12/02/2015

قاہرہ یونیورسٹی میں شیخ الازہر کے ساتھ جشن۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عصر حاضر کے اسلامی مسائل پر طلباء کے ساتھ ایک کھلا اجلاس۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
قاہرہ یونیورسٹی کے سابق صدر، آئینی قانون دان پروفیسر ڈاکٹر جابر نصار کی سربراہی میں، یکم دسمبر 2015 کو قاہرہ یونیورسٹی کے طلباء کے لیے شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب کو اعزاز دینے کے موقع پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
 امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے قاہرہ یونیورسٹی کے عظیم الشان تقریب ہال کے اندر طلباء سے ایک تاریخی خطاب کیا۔ اس میں انہوں نے مصری یونیورسٹی کے طلباء کی بیداری کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اس ثقافتی ورثے پر فخر کرنے کا کہا جو مصری نوجوانوں کو باقی دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔
اپنی تقریر کے بعد امام اکبر نے قاہرہ یونیورسٹی اور مصری یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات کے ساتھ عصر حاضر کے اسلامی مسائل پر گفتگو کرنے اور انتہا پسند گروہوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور نوجوانوں کو گھیرے ہوئے خطرات کے بارے میں بہت سے طلباء اور نوجوانوں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک کھلی میٹنگ کی۔ اور یہ بھی بتایا کہ ان خطرات سے کیسے آگاہ ہو سکتے ہیں، اور ان انتہا پسندانہ دھاروں اور گروہوں کے بارے میں الازہر کے موقف کو واضح کیا۔
امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر سے ملاقات میں مرد اور خواتین طلباء کے ساتھ بھرپور گفتگو ہوئی، جس میں شرکاء نے اپنے سوالات اور خدشات کا اظہار کیا، جبکہ امام طیب نے ہر سوال کے تسلی بخش جوابات دیے۔.
پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب کے قاہرہ یونیورسٹی کے اس دورے کو طلبہ اور عوامی سطح پر بہت زیادہ پذیرائی ملی، انہوں نے اسے تاریخی قرار دیا اور ان سے اسے دوسری یونیورسٹیوں میں دہرانے کا مطالبہ کیا۔

قاہرہ یونیورسٹی  میں گرینڈ امام کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحيم


حامدا ومصلیا أما بعد! 
پروفیسر ڈاکٹر جابر نصار چانسلر قاہرہ یونیورسٹی 
مختلف مصري یونیورسٹیوں کے معزز چانسلرز حضرات ، ان كے پروفیسرز،  اسکالرز اور ملازمين۔
قاہرہ یونیورسٹی اور دیگر مصرى یونیورسٹیوں کے عزیز طلبہ وطالبات۔
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبركاتہ
مجھے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آپ سے گفتگو کرنے کی دعوت ملی  اور آپ كى  قدیم ترین یونیورسٹی میں لکچر دینے کا موقع ملا، اور یہ قاہرہ یونیورسٹی  ہے جہاں سے  علم و ادب اور کلچر کے میدان میں جدید مصرى  بیداری کے بهت سے ائيڈيلز نے فراغت حاصل كى،  اور اس كے فرزند طویل زمانے تک علم اور روشنی کے ايسے شعلے اٹھائے رهے جنهوں نے مصر اور اسکے آس پاس اسلامی وعربی دنیا کو روشن کیا۔
اسى طرح مجھے اس بات كى بھى خوشى هے کہ میں اس یونیورسٹی کے تمام کارکنان، نائب، فیکلٹیز کے ڈين حضرات اساتذه كرام، طلبہ،  اور ملازمین  کا شکریہ ادا کررها هوں ۔
معزز سامعین! 
