شب و روز میری زیارت کو آنے والوں سے اس عربی آزمائش کا سبب پوچھتا رہتا ہوں، اور خون کی مهك سے ملے هوئے ، موت، دھماکوں، انسانوں کے سر قلم کرنے، لاکھوں لوگوں کو در بدر کرنے، اور وطن و آبادی کو ایسی درندگی سے تباہ کرنے والے اس اندھے فتنے كے بارے ميں پوچھتا هوں جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں نظر آيا، اور نہ ہی مستقبل میں نظر آئے گا سوائے ان جماعتوں كے اندر جو عارضى طور پر همارى تهذيب وثقافت ميں داخل هوگئى هيں، اور يه ان تمام حدوں کو پار کر چکی هيں جن کو مذاہب، اخلاق اور انسانی اعراف نے طے کیا ہے، اور یہی حديں هيں جو ايك درنده اور جنگى انسان اور عقل مند اور دانشور انسان كے درميان فرق كرتى هيں۔
محترم بھائیو! سب سے بڑى مصيبت ہے كہ قابل مذمت اور بربریت پر مبنی ان جرائم نے فورى طور پر مذهب حنيف كا لباده اوڑھ ليا اور جن گھونسلوں ميں ان جرائم كى منصوبه بندى كى جارهى هے ان كا نام" اسلامى مملكت" يا خلافت اسلاميه كى مملكت" يا "مذهب كا دفاع" ركھ ديا گياهے، اور اِس كے ذريعے انهوں نے اپنے اس كھوٹے اسلام كو پيش كرنے كى كوشش كى جو لوگوں کو ذبح کرنے، اور ہر اس شخص کا سر قلم کرنے كے لئے آيا جو اسکی مخالفت کرے، یا اسکو گھر سے در بدر کرنے کے لئے آیا ہے، اور ہمارے دین حنیف کی اس ناپسندیدہ تصویر كى تمنا اسلام کے دشمنوں نے کی اور اسکا انتظار کیا، بلکہ اس كے گرد وه بڑبڑاتے رهے، اور اسکى خاطر باطل، افترا پردازی اور جھوٹ کے جال بنے، شاید وہ آج ہمارا مقابلہ اسى بگڑی ہوئی تصویر کے ذریعہ کر رہے ہیں، اور فضائى چائنلوں پر اسى كے ذريعه هم پر بهتان تراشى كررهے هيں تاكه اس خونخوار اور جنگى مذهب سے دنيا كى قوموں كو خبردار كرنے سے متعلق اپنى خواهش پورى كريں۔
ان مسلح تنظیموں کے ظہور کے اسباب اور اسلامی اور عرب ملکوں میں اسکے تیزی سے پھیلاؤ کے اسباب كى تحقيق كرنے والے كو اس كي مختلف تفسيريں ملتى هيں، انمیں کچھ مذہبی، كچھ اقتصادی ، کچھ تہذیبى اور کچھ سیاسى ہیں،ان كے علاوه اور بھى هيں جن پر آپ كى اس كانفرنس ميں بات چيت هوگى، لیکن میں ایک دوسرے سبب کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جو اس با ت کا مستحق ہیکہ ہم تھوڑا سوچیں : اور وه يه كه يه دشمنوں كى طرف سے مشرق عربى كے خلاف ايك سازش هے جس كا مقصد اسرائيل اور اس كے مفادات كى حفاظت كرنا اور اسے علاقے ميں سب سے طاقتور اور مالدار ملك باقى ركھنا هے، اور اسکو ہم بعید از قیاس نہیں سمجھتے، کیونکہ ٢٠٠٣ ء میں من گھڑت اسباب اور جھوٹے بہانے کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا جسکو بين الاقوامى صحافت نے بے نقاب کیا، اور بڑی بڑی عالمی سیاسی تنظیموں نے اس كى جعل سازى تسليم كى، اور سب سے پہلی سازش عراق پر حملہ آوروں نے یہ کیا کہ عراقی فوج کو جو اسوقت عرب کی طاقتور فوجوں میں تھی اسکو آزاد کرنا شروع کیا، اسکے جنرلوں اور سپاہیوں کو سبكدوش کیا، پھر جتھوں اور غنڈوں کو ہتھیار لوٹنے کا موقع فراہم کیا اور حملہ کرنے والے جانتے تھے کہ یہ جتھے مذہب، عقیدہ اور وفادارى کے لحاظ سے آپس میں دست و گریباں ہیں، عراق پر حملے کے گیارہ سال کے بعد يه نتیجہ سامنے آیاکہ عراق خانه جنگى كے بھنور میں داخل ہوگیا، اور وه اس وقت خون کے ايسے سمندروں ميں تیر رہا ہے جن کا کہیں کنارہ نظر نہیں آ تا،اور آج تک عراق اس سے نہیں نکل پایا ہے، اور یہی بات شام میں بھی ہے، یمن اور لیبیا میں بھی هے۔ جہاں سازش اپنے ساز بجا رہى ہے، اور وہاں کشیدگی برپا کرنے والوں کو ہتھیار کی فراہمی کے ساتھ مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھي جارى ہے تاکہ مزید آگ پھیلے، اور اس امت کے ہزاروں نوجوان موت کے آغوش میں چلے جائیں، اور اللہ ہی جانتا ہے کہ ان مصیبت زدہ ملکوں میں جنگ کب بند ہو گی اور کب ان ملکوں کے لئے مقدر ہوگا کہ وہ عالمی اور علاقائى دباؤ اور مداخلت کے بغیراپنے فيصلے خود كريں۔
اور یقینی بات ہےکہ پلاننگ کرنے والے يه لوگ عرب اور مسلمانوں کے آپسی کشمکش اور جنگ کا زبردست فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ جارى جنگ ہمیشہ مسلمانوں اور عربوں کو کمزوری، اور مستقل مایوسی کی حالت ميں رکھے گی، اور انہیں کسی بھی طرح کی ترقی اور قوت حاصل كرنے كا موقع نهيں ديا جائے گا، اور یہ جنگ تو نيابتًا لڑى جارهى هے اس لئے ان جنگوں کو بھڑکانے والوں کا کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوتا، خواہ وہ جانی نقصان ہو یا ہتھیار كا هو ، اور پھر عربوں کی يه آپسی جنگ ہتھیار کے کارخانوں جنگوں كے تاجروں اور موت و تباہی کے دلالوں کے لیے بڑے بازار كھول رهى هے، اوراس شام کا منظر نامہ اس کی دلیل کے لئے کافی ہے، جو چند سالوں سے اس جنگ کا کھلا میدان بناهوا ہے، جس میں مشرق و مغرب كے درميان يكساں طور پر هتھياروں كى كشمكش جارى هے۔
میں تمنا کرتا ہوں - اور تمنا مغلوب کا حیلہ ہے - کہ ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں اپنے ہتھیاروں کی طاقت کى آزمائش کے لئے عربوں کے سینوں،ان كے مکانات اور انکے اداروں کے بجائے کو ئي چٹیل ميدان يا صحراء تلاش كريں۔
بلا شبہ صرف سازش کا نظریہ ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ ايك اور بڑا سبب ہے جو ہماری عربی واسلامی تاریخ کي تهوں میں بہت دور تك جاتا هے، اور وہ ہمارے اندرونى تعلقات كا ايك پرانا اور ثابت طریقہ ہے، اور وہ تفریق، جھگڑا اور اختلاف کا طریقہ ہے،اور میں اس آفت کے بارے میں زياده گفتگونهيں كروں گا جس کے مہلک انجام سے قرآن پاک نے ہمیں ڈرایا ہے، چنانچه اللہ کا فرمان ہے :
