"امام طیب" پروگرام کی بیسویں قسط کے دوران، شیخ الازہر نے 25 جدید عصری مسائل میں اجتماعی اجتھاد کے لیے جید مسلم علماء کو دعوت دی۔
عزت مآب شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب نے جون 2011 سے جنوری 2012 تک الازہر الشریف کی جانب سے جاری کردہ کچھ دستاویزات میں سے کچھ کو چانچنے کے بارے میں پروگرام "امام طیب" کی بیسویں قسط میں اپنی تقریر آج بھی جاری رکھی جس میں کچھ ناپسندیدگی کا اظہار کرکے سوال پوچھا: کیا یہ دستاویزات الازہر الشریف کی طرف سے جاری کی گئی ہیں اور جن میں علمی، فکری اور اعلامی شخصیات نے اس سیاہ دور میں حصہ لیا کہ جس میں ہر چیز پریشان کن تھی: کیا یہ تجدید کے باب میں سے ہے یا یہ تعصب، تقلید اور جمود ہے؟ امام الاکبر نے زور دے کر کہا کہ ان دستاویزات کے اجراء کے بعد کے تین سال ایسے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جن سے بیشتر علمى اور تعلیمی ادارے اسی طرح کے شدید فالج اور اپنی سرگرمیوں کے تمام پہلوؤں میں اچانک رکاوٹ کا شکار ہو گئے ہیں، الازہر ان اداروں میں شامل تھا جنہوں نے علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو روک دیا، حالانکہ اس کی سرگرمی قومی سماجی دائرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ لہٰذا جیسے ہی سال 2015 قریب آیا، "تجدید" کا موضوع الازہر کی سرگرمیوں میں ترجیحات کی میز پر خود کو ظاہر کرنے لگا، اور یہاں تک کہ تجدید کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا سوچ ابھرنے لگی۔ مصری اور عرب سیٹلائٹ چینلز پر پانچویں سال نشر ہونے والے اپنے پروگرام "امام طیب" میں انہوں نے مزید کہا: جلد بازی میں انفرادی فیصلے کرنے کی غلطی سے بچنے کے لئے - ہم نے 22 اپریل 2015 کو کانفرنس کے لئے ایک ابتدائی سیمینار منعقد کیا جس میں ہم نے مطلوبہ "تجدید" پر تبادلہ خیال کیا؛ اور ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تجدید کی بنیاد سہولت کاری اور شریعت کے مقاصد کے حصول اور عمومی اصولی قواعد کے امتزاج پر ہونی چاہیے، اس کے باوجود چیزیں جوں کی توں رہیں؛ کیونکہ سمینار حقیقت پر نہیں اترا، اور اس نے پہلے ان مسائل کی نشاندہی نہیں کی جاسکی جن سے لوگ دوچار تھے، کہ جن میں انہیں "تجدید" کی ضرورت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ زیادہ تر "تجدید" کانفرنسوں کی ناکامی کی یہی وجہ ہے، جن میں ان مسائل کی وضاحت نہیں کی گئی جن کی تجدید کی جائے اور نہ ہی ان کو حل کرنے کی کیا ضرورت ہے، اور یہ ایک ایسے وقت میں ہے جب زیادہ تر، اگرچہ سب شامل نہیں، کے لیے تجدید کی ضرورت اور اس کے معیار، اور اس کے اطلاق کے لیے شریعت کی وسعت، اور تجدید کی شرائط کے بارے میں بات کرنے سے اکثر تحقیق اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو مکرر اور معروف ہے... تاكہ ان کانفرنسوں کے بارے میں آخری معلوم چیز تک پہنچا جا سکے۔ عزت مآب کا مزید کہنا تھا کہ "ایک طویل سوچ کے بعد ہمیں اس سلسلے میں ایک عملی خیال پیش کیا گیا، جس کی بنیاد پر متعلقہ وزارتوں اور اداروں کی رائے کا جائزہ لیا گیا تاکہ ان مسائل کی نشاندہی کی جا سکے جن کے بارے میں ان کے خیال میں تبدیلی یا ترمیم کے ساتھ اس کے اسباب جاننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہت سے جوابات موصول ہوئے، اور میں نے انہیں عنوانات کی فہرست میں شامل کر لیا جو میں نے اپنے لیے رکھا تھا.. پھر یہ سب کچھ سینئر سکالرز کی کونسل میں ریسرچ ٹیبل پر پیش کیا گیا، اور اس کا مطالعہ کرنے میں کافی وقت لگا، مجھے یاد ہے کہ اس مطالعے کے دوران اور 14 نومبر 2015ء کو سپریم کونسل آف اسلامک افیئرز نی کانفرنس کی جس کی سربراہی معزز دوست وزیر اوقاف مصر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار جمعہ نےکی اور اقصر شہر کے بین الاقوامی کانفرنس سینٹر میں اس کانفرنس کو عنوان دیا: "انتہا پسندانہ فکر کو ختم کرنے کے لیے مذہبی گفتگو اور طریقہ کار کی تجدید کے لیے آئمہ اور مبلغین کی سوچ" اور میں نے بھی اس میں حصہ لیا جس میں تجدید کے مسئلے پر تحقیق کی گئی۔ عزت مآب امام الاکبر نے اپنے کہے ہوئے چند کلمات کو کہا جو کہے تھے، جیسا کہ اس کانفرنس کے ریکارڈ میں کہا گیا ہے: "حضرات علمائے کرام!...ہماری یہ کانفرنس، اور بہت سی دوسری کانفرنسیں، الازہر، وزارت اوقاف اور مصری دارالافتاء میں منعقد ہوئیں، تاکہ تجدید کی دعوت دی جائے اور فتووں میں سہولت فراہم کی جائے، میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی کانفرنسوں کو کسی اور عملی سمت کی طرف موڑ دیں، جس میں ہم تنازعات یا اختلافی مسائل یا جس مسائل پر خاموشی ہے یا ان کے قریب آنے سے خوف کھایا جاتا ہے کہ جو ہمارے فقہاء کے سخت گیر ردعمل کے سبب ہوا اس سے نمٹیں، کہ وہ لوگ جو ہر تجدیدی شے کو شریعت کی خلاف ورزی، دین سے غفلت اور پھیلتی ہوئی مادی تہذیب کو کچلنے اور پگھلنے کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ اس معاملے کا حساب ہمارے بہت سے علما نے لیا ہے جو محنت کے اہل ہیں اور جو مسلمانوں کی زندگی کے انتہائی حساس معاملات پر فتوے کی تجدید کے لئے تیار ہیں۔ ان سب کے لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ ہم ایک "اجتماعی اجتہاد" کا سہارا لیں جس میں سینئر مسلم علماء کو مدعو کریں، جو قوم کے خدشات اور مسائل کو سمجھتے ہوں، اور دنیا کی چمک دمک اور سیاست کے عزائم کے دھوکے میں نہ آئیں، وقار اور پیسہ؛ دہشت گردی، کفر اور ہجرت سے متعلق مسائل پر غور کریں، اسلام کے مسکن کے تصور کی وضاحت، مسلح تشدد کے گروہوں میں شامل ہونے، معاشرے اور اس سے نفرت کو توڑنے، اسے جذباتی طور پر الگ کرنا، اور قتل یا بمباری کے ذریعے شہریوں کا خون بہانے جیسے مسائل کو جانتے ہوں۔ اور انہوں نے بات جاری رکھی.. پھر میں نے اس کے بعد کہا: "علماء کو چاہیے کہ وہ بھرپور کوشش کریں اور سیاسی معاملات جیسے جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اور اس کی حدود، آئینی اور قانونی مساوات اور آئین کی قانونی حیثیت کے حوالے سے جو پارلیمنٹ یا سماجی معاملات سے متعلق ہو اس بارے اپنی سوچ کی تجدید کریں۔ جس مین پہلا بنکوں کا لین دین اور عورتوں کے مسائل ہیں: اس کا جج بننا، عمومی حاکم بننا، اس کا لباس و نقاب، اور اس کا ان رسوم و رواج کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جو اس پر حکومت کرتی ہیں، اور اسے اس کے قانونی حقوق سے محروم کرنا، جیسے وراثت کا حق، شوہر کا انتخاب کرنا، اسے اس کے سرپرست کے جبر سے بچانا، اور بغیر کسی معقول شرعی یا معاشرتی جواز کے جس سے وہ چاہے شادی کرنے سے محروم کر دے، اور عورت کو اپنے گھر واپس آنے کا مطالبہ، پھر اعضاء کی منتقلی کا مسئلہ، اور غیر مسلموں کو ان کی تعطیلات پر مبارکباد دینا، اور فلکیاتی حساب سے عربی مہینوں کے آغاز کا تعین کرنا، حج کے مسائل بالخصوص: ہوائی یا سمندری راستے سے آنے والوں کا جدہ سے احرام باندھنا اور جمرات کو ہر وقت سنگسار کرنا۔ اس سے قوم کو ایسے فتوے جاری کرنے کا بھی بیدار ہوتا ہے جن کے لیے عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور بے عملی، سستی اور دیگر مسائل جن کا ان نازک معاملات میں ذکر نہیں کیا جاتا، بشرطیکہ ان نازک مسائل پر عام فتاویٰ اور عام نصوص کے ساتھ کوئی فتویٰ جاری نہ کیا جائے جو زمین پر نہ اترے، مسئلہ حل نہ ہو اور حقیقت نہ بدلے، امام الاکبر نے متنبہ کیا کہ یہ تجویز اسلامی دنیا میں پھیلی ہوئی فقہی اکیڈمیوں کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی فتووں یا ان کی کونسلوں کے کردار کا، بلکہ یہ ایک کام ہے - اگر خدا نے اس کی تکمیل کا فیصلہ کیا ہے - جو ان اداروں کے کام کی تکمیل کرتا ہے جن کا اسلامی شریعت کو برقرار رکھنے اور وقت کی ترقی اور جگہ کی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ رہنے میں موثر کردار پوشیدہ نہیں ہے۔