آج اپنے نوجوان طلبہ وطالبات سے گفتگو کرکے بڑی خوشی ہو رہی ہے ، اس لئے كه  اس لکچر میں اساتذہ کیلئے میری گفتگو ان كى  سماعت پر بات کو دہرانے کے مترادف ہے، اور میں ان کے ساتھ گفتگو كركے ايسى جگه کھجور لے جانے والے کی مانند ہوں جهاں كوئى نه هو جیساکہ  مثل مشهور هے، اور میں آپکو صاف صاف بتادوں کہ ميں نے جوں هي ايسے موضوع كے بارے ميں سوچنا شروع كيا جس كے ذريعے ميں مصر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سے خطاب كروں اور اس ميں ان كى مشكلات، ان كے رنج وغم اور ان كے خوابوں كا جائزه لوں تو ايسے مختلف مسائل، اور مختلف موضوعات کی ایک پوری دنیا  ميرے سامنے آ گئی جن پر اگر كوئى مقرر أيك هي مجلس ميں صاف صاف گفتگو كرنا چاهے تو وه نهيں كر سكتا خواه اس كے اندر ايجاز واختصار كى صلاحيت كتنى هي كيوں نه هو، اس وقت ميرى سمجھ میں نهيں آرہا تھا کہ آیا میں نوجوان اور وطن کے بارے میں گفتگو کروں، یا نوجوان اور ایجوکیشن، یا نوجوان اور کام، یا نوجوان اور ایمان، یا  نوجوان اور الحاد، یا نوجوان اور اخلاق؟ یا نوجوان اور لاپرواہی يا نوجوان اور ذمه دارى ،  يا بڑے لوگوں اور ملك پر نوجوانوں كے حقوق كے موضوع پر گفتگو كروں، ان كے علاوه  اور بهت سے موضوعات ذهن ميں آئےجن كو ذكر كرنے كى يهاں گنجائش نهيں اور يه تمام مسائل ايسے هيں جن كے بارے ميں صورت حال اور اس كى مشكلات، وقت اور اس كي ضرورت اور مصر اور اس كے بحرانوں اور چيلنجيز كو مدِ نظر ركهھتے هوئے اور امانت دار تهذيبى بنيا دكا حواله دے كر نوجوانوں كے ساتھ بلند آوازميں كھلى اور واضح گفتگو كرنا ضرورى هے.
ان مختلف قسم كے موضوعات ميں سے أيك موضوع كے انتخاب كے سلسلے ميں اس حيرانى اور پريشانى كے بعد ميں نے اس بات كو ترجيح دى كه ميں عام قواعد يا ثابت شده دائرے كارپر گفتگو کروں، اس امید سے کہ آپ اپنی جواں همتى ابھرتے هوئے حوصلوں  تعمیری افکار،   زرخیز اور طويل تجربات اور ان كے علاوه ديگر ان چيزوں سے ان قواعد اور دائره كار كو پُر كريں گے جن کا ہمیں آپ سے انتظار ہے اور جن كى ہم آپکے لئے تمنا کرتے ہیں۔ 
  میں نے آج شب گفتگو کے لئے جس عام دائرے كا انتخاب كيا هے اس پر گفتگو كرنے سے پهلے  اے نوجوانو! میں تمہیں یاد دلانا چاہوں گا کہ تم کبھی بھی اپنی اس تہذیبی وراثت سے غافل نہ ہو جس کے باعث تم دنیا کےباقى نوجوانوں سے ممتاز  ہو، یا اس شريفانه اصل کو نه بھولوجسکی جڑیں زمانه قديم ميں پيوست هيں، یا اپنی اس قديم تاریخ  كو نه بھولو جس نے تمکو بنایا، یا تم نے اسکو بنایا، اے نوجوانان مصر! دنیا کے دیگر نوجوانوں کے بیچ صرف تم ہی ہو جسکا رشتہ ایسی اصل تہذیبوں سے ہے جو تمهارے  خون تمہاری رگوں میں گھوم رهى هيں اور وه هيں قديم مصريوں كى تهذيب، عيسائى تهذيب ،عربى اور اسلامى تهذيب ، اور میرا خیال ہے کہ نصیب نے شاید تمہارے علاوہ دوسرے نوجوانوں کے لئے  ایسی رنگا رنگ تهذيب اور زرخيز ميراث جمع نهيں كى هے جس كى تاريخ بهت لمبي هو۔