ﭐﱡﭐﱁ ﱂ ﱃ ﱄ ﱅ ﱆ ﱇ ﱈﱉ ﱊﱋ ﱌ ﱍ ﱎ ﱏ ﱐﱠ (اور الله كى اور اس كے رسول كى فرمان بردارى كرتے رہو، آپس ميں اختلاف نہ كرو ورنہ بزدل ہو جاؤگے اور تمہارى ہوا اكھڑجائے گى اور صبر وسہار ركھو، بقينا الله تعالى صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے) (سورۀ انفال :٤٦)۔
لیکن میں صرف اس جانب اشارہ کرنا چاہوں گا كه باوجودیکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے همارى امت كو دیگر امتوں كے مقابلے زبان، جنس، نسل، مذہب تاریخ اور جغرافیائی اعتبار سے اتحاد اور یکجہتی کى خصوصیات سے نوازا ہے، اور باوجودیکہ ہمارى عرب لیگ اور تنظیم برائے اسلامی تعاون کے قیام پر آدھی صدی سے زائد عرصه گزر چكا هے ليكن، ہم آج بھی یورپی یونین جیسے اتحاد کو ترس رہے ہیں، حالانکہ یہ ممکن ہے اور يه ناممکنات میں نہیں ہے، اس كے لئے صرف سچی نیتوں، دور اندیش نگاہوں اور آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اور بلا شبہ عرب اس کے اہل ہیں، بلکہ اگر وہ چاہیں تو ایسا اتحاد قائم كر سكتے ہیں ، اور ازھر شریف امت کو درپیش مسائل اور چلينجز سے نمٹنے كے لئے اور عربى شيرازه بندى كے لئے خادم حرمین شریفین کی کوششوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ہمیں انتہاپسندی اور غلو کے ان افکار سے آنکھیں نہیں بند کرنا چاہیے جو ہمارے کچھ نوجوانوں کى عقلوں میں سرایت کر گئے هيں ،اور انہیں سخت انتہا پسند افکار، اور تکفیری فکر کو اپنانے پر مجبور کردياهے، مثلًا القاعده تنظيم، اور دیگر مسلح تحریکیں جو اپنے چولے سے نکل كر شب و روز ملكوں پر حملے كررهى هيں اور امن و استحكام کو متزلزل کررہی ہیں، اور گذشتہ دنوں داعش نامی تنظیم میدان میں رونما ہوئی جس نے خلافت اسلامیہ کا نعرہ لگایا، اور اس سے پہلے اور اسکے بعد ديگر متعدد فرقه پرست اور تباه كن جتھے ظاهر هوئے جن كےپاس پروپیگنڈہ کی بڑی قوت ہے، انتہائی افسوس کی بات یہ ہیکہ انهوں نے پورى دنيا ميں اسلام اور مسلمانوں كو برے انجام سے دوچار كيا۔
منظر نامہ پر صرف داعش ہی ایک ہتھیار بند جماعت نہیں هے بلکہ دوسرے فرقه پرست جتھے بھی ہیں جو شام، عراق اور یمن میں لوگوں كو ذبح کر رهے ہیں اور ان كو زبردستى درربدر کررهے ہیں، اور وہاں کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے نام پر ملکوں کو بیرونی اور علاقائى وفاداری کی طرف کھینچنا چاہتى ہیں، جیسا کہ بحرین میں ہو رہا ہے، انکے ایسے علماء اور مفتی ہیں جو ان جرائم کو جائز قرار دیتے ہیں، اور ان كے ارتکاب پر ابھارتے ہیں، اس غیر انسانی المئے سے متعلق تو باتیں بہت ساری ہیں لیکن مسلمانوں کی وحدت جو ازھر کا اپنے آغاز سے لیکر اب تک ہزار سال سے زياده عرصے پر محیط تاریخ کا سب سے بڑا مقصد ہے وہ ان چیزوں کو واشگاف کرنے میں حائل ہے ۔
