شیخ الازہر چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز کی ممتاز عرب صحافیوں کے وفد سے ملاقات اور جدید چیلینجز سے نمٹنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے کردار پر گفتگو

شيخ الأزهر رئيس مجلس حكماء المسلمين يلتقي وفدًا من أبرز الإعلاميينة .jpg

شیخ الازہر کا عرب میڈیا کے وفد سے کہا کہ: "کلمہ امانت ہے اور آپ کا کردار امت کے شعور کو بیدار کرنے میں نہایت اہم ہے، بالخصوص فلسطینی مسئلہ کے حوالے سے۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے عرب دنیا کے نمایاں صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک کھلی نشست کا اہتمام کیا۔ یہ نشست دبئی میں عرب میڈیا سمٹ کے موقع پر منعقد کی گئی، جس میں امام اکبر نے شرکت کی۔ یہ سمٹ 25 سے 27 مئی کے دوران منعقد ہوئی۔
ملاقات کے آغاز میں شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ ذرائع ابلاغ کا کردار موجودہ چیلنجز کو اجاگر کرنے، عوامی رائے کو امت کے مسائل کی جانب متوجہ کرنے، وطن سے وابستگی کو فروغ دینے، اخلاقی و اقداری نظام کی حفاظت اور نوجوان نسل میں اپنی دینی و ثقافتی جڑوں پر فخر پیدا کرنے میں انتہائی اہم ہے— بالخصوص موجودہ دور میں جب نفرت، تعصب اور اسلاموفوبیا کے رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عرب میڈیا کے لیے ایک اجتماعی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جو امت کے مسائل کا دفاع کرے، اور نوجوانوں کو ایسی گمراہ کن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے محفوظ رکھے جو انہیں اپنی امت اور اپنے معاشروں کی حقیقت سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شیخ الازہر نے بتایا کہ جامعہ ازہر امن کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے، اور یہ تعلیمات ازہر کے نصاب میں ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی سطح تک شامل ہیں۔ انہوں نے کہا: کہ "تمام آسمانی مذاہب انسان کی خوشحالی، خونریزی سے اجتناب، اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے آئے ہیں، نہ کہ جنگ و جدل کے لیے۔" انہوں نے "بیت العائلہ المصریہ" (مصری فیملی ہاؤس) جیسی بین المذاہب ہم آہنگی کی مثالیں بھی پیش کیں، جسے الازہر اور مصر کی گرجاگاہوں کے درمیان تعاون سے قائم کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا: "جب عوام نے دیکھا کہ قس اور شیخ ساتھ کھڑے ہیں، تو بہت سے فتنوں اور فرقہ وارانہ مسائل کا خاتمہ ہوا۔"
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ الازہر نے اس امر کی ضرورت کو محسوس کیا کہ ایک حقیقی اسلامی تقارب اور باہمی فہم و ادراک حاصل کیا جائے، اور اس کے لیے ایک اسلامی-اسلامی مکالمے کے انعقاد کی ضرورت ہے جو صاف گوئی، مکالمے اور ماضی کے اختلافات کو دفن کر کے، ان مشترکہ اقدار کی بنیاد پر قائم ہو جو امت کی فکری مکاتب کو آپس میں جوڑتی ہیں؛ تاکہ ان بنیادوں سے امت کے اتحاد اور ترقی کے لیے کام کیا جا سکے۔ اسی مقصد کے تحت، الازہر اور مجلس حکماء المسلمین نے مملکتِ بحرین میں "اسلامی مکالمہ" کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس کے نتیجے میں "نداء اہل القبلہ" -اہلِ قبلہ کی پکار-  کے عنوان سے ایک مشترکہ دستاویز پر دستخط کیے گئے، جو ایک جامع اصولی دستاویز ہے۔ اس کا مقصد مختلف اسلامی مکاتب فکر اور مذاہب کے مابین مکالمہ اور باہمی فہم کو فروغ دینا ہے۔
شیخ الازہر نے عالمی امن کے فروغ کے لیے الازہر اور مجلس حکماء المسلمین کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: "ہم نے ویٹیکن کے ساتھ تعاون کے افق کھولے، اور میں نے اپنے مرحوم دوست پوپ فرانسس کے ساتھ مل کر 'انسانی اخوت کی دستاویز' پر دستخط کیے۔ اسی طرح ہم نے مختلف کلیساؤں، بشمول مشرقی کلیسا، عالمی کلیسائی کونسل، اور برطانیہ میں کینٹربری چرچ کے ساتھ رابطے کے دروازے کھولے۔
اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں، شیخ الازہر نے کہا کہ: "الازہر 'اقلیتوں' کی اصطلاح کے استعمال کو مسترد کرتا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں حقوق ضائع ہوتے ہیں، اور شہریوں کو اعلیٰ اور ادنیٰ درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ‘مکمل شہریت’ کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کے نتیجے میں سب شہریوں کو برابر حقوق و واجبات حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے کئی کانفرنسیں منعقد کیں اور دستاویزات جاری کیں، اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ان اقدار کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کو بغیر کسی امتیاز یا درجہ بندی کے مکمل شہریت اور تمام شہریوں کے لیے برابر حقوق کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔
جب مذاہب کو موجودہ جنگوں اور تنازعات کا سبب قرار دینے سے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا: "ہمیں ان مذاہب کی تعلیمات جو امن وئشتی کی طرف بلاتی ہیں اور اُن کی غلط تشریحات میں فرق کرنا چاہیے، جو کچھ لوگ قتل و فساد کے لیے دین کے نام پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ دین ان سب سے بری ہے۔ تمام انبیاء آپس میں بھائی ہیں، اور دینِ الٰہی ایک ہی ہے، جو حضرت آدم سے لے کر حضرت محمدﷺ تک چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "کسی بھی صورت میں دین کے نام پر تشدد کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت کچھ افراد نے دین کو سیاست میں استعمال کرنے کی کوشش کی، اور یہ قابلِ قبول نہیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صہیونی ریاست کی جانب سے ’صہیونیت‘جو سراسر شر ہے  کو 'یہودیت' ایک آسمانی دین  سے گڈمڈ کرنے کی کوشش اب بالکل واضح ہو چکی ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔
اور بعض معاشروں میں "ہم جنس پرستی" اور دیگر معاشرتی بیماریوں کو قبول کرنے کی دعوتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، آپ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "یہ دعوتیں اس تہذیب کے جنون اور اس کے اضطراب کا ثبوت ہیں، جو اخلاقی حدود اور دینی تعلیمات کو مکمل طور پر پامال کر چکی ہے، اور مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ دین کو زندگی سے خارج کر دے اور اس کے کردار کو محدود کر دے، بلکہ انسانی آزادی کو معبود بنا دیا گیا ہے، اور مادی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے لگام کوششیں کی جا رہی ہیں۔" انہوں نے واضح کیا کہ: "اس معاملے میں مرجع ادیان کی تعلیمات کو  ہونا چاہیے، نہ کہ انسانی عقل کو جو متغیر اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ دین ہی اخلاق کو ثابت رکھتا ہے، اور اخلاقی معیار کو صرف عقل پر چھوڑ دینا درست نہیں۔
"اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا: "میں عرب اور مسلمان نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ علم اور شعور سے مسلح ہوں۔ پہلے پڑھو، پھر بات کرو، خاص طور پر جب بات اسلام، عربیت، اور مشرقی تہذیب کی ہو۔"

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025