اے نوجوانو! تم کہوگے کہ دنیا کے هر گوشے كى  ایک تاریخ ہے، اور اس کی قدیم تہذیبیں ہیں، اور میں کہوں گا کہ تم نے سچ کہا، لیکن ایک فرق ہے جهاں رکنا ، اور اس پر   غور وفكر كرنا ضرورى هے اور يه دو  باتوں پر مشتمل هے پہلی بات: دنیا کی تمام تہذیبیں مصر کی قدیم تہذیب کے مقابلے میں نئى ہیں؛ اور قديم مصریوں کی تہذیب ہی سب سے پرانی ہے، گزشتہ کل میرے آفس میں چین کے گرجا گھر وں کے صدر زیارت کو آئے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ دونوں تہذیبوں میں کونسی تہذیب سب سے زیادہ پرانی ہے چينى يا مصرى، تو انہوں نے بلا تردد کہا کہ مصر کی تہذیب سب سے پرانی ہے، يه  سن كر ميرے اندر كوئى حركت پيدا نهيں هوئى  جیساکہ هر مصری عام طور پر اس طرح کی بات سنکر جھوم اٹھتا ہے، بلکہ تھوڑا سا مجھے انقباض ہوا، جب میں نے موازنہ کیا کہ چین کی تہذیب ترقی کرکے کہاں پہنچ گئ اور مصر کی تہذیب جو سب سے قدیم اور پرانی ہے کہاں ہے ، حالانکہ امید یہ تھی کہ معاملہ الٹا ہو  اگر معاملات صحیح رخ پر چلتے۔ 
دوسرا فرق : دوسری تہذیبوں میں نوجوان اپنے موروثى سرمایہ سے مربوط نہیں ہیں بلکہ کٹے ہوئے ہیں، اور اپنے موروثى سرمائے اور خزانے سے غافل ہیں، اور انکا ربط کیسے رہ سکتا ہے جبکہ وہ  اس ورثه كي زبان ہی نہیں جانتے اور  نہ اسمیں گفتگو کرتے ہیں، اور نه يه جاننے كى خواهش ورغبت ركھتے هيں كه اس ورثے نے اپنے اندر علم ومعرفت، دين ومذهب سلوك وكردار اور اخلاق كے كتنے خزانے چھپا ركھے هيں؟  موروثى سرمایے اور همعصرى  کے مابین قصداً  پيدا كى جانے والى خلا كى وجه سے ايسى پيڑھياں وجود ميں آئيں جو اصول اور نمونے كے فلسفے سے كهيں زياده زمانے اور جگه كى تبديليوں سے تعلق ركھتى هيں كيونكه ان پيڑھيوں نے قرونِ وسطى كے تمام موروثى سرمايوں اور اُن كے تمام آثار كو اپنے ذهنوں سے اس طرح مٹاديا گويا ان كى كوئى قدر وقيمت نهيں۔  
اگر يه انصاف كى بات هے كه علم ومعرفت، فلسفے اور سائنسى ايجادات كى وجه سے بلكه  ظلم وستم بدعنوانى اور سركشى كى بيڑيوں سے انسان كو آزاد كرانے كى وجه سے پورى انسانيت نئى مغربى تهذيب كا احسان مند هے كيونكه ان شعبوں ميں اس تهذيب نے جو كاميابياں حاصل كى هيں، ان كو انسانيت نے آغاز تاريخ سے لے كر مغربى بيدارى كے آغاز تك حاصل نهيں كيا هے تو اگر اس تهذيب كے بارے ميں يه كهنا انصاف كى بات هے تو هميں يه كهنے كا حق بھى حاصل هے كه اس تهذيب نے ان كاميابيوں كے ساتھ ساتھ عصر جديد كے انسان كے لئے بحران يا  اناركى يا نظر كا دھوكا بھى پيدا كرديا هے۔
میں اس بحران یا انارکی کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرونگا، لیکن یہ کافی ہوگا کہ پوری دنیا كو درپیش خطرات کا ہم ادراک کریں، اور ميں ان تمام باتوں كے نتيجے كے طور پر اپنى پهلى بات كى يقين دهانى كرنا چاهتا هوں اور وه يه كه  اے نوجوانو! تمهارا رشته اُن اصل تهذيبوں سے هے جو اپنے موروثى سرمائے سے رهنمائى حاصل كررهى هيں، انسانيت كى خدمت كے لئے اسى پر بھروسه كررهى هيں اسى كے ذريعے اپنا كارواں درست كررهى هيں اور يه اپنے لمبے سفر  ميں نفع بخش اور بهترين چيز كى طرف رواں دواں هيں۔
معزز حاضرین!