ایک مشترکہ چیز جو ان سب کو جمع کرتی ہے یعنی انمیں یکساں طور پر موجود ہے اور وہ اس کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور اسى كو اپنے جرائم كا وجه جواز قرار ديتے هيں وہ گناہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو کافر قرار دینا پھر انکے خون کو مباح سمجھناهے ، یہ بات ہمارے ذہنوں میں ان قديم مذاہب کی تاریخ کا اعادہ کرتی ہے جنهوں نے قرآن و سنت کى نصوص كو غلط سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں پر کفر اور اسلام سے خارج هونے کا حکم لگا کر ان کو قتل کیا، اور یہ نئے غلو پسند لوگ اسی عقیدے پر چل رہے ہیں، چنانچه انهوں نے کفر کے مفہوم کو اس کے صحیح معنی سے منحرف کرديا هے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے متعین کیا تھا اور مسلمان اس پر چل رہے تھے، اور وہ يه تھا گناہوں کی بنیاد پر مسلمان کو کافر قرار نه ديا جائے خواه وه گناه كبيره كا ارتكاب هى كيوں نه كريں إلا يه كه وه ان كو حلال سمجھ ليں، کیونکہ کفر تو در اصل دل سے انکار کرنے اور اللہ، اسکے پیغمبر، فرشتے اور یوم آخرت اور تقدیر کے خیر و شر کی تصدیق سے دل كے خالی ہونے كا نام ہے، چنانچه جو ان تمام پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی وہ مومن ہے کافر نہیں۔
ان انتہا پسند، مسلح اور فرقه پرست تنظیموں کے نزدیک جہاد کا مفہوم بالکل بدل گيا ہے، وہ جسکو چاہتے ہیں قتل کر تے ہیں یہ دعوی کرتے ہوئے کہ یہ جہاد ہے، اور اگر وہ مارے گئے تو جنت میں شہید کے طور پر داخل ہونگے، اور اسلام کو سمجھنے میں یہ سب سے بڑی غلطی ہے، سب سے پہلی بات تو یہ کہ : اسلام میں جہاد جان، مذہب اور وطن کی حفاظت کیلئے شروع هوا ہے، اور هم نے ازهر ميں اپنے اساتذه سے پڑھا هے كه: جنگ کی علت ظلم و زیادتی ہے نہ کہ کفر، اور دوسري بات یہ هے کہ براہ راست جہاد کا اعلان صرف ولی امر ہی کر سکتا ہے، حالات کچھ بھی ہوں افراد اور جماعتيں خود سے اسکی ذمہ داری نہیں لے سکتيں، ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشره عزت و آبرو پامال کرنے، خون بہانے اور مال کو جائز قرار دینے اور ديگر بد عنوانيوں میں داخل ہو جائے گا، اور ان شرعى احكام كو اچھى طرح نه سمجھنے هى كى وجه سے آج هم ان مشكلات كا سامنا كررهے هيں۔
اس لئے انسان پرظلم و زیادتی خواہ اسکا مذہب یا عقیدہ کچھ بھی ہو ایسا معاملہ ہے جسکو اسلام رد کرتا ہے اور حرام قرار دیتا ہے، اور اسلام تو دیگر مذاہب کے ساتھ اس طرح گھلا ملا هے کہ وہ شادی اور ایک چھت کے نیچے ایک گھر میں باہمی زندگی گذارنے کی اجازت دیتا ہے، اور یہ اسلام کی جانب سے خاندانی ہم آہنگی اور مشترک زندگی کا اقرار ہے، اور يوں ہم مکمل شهريت اور وطن میں ایک زندگی کی بات کرتے ہیں۔
