شیخ الازہر: احکام شریعت کے اندر فلسفہ امر و نہی ميں لوگوں کے لیے وسطیت دین اس ميں آسانی اور انسانوں كے ليے رحمت ہے
شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب نے کہا: احکام شریعت کے اندر فلسفہ امر و نہی، وسطیت دین اور لوگوں کے لیے آسانی اور رحمت کی وضاحت کرتا ہے، اس چیز کی وضاحت کی کہ احکام تکلیفی جو امر اور طلبی احکام کے گرد گھومتے ہیں ان کے اندر امر اور نہی کے صیغے قرآن پاک اور احادیث قطعیہ میں ایک درجے کے نہیں ہیں، بلکہ الزام فعل یا اس کو ترک کرنے یا دونوں میں ایک الزامی صیغہ ہونے کہ باوجود دونوں افعال کو چھوڑنے کے حوالے سے دونوں حالتوں میں امع اور نہی کے درجے بدلتے رہتے ہیں۔ امام الاکبر نے اپنے رمضان کے پروگرام "امام الطیب" جو کہ پانچویں سال نشر کیا جا رہا ہے اس کی چودھویں قسط کے دوران وضاحت کی: حکم تکلیفی کو چار درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا: کہ جس میں امر الزامی اور حتمی طور پر دیا جاتا ہے، جس کو واجب کہتے ہیں جیسے نماز پڑھنے کا حکم، دوسرا: وہ کہ جس میں امر الزامی طور پر نہیں بلکہ مستحب کے درجے پر ہو، جیسے قرض دیتے وقت اس کا لکھ لینا، تیسرا: جس میں نہی بطور جزم آئے کہ مکمل ممانعت ہو اس کو حرام یا محظور کہتے ہیں، کہ جس میں فعل کا کرنا شرع میں گناہ کا سبب بنے، جیسے شراب پینا، اور چھوتھا: مکروہ ہے کہ جس کا چھوڑنا کرنے سے افضل ہے، کہ جس کے چھوڑنے پر ثواب ہے، اور کرنے پر عقاب نہیں۔ امام الاکبر نے کہا کہ قرآن و سنت میں امر یا نہی صرف واجب یا حرام کے لیے نہیں آئے کہ جیسے آج کل کے فتوی جات میں اس کی بھر مار ہے کہ جہاں مستحب کو واجب اور مکروہ کو حرام کے ساتھ ملایا جا رہا ہے، اور مستحب کی دلیل کو واجب کے لیے اور مکروہ کی دلیل کو حرام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو کہ اسلام شریعت کے خلاف بہتان ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے میں غلطی ہماری معاشرتی زندگی خصوصاً عائلی زندگی میں اس ٹیڑھی فقہ کی دخل اندازی ہے، جس کے نتیجے میں نکاح اور طلاق کے معاملات میں خرابیوں کا طوفان آگیا، اور اس قول کو فروغ دینا: کہ نکاح میں اصول تعدد نکاح ہے، اور اس کی خلاف ورزی سنت کی خلاف ورزی ہے۔امام صاحب سے سوال کیا گیا: کیا قرآن و سنت میں موجود امر کے حکم کو ماننا ہر ہر مسلمان پر فرض ہے؟ جس کے جواب میں آپ نے کہا: علماء نے اس جواب میں نفی کی ہے اور وضاحت کی کہ امر کبھی تو وجوب کے معنی میں آتا ہو اور کبھی نہ وجوب اور نہ ہی مستحب کے معنی میں آتا ہے بلکہ فعل کو کرنے یا ترک کرنے پر صرف اباحت کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور امام صاحب نے اس بات کا اضافہ کیا کہ علماء اصول نے امر کے وجوبیت کے علاوہ پندرہ معنوں کا ذکر کیا ہے، امام الاکبر نے اس بات پر زور دیا کہ امر کے فلسفے کو "وجوبیت" کے تصور میں اس کے صیغے اور اس کی دلالت کو قید کرکے بیان کرنا ایک مسلمان کی عملی اور معاشرتی زندگی میں "فرائض" کے دائرے کو کافی حد تک تنگ کرتا ہے، اور اس کے لیےانعامات اور اجازت ناموں کے لامتناہی دائرے میں تحریک آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نظریہ قرآن اور کائنات کے درمیان باطنی "ہم آہنگی" کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ کہ وہ ایک ہی سچائی کے دو رخ ہیں، اور یہ کہ قرآن ایک قابل سماعت کائنات کی طرح ہے، اور کائنات ایک نظر آنے والے قرآن کی طرح ہے، اور یہ کہ فرائض اور سنتوں کی کثرت اور تقسیم کا رجحان ذہنی غور و فکر کی اس خوبی کو کمزور کر دیتا ہے جس پر قرآن حقائق کی دریافت کا انحصار کرتا ہے، اور علم موجودات کا جیسا کہ وہ ہیں، یہ وہ علم ہے جسے "حکمت الٰہی" کہا جاتا ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور اس کی اور اس کے ساتھیوں کی تعریف کی ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے: "وہ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں"۔ قابل ذکر ہے کہ "الامام الطیب" پروگرام پانچویں سال مصری اور عرب چینلز پر نشر کیا جا رہا ہے، یہ پروگرام رمضان المبارک سن 2016 میں شروع کیا گیا تھا، جو کہ مذہب اسلام کی خصوصیات، اس کے اعتدال، مظاہر، قانونی تفویض کے قواعد، شریعت کی آسانی، قانون سازی کے ذرائع، اور سنت کے بارے میں شکوک و شبہات کا جواب دینے سے متعلق ورثہ ہے۔