اسلامی تہذیب مشرق کی  جدید ترین تهذيب  ہے، اور ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ مؤثر ہے،  يه تهذيب تين يكساں زاويوں يا مثلث كے مشابه هے اور وه هيں: وحى الهى، وحى كے ذريعے درست كى هوئى عقل اور اخلاق۔
جہاں تک وحی الہی کا  تعلق ہے تو  وہ اسلامی  تهذيب كے نظام میں چکی کى كيل كى  مانند ہے، اور اسکی حیثیت انسان کے جسم میں دل کی ہے، وہ اسکو زندگى ديتى هے  ، اور اسکو جمنے اور ٹکے رہنے میں مدد کرتى ہے، اور اس تهذيب میں وحی سے مراد قرآن کریم کى نصوص ہیں اسى طرح   قرآن کریم کى نصوص کی وضاحت کرنے والی سنت نبوی، اور احکام بيان  کرنے والی سنت، اور آداب، اقدار اور سلوک کی رہنمائی کرنے والی سنت كى نصوص بھي اس سے مراد هيں، اور ہم جانتے ہیں کہ قرآنی نصوص کیلئے یہ مقدر ہے کہ وہ كتابوں میں اور سینوں میں رهے، يوں اس  نے اسلامی تهذيب کی روح کو اس قابل بنا دیا کہ  اس ميں آنے پستى اور اندر اور باهر دونوں سے  اس پر كئے جانے والے سخت حملوں كے باوجود يه آج تك زنده رهے، يه تهذيب پستى اور زبوں حالى كے زمانے ميں بھى ايسا دهكتا هوا انگاره بن كر باقى رهى جس كى شدت كبھى كم نهيں هوتى،  مسلمانوں كى تهذيب جن چيزوں سے دوچار هوئى اگر ان سے كوئى دوسرى تهذيب دوچار هوئى هوتى تو وه صديوں پهلے ختم هو چكى هوتى اور صرف تاريخ كا ايك باب بن كر ره جاتى۔ 
اس كے بعد عقل اپنے پورے معانى اور ملحقات كے ساتھ آتى هے تاكه اس مذهب ميں ايسى بنياد كا كردار ادا كرے جس كا وحى الهى يعنى قرآن وسنت كى نصوص نے سهارا ليا ، اور قرآن کریم نے لوگوں سے مخاطب ہونے اور انکو شریعت کے احکام کا مکلف بنانے میں اس پر پورا  بھروسہ کیا هے، اور معلوم ہیکہ قرآن مجید میں عقل کا درجہ وضاحت اور رسوخ کے لحاظ سے اس قدر واضح هے كه اس ميں چوں چرا كى كوئى گنجائش نهيں چنانچه قرآن مجید کی تلاوت حساب کے نمبرات  کی طرح اسکو ثابت کرتى ہے، چنانچه دلائل وبراهين ميں عقل استعمال كرنے كے معنى ميں عقل اور غور وفكر كا ماده قرآن كريم ميں ايك سو بيس مرتبه سے زائد آيا هے ، اور عقل رکھتے ہیں، تدبر کرتے ہیں، سوچتے ہیں، دیکھتے ہیں، سنتے ہیں سمجھتے ہیں ، يه اور اس جيسے ديگر مفرادات بار بار آئے هيں اس كے علاوه علم جو كه يقين يعنى حق كے معنى ميں هے اس كے اور ظن وگمان اور شك وشبهے كے درميان واضح شكل ميں فرق كيا گيا هے، ارشاد بارى هے: ﭐﱡﱋ ﱌ ﱍ ﱎ ﱏﱐ ﱑ ﱒ ﱓ ﱔﱕ ﱖ ﱗ ﱘ ﱙ ﱚ  ﱛ ﱜ ﱝ ﱞ ﱟ ﱠ ﱡ ﱢ ﱣ ﱤ ﱥ ﱦ ﱧ  ﱨ ﱩﱠ   
((28)حالانكہ انہيں اس كا كوئى علم نہيں وه صرف اپنے   گمان كے پيچھے پڑے ہوئے ہيں اور بيشك وہم (وگمان) حق كے مقابلے ميں كچھ كام نہيں ديتا۔ (29) تو آپ سے منہ موڑ ليں جو ہمارى ياد سے منہ موڑے اور جن كا  اراده بجز زندگانىء دنيا كے اور كچھ نہ ہو)۔ (سورۀ نجم)۔
 جہاں تک اسلامى تهذيب میں اخلاقى بحيثيت ركن تو اس بارے میں  میں دو بات کہنا چاہوں گا:
پہلی بات : اسلام میں اخلاق ثابت شدہ هيں، مفادات اور اغراض ، یا طاقت اور غلبہ وغيره كى منطق كے ساتھ  اسمیں كوئى تبدیلی نہیں ہوتی، جبكه ديگر تهذيبوں كى اخلاقى بنياد ميں يه چيز بهت زياده پائى جاتى هے۔ 