چنانچہ ظلم و زیادتی كرنا یا زبردستی دربدر کرنا یا تمیز برتنا دین صحیح اور مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہے، جہاں تک خلافت یا مسلمانوں کی امامت کے موضوع کو غلط سمجھنے کی بات ہے،تو علماء اصول دین کے نزدیک یہ طے ہےکہ امامت كا تعلق ذيلى مسائل سے ہے نه كه اصولی مسائل سے اور يهيں سے دو رائيں سامنے آئيں، اور ازھر یونیورسٹی کے اصول دین کالج کا ادنی سا طالب علم بھی علم عقیدہ میں مقرر کتاب شرح مواقف کی یہ عبارت یاد رکھتا ہے، اور وہ کتاب اشعری مذہب کی معتمد کتابوں ميں ایک ہے، جس میں مؤلف امامت کے بارے کہتے ہیں " ہمارے نزدیک وہ عقائد اور دین کے اصول میں نہیں ہے فروعات میں داخل ہے"۔
اسی طرح علم عقیدہ میں مقرر کتاب شرح المقاصد ميں علامہ سعد تفتازانی جو (اہل السنة و الجماعة کے ائمہ میں سے ہیں) کہتے ہیں " اس میں کوئی نزاع نہیں کہ امامت کے مباحث کا فروعی علم سے متعلق ہونا زیادہ مناسب ہے" اور یہ حکم اہل سنت کے عقائد کی کتابوں میں ثابت اور مقرر ہے، چنانچہ یہ مسئلہ جو اہل السنة و الجماعة کے نزدیک اصول دین میں بھی نہیں ہے، وہ ان نوجوانوں کے نزدیک کفر اور ایمان کے درمیان فیصلہ کرنے والے مسئلوں میں كيسے شامل هوگیا، اور ایسا فتنہ كيسے بن گيا جس میں خون بہائے گئے، آبادیاں تباہ کی گئیں، اور اس دین حنیف کا چہرہ بگاڑ دیا گیا؟
بات لمبی ہو جائے گی اگر ان شرعی مفاہیم کا شمار کرانے لگوں جو ان جماعتوں کے مزاج ميں راسخ هوگئے هيں اور انهوں نے ان كو ان كے صحيح سياق وسباق سے نكال ديا هے، اور اس کے ذریعہ خون کی ندیاں بہانے کو جائز قرار دیا، اس لئے میں اس کانفرنس کے علماء كو ان مفاہیم کى تصحیح اور اس کو ہمارے منقول ومعقول تراث میں اصل جگہ پر لوٹانے کی ذمہ داری دیتا ہوں، پھر اختتامی بیان ميں حق سے معذرت كرتے هوئے اور ذمہ داری سے سبكدوش هوتے هوئے اس كو پورى دنيا كے سامنے نشر كرديا جائے گا۔
میرے معزز بھائیو!
آج ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی کوششوں کا رخ تہذیبی، ٹکنالوجیكل اور سائنسى ترقی کے حصول کی طرف هو، تاکہ ہم ان قوموں کے دوش بدوش چل سکیں جو دنیا کی قیادت كرنے، انسانیت کے انجام میں مؤثر ہونے اور اس کے قافلے کا رخ متعين كرنے میں ہم سے سبقت لے جا چکى ہیں، اور انتہائی ضروری ہے کہ یہ قافلہ مذهب واخلاق كے ضابطوں، وحی کی روشنی اور آسمان کی ہدایت سے آراستہ ہو، تاکہ لوگوں سے انکی وہ تکلیفیں اور عذاب کم ہوں جو ان عالمی سیاستوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں جو پیغمبروں، رسولوں اور جنہیں اللہ نے انسان کی ہدایت اور دونوں جہان میں خوشبخت بنانے کیلئے بھیجا تھا انکے اقدار سے سرمو انحراف کرکے کام كررهى هيں۔
بھائیو!
