شیخ الازہر نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے طلبہ کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: اخلاقی دائرے کے بغیر علم انسانیت کے لیے خطرہ ہے … اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے عالمی خاموشی کو بے نقاب کر دیا ہے.

شيخ الأزهر لوفد طلابي من جامعتي جورج واشنطن والجامعة الأمريكيَّة بالقاهرة.jpeg

دین کو زندگی سے الگ کرنے کی کوششیں انسان کی بدبختی کا سبب ہیں، چاہے سائنسی ترقی کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
دین کو چند انتہا پسندوں کے اعمال کی بنیاد پر مت پرکھیں۔ جو اس کی تعلیم اور ہدایت سے منحرف ہو گئے ہیں۔
مغربی تہذیب مکمل طور پر خیر نہیں، اس کے کچھ پہلو انسانیت کے لیے تباہ کن ہیں۔

وفد طلبہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی:شیخ الازہر سے ملاقات باعثِ خوشی ہے، آپ ایک باوقار شخصیت اور بصیرت افروز رہنما ہیں۔
عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے مشیخۃ الازہر میں امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے مشرقِ وسطیٰ اسٹڈیز کے طلبہ پر مشتمل وفد سے ملاقات کی۔ اس وفد کے ساتھ پروفیسر نیتھن براؤن پروفیسر علوم سیاسیات جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور پروفیسر نادین مراد سیِکا  پروفیسر علوم سیاسیات  امریکن یونیورسٹی قاہرہ بھی موجود تھے۔


دوران ملاقات، امامِ اکبر نے اس بات پر زور دیا کہ علم حاصل کرنے کا دور انسان کی زندگی کا سب سے روشن دور ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ دور شعور عطا کرتا ہے، عقل اور متوازن شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو حق و باطل، خیر و شر اور حسن و قبح میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ علم کو امن و سلامتی کے فروغ اور معاشروں میں سکون و اطمینان قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہےز


اور امام  اکبر نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ "آج کی دنیا نے اپنا عقل کھو دیا ہے"۔ انہوں نے اس بات پر دلیل دی جو فلسطینیوں کو غیر انسانی مصائب کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا: "ہم آج ایسے المناک حالات دیکھ رہے ہیں جہاں فلسطینی ایک گھونٹ پانی تک حاصل نہیں کر پاتے، اور دن دہاڑے قتل و غارت اور قتلِ عام کے جرائم ہوتے ہیں، جن پر نہ کوئی بین الاقوامی ادارہ حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی ظالم حملہ آوروں کا کوئی محاسبہ کیا جاتا ہے؛ اور یہ دراصل انسانی ضمیر کے شدید بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
اور شیخ الازہر نے اس پر زور دیا کہ معاصر انسان کا دین کے ساتھ سطحی طور پر برتاؤ کرنا نہایت خطرناک ہے  انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ "انسان کی زندگی سے دین کو دور کرنے کی کوششیں ہی حقیقی خوشی کے کھو جانے کی ایک بڑی وجہ ہیں، باوجود اس عظیم سائنسی ترقی کے جس کے ہم گواہ ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا: "اکیسویں صدی کا انسان ٹیکنالوجی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے، لیکن وہ بدبختی کی انتہا میں زندگی گزار رہا ہے؛ کیونکہ اس نے دین کو کنارے لگانے کی کوشش کی اور اس کی جگہ مادیت اور محض علم کو بٹھا دیا"۔ آپ  نے اس بات پر زور دیا کہ "علم تنہا امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتا؛ کیونکہ یہ دو دھاری تلوار ہے، اور اس کے لیے اخلاقی محافظ ناگزیر ہے، اور یہ حفاظت صرف دین ہی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ تکنیکی ترقی نے خاندانی نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جبکہ مادہ پرستی اور مشین کی زندگی پر غلبے نے اقدار کے نظام کو کمزور کردیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا مادی طرزِ زندگی مسلط کر دیا ہے جو انسانی فطرت کے لیے خطرہ ہے۔

امامِ اکبر نے مغربی تہذیب کی بعض خصوصیات کے منفی اثرات پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ: مغربی تہذیب مکمل طور پر خیر پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس میں ایسی برائیاں ہیں جو انسانیت کو تباہ کرتی ہیں۔ "اصل انسانیت اس وقت ممکن نہیں جب اس کی قیادت اسلحہ کی تجارت اور تباہی کی معیشت کریں، کیونکہ اس کے نتائج پوری دنیا کو لپیٹ میں لیتے ہیں۔"

مزید برآں، گفتگو میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور اسلام میں عورت کے حقوق پر بھی بات ہوئی۔ شیخ الازہر نے واضح کیا کہ اسلام نے عورت کو بلند مقام اور واضح حقوق دیے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دین کو چند انتہا پسندوں کے اعمال سے نہیں پرکھنا چاہیے، ورنہ کوئی بھی دین اس معیار پر پورا نہیں اتر سکے گا۔  آپ نے کہا کہ : اگر ہم لوگوں کی زندگی میں صحیح دین کو مضبوط کریں تو یہ انہیں آخرت سے پہلے دنیا ہی میں جنت کی طرف لے جائے گا۔






آخر میں وفد نے شیخ الازہر سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ان کی امن، بقائے باہمی اور اخوتِ انسانی کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خصوصاً "دستاویزِ اخوتِ انسانی" کا ذکر کیا جو شیخ الازہر اور پوپ فرانسس کے درمیان دستخط ہوئی تھی، اور اسے آج کے دور میں ایک اہم اخلاقی و انسانی مرجع قرار دیا۔

وفد نے امام اکبر  کی عالمی سطح پر  سبقت لے جانے  اور انسانیت نواز مواقف کی تعریف کی، جن میں سرفہرست تاریخی "دستاویزِ اخوّتِ انسانی" ہے جس پر اُنہوں نے کیتھولک چرچ کے سابقہ سربراہ، قدیس پاپا فرانسس کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ وفد نے اس بات پر زور دیا کہ یہ دستاویز اس دور میں ایک اہم اخلاقی اور انسانی رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025