اس لئے يه بات بهت مشكل هے كه كوئى ايسا وقت آئے جس ميں مسلمان دوسروں پر غالب آنے كى كوشش كريں، يا ان كو قتل كرنے كا جواز تلاش كريں، يا ان كے ساتھ لڑائى جھگڑا كريں، اور اپنى بات ماننے پر اُن كو مجبور كريں، اسلامی اخلاق کے پيمانے ميں جو برا هے وه هميشه برا رهے گا اور جو اچھا هے وه هميشه اچھا رهے گا۔ 
اسى طرح اسلام كا اخلاقی فلسفہ قدروں كے سلسلے ميں نظريۂ اضافيت كا قائل نهيں هے اور نه اس ميكيافيلى اصل كو هى قبول كرتا هے جو مقصد كے حصول كے لئے كسى بھى وسيلے كو اختيار كرنا جائز قرار ديتا هے، اسى طرح ايك هى واقعے ميں يا ايك هى طرح كے حادثات ميں دهرى پاليسى اختيار كرنے پر بھى ايمان نهيں ركھتا، يه اور ان كے علاوه ان تمام منحرف قدروں كو مسترد كرتا هے جن كا تعلق ظالمانه فكر وخيال سے هوتا هے اور جو عصر حاضر كے انسان كے لئے بحران اور اس كى تكليفوں اور پريشانيوں كا براه راست سبب بن رهى هيں۔
دوسری بات : اسلام میں عبادت جس ميں مثلًا نماز اور روزے سرفهرست هيں يه اخلاق سے بے نیاز نہیں كرتے خواه وه كتنے هى زياده كيوں نه هوں اور وه آسمان كى بلندى هى پر كيوں نه پهنچ جائيں، اور اسلام میں عبادت اگر اخلاقی بنیادوں سے مربوط نہ ہوں تو وہ بیکار هيں،(( نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا گیا کہ فلاں عورت نماز بھی پڑھتی ہے، اور تہجد بھی لیکن اپنى زبان سے اپنے پڑوسی کو تکلیف دیتی ہے، تو آپ نے فرمایا:  اس ميں کوئی خير وبھلائی نہیں، وہ جہنم میں هوگى، اور کہا گیا کہ ایک عورت ہے فرض نماز بھی ادا کرتی ہے اور کھانے بھی صدقہ کرتی ہے اور اسکے علاوہ وه کچھ نہیں كرتى لیکن وہ کسی کو تکلیف نہیں دیتی تو آپ نے فرمایا : وہ جنت میں هوگى ( ))) اور دوسری جگہ فرمایا ((کیا میں تمہیں نه بتاؤں كه تم ميں سب سے زیادہ کامل ایمان والا کون ہے، آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، جو اپنے بازو نرم ركھتے هيں ،جو مانوس بناتے هيں اور مانوس بنائے جاتے ہیں))( )۔
 آپ نے یہ بھی فرمایا: ((مومن مانوس كرتا هے، اور اس شخص ميں كوئى خير نهيں جو نه تو مانوس کرتا ہے اور نه مانوس  کیا جاتا  هے))۔
بلکہ آپ نے يهاں تك فرمایا کہ بندہ اپنے حسن اخلاق سے آخرت کے بلند درجے کو پہنچ جاتا ہے، اور عظيم مقام حاصل كرتا هے خواه اس كى عبادت كم هى كيوں نه هو، اور انسان اپنى بد اخلاقى سے جهنم كے آخر گڈھے ميں پهنچ جاتا هے خواه وه عبادت گزار هى كيوں نه هو))۔
چنانچہ وہ نوجوان جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام كا دائره صرف مسجدوں، نقشوں اور شکلوں تك محدود هے، اور  اسکے بعد وه اپنے ساتھیوں پر نقد کرنے اور انکے جذبات کو مجروح کرنے میں آزاد ہیں اور وہ اللہ کی دیگر مخلوق سے ممتاز ہیں، ان لوگوں پر یہ لازم ہےکہ وہ اخلاق اور عبادت کے درمیان تعلق كے سلسلے ميں نبوى آئين سازى کو اچھی طرح سمجھیں تاكه وہ اپنی عبادت کو داؤ پر نه لگاديں اور وہ سب بیکار ہوجائيں اور انکا انجام بھی وہی ہو جو اس عورت کا ہوا جو اپنی زبان کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی۔