ایک درست اور بیدار مذهبى خطاب جس کی بنیاد قرآن وسنت اور ان اجتہاد ات پر ہو جن كو امت نے قبول کیا ہے اس کو تیار کرنے کی ازھر نے پهلے بھى کوشس کی اوراب بھى كررها هے۔
اس لئے میں تمام مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ازھر پر پورا بھروسہ رکھیں، وہ خالص عقیدے اور شریعت کی روشنی میں دینی معاملات میں آپ كى اُس طرح رہنمائی کریگا جس كا اللہ نے مطالبه كياہے اور رسول اللہ نے پہونچایا ہے، اور جو غلو کرنے والوں کی تحریف اور باطل قرار دینے والوں کی تراش خراش اور جاہلوں کی تاویل سے دور ہو۔
اور آخرى بات يه کہ ہم انتہاپسندی، غلو اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوشاں ہیں اور یہ چیلنجز شب و روز ہمیں مشغول کئے ہوئے ہیں، لیکن کہیں ایسا نہ ہوکہ هم عرب اور مسلمانوں کے مسئلہ سے دور ہو جائیں، اور اور ايك اهم مسئله سے بے خير هو جائيں وہ قبلہ اولی اور تيسرے حرم شريف يعنى مسجد اقصى کا مسئلہ ہے، اور فلسطینی مسئلہ هے جس کے منصفانہ اور بنیادی حل کے بغیر دنیا میں کوئی امن و امان قائم نہیں ہو سکتا،اور ازهر نے اپنى پندرہویں کانفرنس کو جو جلد ہی منعقد کی جائے گى اقصٰی اور مسئلہ فلسطین کی مدد کے لئے خاص کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
کانفرنس کا اختتامی بیان
اس کانفرنس کے شرکاء نے اختتامی اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ حتمی بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ’’اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بری ہے۔‘‘ بیان کا متن حسب ذیل ہے۔
عرب دنیا کو انتہا پسند تحریکوں کے ابھرنے کے نتیجے میں ایک غیر مسبوق تناؤ اور ہنگامہ آرائی کا سامنا ہے جو دہشت گردی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ پرامن شہریوں کے انسانی وقار، ان کے قومی حقوق اور ان کے مذہبی مقدسات پر حملے کیے گئے، یہ حملے مذہب کے نام پر کیے گئے، جب کہ مذہب ان سے بری ہے۔
اس لیے الازہر کے لیے ضروری تھا جو تمام مسلمانوں کے لیے مذہبی اتھارٹی کی نمائندگی کرتا ہے، کہ وہ ان تصورات کی وضاحت کرنے اور ان بیانات کو واضح کرنے کے لیے پہل کرے جن کا انتہا پسند اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں غلط استعمال کرتے ہیں۔ اور انتہا پسندی غلو اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اسلامی آواز بلند کرے۔
اور امام الاکبر ڈاکٹر احمد طیب کی سربراہی میں جامعہ الازہر الشریف کی دعوت کے جواب کو قبول کرتے ہوئے 11 اور 12 صفر 1436ھ بمطابق 3 اور 4 دسمبر 2014 عیسوی۔ بدھ اور جمعرات کو عرب جمہوریہ مصر کے شہر قاہرہ میں ایک توسیعی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں اسلامی مذاہب کے سربراہان، مشرقی کلیساؤں کے رؤساء کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان اور عیسائی علماء نے شرکت کی۔
دو دن کی تحقیق اور بحث کے بعد میٹنگ کا اختتام ایک بیان جاری کرنے پر ہوا جس میں انہوں نے "الازہر انٹرنیشنل سٹیٹمنٹ"/ الازہر کا عالمی بیان" کہلانے پر اتفاق کیا۔ جس کا متن حسب ذیل ہے:
نمبر 1: وہ تمام مسلح گروہ، جماعتیں اور فرقہ وارانہ "ملیشیائیں" جنہوں نے قوم کے بیٹوں کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کو استعمال کیا - جھوٹے اور بہتان زدہ مذہبی بینر اٹھائے، یہ وہ گروہ ہیں جو سوچ اور طرز عمل کے اعتبار سے گناہگار ہیں، اور ان میں حقیقی اسلام کی کوئی بھی چیز نہیں۔ بے گناہ لوگوں کو دہشت زدہ کرنا، معصوموں کو قتل کرنا، عزت اور اموال پر حملہ کرنا، اور مذہبی مقدسات کی توہین کرنا - انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جن کی اسلام ہر شکل و صورت میں مذمت کرتا ہے۔ اسی طرح قوموں کو تقسیم کرنے کا ہدف اور قومی ریاستوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نشانہ بنانا دنیا کے سامنے اسلام کی مسخ شدہ اور نفرت انگیز تصویر کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
اس وجہ سے یہ جرائم نہ صرف سچے مذہب سے متصادم ہیں بلکہ وہ مذہب کو بھی مجروح کرتے ہیں جو امن ، اتحاد عدل و انصاف، خیرات اور انسانی بھائی چارے کا مذہب ہے۔
نمبر 2: اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مشرق کے مسلمان اور عیسائی آپس میں بھائی ہیں، ایک تہذیب اور ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں، جو کئی صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اور وہ خودمختار اور آزاد قومی ریاستوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے پرعزم ہیں جو تمام یہ (سوچ) تمام شہریوں کے درمیان برابری کے حصول کو متحقق کرتی ہے، اور آزادیوں کا احترام سکھاتی ہے.