اے نوجوانو! جو عام دائره كار ميں نے آپ سے بيان كئے هيں ان كى روشنى ميں آپ حرکت کریں، سوچیں، جانیں، اور آپ وحی الہی  اور اسکى صحیح نصوص كے نور سے ، روشن عقل اور اس سرکش عقل كے درميان پائى جانے والى حدوں كو سمجھيں جو اپنی راہ میں ہر چیز کو برباد کر دیتی ہے اور آپ يه جان ليں كه وحی کا میدان الگ ہے اور عقل کا میدان الگ ہے، ان دونوں کے درمیان خلط ملط یا دوسرے كے شعبے ميں ان میں سے کسی ایک ہی پر اعتماد مطلق پريشانى کا سبب بنے گا، اور فکری يا عقلی سرکشی، ان دونوں شعبوں کے درمیان پائى جانے والى حديں ختم هوجانے سے هى پيدا هوتى هے ، چنانچه جب عقل كو چھوٹ ملتى هے تو وه يا تو الحاد كى طرف جاتى هے يا دوسروں كو گمراه كرتى هے يا پھر وه بند هوجاتى هے اور كناره كشى اختيار كرليتى هے اور لوگوں كو كافر بنانے لگتى هے، اور يه دونوں شكليں نفسياتى اور فكرى بيمارى هيں، اور اس كا نتيجه گمراهى اور غور وفكر اور استدلال ميں خبطى هوجانا هوتا هے۔
ائمه علم كلام نے اس سلسے ميں عظيم باتيں طے كى هيں اور عقلى دليل اور نقلى دليل كے درميان پائے جانے والے باريك فرق بيان كئے هيں اور اُن دونوں كے شعبے اور ميدان بھى بيان كئے
هيں اور بتايا  هے اس طرح ايك كے حساب پر دوسرے كو باطل كرنے سے بيك وقت دونوں دليليں باطل هوجاتى هيں۔ 
اور دوسری بات جسکی طرف میں سرسرى طور پر اشارہ کرنا چاہوں گا وه وطن سے وفادارى هے،  خاص طور سے اس نازک مرحلہ ميں جس سے مصر اور عرب قوم گزررهى هے، اور اے نوجوانو! آپ كے لئے ضرورى كام يه هے كه آپ اپنی پوری ذمہ داری کا احساس کریں، اور وطن کی اس امانت كو هميشه ياد ركھيں جس سے آپ اپنے پروردگار كے سامنے حاضر هوں گے، اور خدا کے سامنے آپ اسکے جوابدہ ہوں گے، اور یہی ذمہ داری دنیا میں بھی ہے، تاریخ اسکو ریکارڈ کریگی، اور دن اسکو یاد رکھیں گے، اور تاریخ رحم نہیں کرتى جیساکہ لوگ کہتے ہیں، چنانچہ آپ اس بات كى پورى كوشش كريں كه تاريخ كى فائلوں ميں آپ كا قومى صفحه بالكل صاف ستھرا هو، اسى طرح اس بات كى بھى پورى كوشش كيجئے كه آنے والى پيڑھياں آپ كى تعريف كريں اور آپ كا اسي طرح احسان مانيں جس طرح هم آج مصر كے گزشته نوجوانوں كو قدر ومنزلت كى نگاه سے ديكھ رهے هيں كيونكه وه سامراج كے سامنے ڈٹے رهے ،اور انهوں نے مصر كى گھات ميں لگنے والوں اور يهاں بگاڑ پيدا كرنے والوں كے منصوبے ناكام بنا ديئے، آپ اس ملك كے مفاد كا خيال ركھئے جس كى پيداوار اور نعمتيں هم كھانے پينے ميں استعمال كررهے هيں، اس كى سر زمين پر تعليم حاصل كررهے هيں،  خوشى خوشى زندگى گزار رهے هيں اور اس سے ديگر فائدے حاصل كررهے هيں؛ آپ ان لوگوں كى صف ميں هرگز شامل نه هوں جو دائيں هاتھ سے تو مصر سے فائده اٹھا رهے هيں اور بائيں هاتھ سے اس كى پيٹھ ميں خنجر گھونپ رهے هيں، مرد ايسے نهيں هوا كرتے، اور نه اهل وفا اور  اهلِ مروت هى ايسے هوتے هيں۔
اے میرے عزیز ترین فرزندو! 
آپ یہ خیال نہ کريں کہ میں  آپ كو  آپ كي   ذمہ داریاں  یاد دلانے آیاہوں، اور يه بتانے آيا هوں كه آپ كے لئے کیا مناسب ہے اور كيا بهتر هے، ليكن ميں آپ كى مشکلات، پریشانیوں اور تکلیفوں سے بے خبرنهيں  ہوں، باوجود يکہ میں جوانی کے مراحل کو پار کرچکا ہوں لیکن اپنى نوجوانى كے دور کے نوجوانوں کے درد اب بھی محسوس کرتا ہوں، اور ميں ان حالات سے متعلق ان كى ذمه داريوں كو نهيں بھولا جو اُن پر تھوپ دئے گئے تھے اور  ان كو پيدا كرنے ميں ان كا كوئى حصه نه تھا، اور نه هى ان ميں ان كا كوئى فائده تھا، ہم دوسروں کے بل ادا کیا کرتے تھے، اور دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگتتے تھے،، ہم نے جنگوں کو دیکھا ہے اُن سے هونے والى تباهياں اور بربادياں ديكھى هيں اور ان سے پيدا هونے والے اقتصادى اور معاشرتى بحران ديكھے هيں، اور انمیں سب سے سخت ترین یہ تھا کہ ہمارے سامنے مساوات اور معاشرتى عدل و انصاف کا راستہ بند ہوگيا تھا،اور آپ لوگ اگر چہ اسی سے مشابہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہيں، مگر ان سے چھٹکارا پانا آپ كى حکمت اور سمجھداری اور صبر كے لئے مشکل نہیں هے، بشرطيكه آپ كے ارادے سچے هوں، آپ ٹھنڈے اور متوازن دماغ سے سوچيں اور حالات، واقعات اور علاقے كو درپيش خطرات كو اچھى طرح سمجھيں۔ 
آپ كے لئے ضروری ہے کہ آپ جب ان مشكلات كے حل كے لئے آگے بڑھيں تو  صورتحال کا صحیح جائزہ ليں اور دانشمندانه مطالعه كريں، آپ كے لئے اس كے سوا كوئى چاره نهيں كه ان  حلول سے منھ پھير ليں جو موجوده چيلنجز اور تبديليوں سے نمٹے كے لئے مفيد نهيں رهے،  ملازمت کے پیچھے بھاگنا، اسی سے چمٹے رہنا، عمر کی بہار کو اسی کے انتظار میں ضائع کرنا، دستى كام سے بھاگنا، شكل وصورت كى
پرستش  كرنا اور آرام وراحت اختيار كرنا يه سب كى سب موروثى چيزيں هيں چنانچه اگر هم مصرى معاشرے كو كام، پيداور، متوقع معاشرتى عدل وانصاف اور مساوات كى طرف لے جانا چاهتے هيں تو هميں ان تمام چيزوں كو چھوڑنا هوگا۔ 
دريں اثنا میں یہ بھی کہوں گا کہ ملك كے تمام ذمه داران كے لئے ضرورى هے كه  وہ نوجوانوں کی پریشانیوں اور كفايت شعاريوں میں شریک ہوں،  اور عملى منصوبوں كے ذريعے اور ايسے شعار سے دور هوكر انکے غم اور افکار کو بانٹیں جو بے سود هوتے هيں نوجوان جن کا مذاق اڑاتے ہیں،  كيونكه ان ميں ان كو کوئی ایسا فائدہ نظر نهيں آتا جو انکی زندگی کو بدل دے، اور میں تو آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش مالدار اور دولتمند لوگ اپنے مال کو  نوجوانوں کی پریشانی کو کم کرنے میں لگائيں، اور انہیں ایک ایسی سچی ترقی اور بیداری کی طرف لے جائيں جن كے اثرات ان كو براهِ راست نظر آئيں، میں نے تو کتنی مرتبہ عتاب هى نهيں بلكه الزام كے طور پر بھى يه سوال اٹھايا كه اهل حيثيت حضرات اپنے پيسے كم خرچ والى رهائش گاهيں تعمير كرانے ميں كيوں نهيں صرف كرتے تاكه نوجوانوں كو نفسياتى استحكام حاصل هو اور وه ايك چھوٹے خاندان كى بنياد ڈال سكيں، شادى كے اُن اخراجات اور بے معنى پيچيد گيوں كے مسئلے ميں معاشرے كى ثقافت كيوں نهيں بدلتى جو برداشت سے باهر هو چكے هيں، ان بری عادتوں کے بدلنے میں فقہاء، علماء، داعی حضرات، ميڈيا سے متعلق افراد دانشوروں اور فنکاروں کا کردار کہاں ہے، جن كو جڑ سے هى ختم كردينے كے لئے اسلام آیا تھا؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی کے اخراجات کو آسان نہیں بنایا، یہاں تک کہ مہر کو ایک مٹھی ستو، یا ایک لوہے کی انگوٹھی کے برابر کردیا، تو ايك مٹھى ستو اور لوهے كى انگوٹھى كا اُس ايك مٹھى سونے، اور هيرے كى انگوٹھى وغيره سے كيا تعلق هے جن پر آج
مالدار لوگ فخر کرتے ہیں، اور ان سے سیدھے اور غریب لوگوں کے جذبات مشتعل هوتے ہیں، بلکہ پورے معاشرے کے جذبات مشتعل هوتے  ہیں، اور بعض نوجوان منحرف ہوجاتے ہیں اور نفسانی اور اخلاقی بیماريوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 
اے نوجوانو! 