ادیان اور مذاہب کی تعددیت ہماری مشترکہ تاریخ میں کوئی ہنگامی واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تنوع ان کے لیے اور دنیا کے لیے غنی کا ذریعہ تھا اور رہے گا۔ اس پر تاریخ گواہی ہے۔
عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات تاریخی تعلقات ہیں، اور مشترکہ اور نتیجہ خیز بقائے باہمی کا تجربہ ہے۔ مصر اور دیگر کئی عرب ممالک میں ہمارے مثالی تجربات ہیں جو حقوق وفرائض کے ساتھ مکمل شہریت کی ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا عیسائیوں اور دوسرے مذاہب وعقائد کے لوگوں پر مذہبی وجوہات کی بناء پر حملہ کرنا حقیقی دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے انحراف اور وطن اور شہریوں کے حقوق سے انکار ہے۔
نمبر3: عیسائیوں اور دیگر مذہبی اور نسلی گروہوں کی نقل مکانی ایک قابل مذمت جرم ہے، جس کی مذمت میں ہم متحد ہیں۔ لہٰذا ہم اپنے مسیحی لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے وطن میں جڑیں پکڑیں، تاکہ انتہا پسندی کی اس لہر کو ختم کیا جا سکے جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ ہم دنیا کے ممالک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امیگریشن کی سہولت کو ان کی فراہم کردہ امداد کے شیڈول سے خارج کر دیں۔ کیوں کہ ہجرت جارحانہ نقل مکانی کروانے والی قوتوں کے اہداف کو پورا کرتی ہے جن کا مقصد ہماری قومی ریاستوں پر حملہ کرنا اور ہمارے شہری معاشروں کو توڑنا ہے۔
نمبر 4: مغرب کے کچھ حکام اور اس کے کچھ مفکرین اور میڈیا کے لوگ ان گروہوں کے لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں جو صحیح دین سے متصادم ہیں تاکہ وہ دقیانوسی تصورات پیش کریں جن کی وجہ سے وہ اسلامی شریعت اور اس کے طریقے کار پر بہتان باندھ سکیں ۔ اس منفی رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے، منصفانہ کانفرنس مغربی مفکرین اور حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان برے نقشوں کو درست کریں اور منفی رویوں پر نظر ثانی کریں۔ تاکہ اسلام پر وہ الزام نہ لگایا جائے جس میں وہ بری ہے، اور اس پر ان گروہوں کے اعمال کے کا مقدمہ نہ چلایا جائے جن کو مذہب واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔
نمبر 5: کانفرنس مذہبی اور عقدی تعدد اور نسلی تفریق کے احترام کے فریم ورک کے اندر قیام امن اور انصاف کے فروغ کے تعاون کے لیے ایک عالمی مذاکراتی اجلاس کا مطالبہ کرتی ہے، اور آتش زنی کو ہوا دینے کے بجائے تندہی اور خلوص سے کام کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
نمبر 6: قرآن وسنت کی نصوص اور علمائے کرام کے اجتہادات کے غلط مفہوم کو فروغ دیا گیا جو دہشت گردی کا باعث بنا۔ جس سے ملک کے متعدد نوجوانوں کو "برین واشنگ" کے عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے، اور اب بھی اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے علمائے کرام اور دانشوروں پر واجب ہے کہ وہ رہنمائی پروگراموں اور تعلیمی کورسز کے ذریعے دھوکہ کھانے والوں کو ہاتھ سے پکڑیں۔ نصوص اور مفاہیم کے صحیح تصور کو واضح کریں۔ تاکہ وہ تشدد کے حامیوں اور تکفیر کو فروغ دینے والوں کا شکار نہ ہوں۔