  میں جانتا ہوں کہ آپ دہشت گردی،  داعش اور اس جيسى ديگر تنظيموں کے بارے میں پوچھیں گے، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ اسطرح كي  مسلح تنظیموں سے غافل نہیں ہونگے، اور کن حالات میں یہ پیدا ہوئے، اور کیسے یہ دانتوں پنجوں اور ناخن کے ساتھ رونما هوئيں، اور كن اغراض ومقاصد كے لئے يه تيار كى گئيں ان سب سے آپ واقف هوں گے، اب کھیل سامنے آگیا ہے، جو کل پوشیدہ تھا، وه آج واضح هوچكا هے اور شاید آپ نے ملکوں کے سربراہان کو آپس میں ایک دوسرے پر يه الزام تراشی کرتے ہوئے سنا هوگا كه وه همارے عرب ملكوں ميں موجود دهشت گرد تنظيموں سے پٹرول خريد رهے هيں، اور شاید آپ میرے ساتھ یہ سوال کريں گے کہ ایک ڈکٹیٹر حکمران کو ختم کرنے کے لئے کیا یہ ضروری ہیکہ قوموں اور ملکوں کو تباہ کردیا جائے، اور ايك هى ملك اور ايك هى جنگ ميں ساڑھے سات لاكھ مرد، عورتیں اور بچے هلاك كردے جائيں،  میں جواب کو آپکی سمجھداری اور بیداری پر چھوڑ دیتا ہوں، شاید آپکی پيڑھى ان حالات اور اسکے بیک گراؤنڈ سے همارى اس پيڑھى سے زیادہ واقف ہوگی جو  اب ختم ہونے کو ہے۔
اے عزیز فرزندو! 
میں اپنی گفتگو کے اخیر میں آپ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہوں گا کہ ازهر كو اس بات سے انتهائى خوشى هوگى كه وه آپ كے ان فکری تعاون اور روشن تجاویز کیلئے اپنے دروازے كھولے جو قومی، علاقائى
اور بین الاقوامی سطح پر معاشرتى امن و سلامتی كى ثقافت عام كرنے،  عالمى رفاقت اور انسانی اخوت کو یقینی بنانے، اور نوخیز عقلوں میں دین اور شریعت کے صحیح مفاہیم کو راسخ كرنے كے سلسلے ميں ازهر كے پيغام كو مضبوط بنائيں تاكه ان نوخيزوں كو منحرف افکار، انتہا پسندی ،غلو اور قتل کے نعروں، اور امن پسندوں پر ہتھیار اٹھانے كى اپيليوں سے بچایا جا سکے۔
ميرى خواهش وتمنا هے کہ آپ ازھر کے علماء اور نوجوانوں کیساتھ ايسى بات چيت شروع كريں جن كے ذريعےہم آپ کى مشکلات کو جان سکیں اور  آپ ازهر کے نوجوانوں اور ان كى مشکلات سے واقف ہو سکیں۔ 
آپکي حسن سماعت کا بہت بہت شکریہ۔
والسلام عليكم 
احمد الطیب 
یہ تقرير 18 صفر 1437 ھجری
مطابق 1 ديسمبر 2015 کو كي گئی

سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024