ان تصورات میں سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خلافتِ صحیحہ کا تصور بھی شامل ہے۔ یہ لوگوں کے فائدے کے لیے ایک تنظیم تھی جس کا مقصد دین اور دنیا کی سیاست کی حفاظت کرنا تھا۔ لوگوں میں انصاف اور مساوات کا حصول تھا اسلام میں حکمرانی انصاف اور مساوات کی اقدار پر مبنی ہے اور ملک کے تمام شہریوں کے لیے رنگ، جنس یا عقیدے کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر شہریت کے حقوق کا تحفظ ہے۔ ہر وہ نظام جو ان بنیادی انسانی اقدار کو حاصل کرتا ہے وہ نظام اسلام کے ماخذ سے (اپنے بقا کا) جواز حاصل کرتا ہے۔
اس کے علاوہ مسخ شدہ تصورات میں "جہاد کا تصور" بھی ہے، اور اسلام میں اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ یہ اپنے دفاع اور جارحیت کے جواب میں جائز کیا گیا ہے۔ اور اس کا اعلان صرف ولی امر ہی کر سکتا ہے اور اسے کسی فرد یا گروہ پر نہیں چھوڑا جاتا، خواہ اس کی حیثیت کچھ بھی ہو۔
نمبر 7: عرب دنیا کے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے تعاون کو منظم کریں اور اس تعاون کا طریقہ کار وضع کریں تاکہ استحکام، سلامتی اور خوشحالی حاصل کی جا سکے۔
اگر ان ممالک نے ایک اقتصادی منڈی، تجارت، ایک کسٹم یونین اور ایک مشترکہ دفاع قائم کیا ہوتا تو یکجہتی اور انضمام کے عناصر کو ایک دائرے کے فریم ورک میں حاصل کیا جاتا جو متعدد قومی ریاستوں کو ایک متحد حکمت عملی کے تحت اکٹھا کرتا۔ جو ان کی حفاظت کرتا.
نمبر 8: کانفرنس عرب اور اسلامی دنیا کے علماء اور مذہبی حکام کی طاقت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ اور نسلی آگ کو بجھانے کے لیے خدا اور تاریخ کے سامنے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، خاص طور پر بحرین، عراق، یمن اور شام میں۔
نمبر 9: صیہونی افواج کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بالخصوص قدس شریف میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہیں جن میں فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کو یکساں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ مساجد اور گرجا گھروں کو بھی نشانہ بناتے ہے، خاص طور پر مسجد اقصیٰ، جس کے ارد گرد خدا نے برکت دی ہے۔ کانفرنس کرنے والے بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان گھناؤنے حملوں کو ختم کرنے اور مجرموں کو بین الاقوامی فوجداری عدالتوں سے رجوع کرنے کے لیے مؤثر اور ذمہ داری سے مداخلت کرے۔
نمبر 10: کانفرنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مشرق اپنے مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ انتہا پسندی اور غلو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اور یہ کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا، اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو اور اس کے مقاصد کچھ بھی ہوں، ان سب کی ذمہ داری ہے۔
آخر میں، کانفرنس کے شرکاء ازہر شریف اور امام الاکبر ڈاکٹر احمد طیب کو اس جامع کانفرنس کے بلانے کے اقدام پر ان کی زبردست تعریف کی۔ انہوں نے عرب جمہوریہ مصر کے صدر، حکومت اور عوام کا بھی شکریہ ادا کیا اور مصر کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے اور بقائے باہمی کی بنیادوں کو برقرار رکھنے میں ہر طرح کی کامیابی کی خواہش کی۔