یہ دعوی خود انسان کے پاس سے سب سے قیمتی چیز کو ضبط کرنے کے لئے ہو رہا ہے اور وہ عقیدہ کی آزادی۔۔۔ابراہیمیت بالکل عولمہ یعنی گلوبلائزیشن کی طرح ہے جس کے ظاہر سے انسانی اجتماعیت کاظہور ہوتا ہے لیکن اس کے باطن سے عقیدہ کی آزادی کو سلب کرنا نظر آتا ہے۔

الدعوة إلى ما يسمى الدين الإبراهيمي مصادرة لحرية الاعتقاد.jpeg

شیخ ازہر، امام اکبر  پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب نے مصری فیملی ہاؤس کے قیام کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا  ہےکہ گفتگو کی دیانت داری  قطعی طور پر ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا ہے جسے بعض لوگ  ہوا دے رہے ہیں تاکہ  اس ہاؤس سے توجہ ہٹ جائے  اور اسے مرنے کے لئے  چھوڑ دیا جائے یا موت وحیات کے درمیان غیر متحرک جسم کی طرح باقی رہے اور شیخ ازہر نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ  یہ معاملہ  سلامتی، امن اور استحکام کے ساتھ رہنے کے سلسلہ میں ایک  مصری شہری کا جو جو  حق  ہے اس کے دفاع میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان بھائی چارے کو خلط ملط کرنے کی کوشش ہے  اور یہ ان دونوں مذاہب اور اس بھائی چارے کے درمیان خلط ملط ہےاور ہر ایک کے پاس جو فرق اور تقسیم ہے اس کو ختم کرنا ہے اور خاص طور پر ان افکار اور نظریات کے سایہ میں  جن کے ذریعہ  "ابراہیمیت" یا دین ابراہیمی کے نام سے ایک نئے دین کو فروغ دئے جانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی جارہی ہے جن کا مقام ومرتبہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے نزدیک مقبول ہے اور اس نظریہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ - ایسا لگتا ہے - یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ایک ایسے پیغام یا ایک ایسے دین میں ضم کرنا ہے جس پر تمام لوگ متفق ہو سکیں اور وہ ان مصیبتوں اور تنازعات سے بچالئے جائیں جن کی وجہ سے جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور خون بہائے جارہے ہیں اور لوگوں کے درمیان  بلکہ ایک عقیدے کے ماننے والوں کے درمیان خونریزی اور مسلح جنگوں کا بازار گرم ہے۔ 

شیخ ازہر نے مصری فیملی ہاؤس کے قیام کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران مزید کہا کہ  یہ دعوی، عولمہ، تاریخ کا خاتمہ، عالمگیر اخلاقیات جیسے دعووں کی طرح ہے اگرچہ ظاہرا یہ لگ رہا ہے کہ یہ انسانی اجتماع، اس کے اتحاد اور تنازعات اور کشمکشوں کے اسباب کے خاتمے کے لئے  ہو رہا ہے  لیکن یہ دعوی خود انسان کے پاس سے سب سے قیمتی چیز کو ضبط کرنے کے لئے ہو رہا ہے اور وہ عقیدہ کی آزادی، ایمان کی آزادی، اختیار کی آزادی ہے اور یہ وہ حقوق ہیں جن کی ضمانت تمام مذاہب نے دی ہے اور اس کی تاکید واضح  صریح نصوص میں کی گئی ہے اور پھر یہ ایک ایسی بلا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے ایسے خواب دکھائے گئے ہیں جن میں چیزوں کی حقیقتوں اور نوعیتوں کا صحیح ادراک تک نہیں ہے۔۔
شیخ ازہر نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم آسمانی پیغامات پر اپنے ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مذہب یا ایک الہی پیغام پر تمام مخلوق کو متحد کرنا اس نظام الہی میں ناممکن ہے جس کے ساتھ اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؛ کیونکہ لوگ اپنے عقائد، اپنے عقل وفکر اور اپنی زبان میں مختلف ہیں بلکہ ان کی انگلیوں کے نشان اور آنکھوں کے ریٹینا  بھی مختلف ہیں اور یہ سب تاریخی اور سائنسی حقیقت سے ثابت ہو چکے ہیں اور اس سے پہلے یہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ خدا نے لوگوں کو مختلف ہونے کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور اگر وہ ان کو ایک مذہب، ایک رنگ، ایک زبان یا ایک سمجھ کے ساتھ پیدا کرنا چاہتا تو وہ ایسا کر لیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا  بلکہ اس نے یہ چاہا کہ لوگ مختلف زبان، مختلف رنگ اور مختلف اشکال کے ساتھ پیدا ہوں  پھر یہ بھی فرمایا کہ یہ اختلاف قیامت کے دن تک باقی رہے گا ؛ کیونکہ ارشاد باری ہے: (ترجمہ: اگر آپ كا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں كو أيك ہى راه پر أيك گروه كر ديتا- وه تو برابر اختلاف كرنے والے ہى رہيں گے) اسی طرح اللہ رب العزت نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں سے مؤمنین کو پیدا فرمایا ہے اور ان میں کافرین کو بھی پیدا فرمایا ہے،   اللہ رب العزت سورۃ التغابن کے شروع میں فرماتا ہے: (ترجمہ: اسى نے تمہيں پيدا كيا ہے سو تم ميں سے بعضے تو كافر ہيں اور بعض ايمان والے ہيں، اور جو كچھ تم كر رہے ہو الله تعالى خوب ديكھ رہا ہے-)[ 2]
شیخ ازہر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ازہر اور اس کے علماء کی طرف سے  کلیسیاؤں،  وہاں کے مرد حضرات  اور  رہنمائوں کے لئے انفتاحیت، جن میں سب سے آگے آرتھوڈوکس کلیسا ہے اور اسی طرح مصری کلیسیاؤں کی طرف سے ازہر کے لئے کھلے پن ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ عقائد، فرقوں اور مذاہب کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہےاور یہ بھی واضح ہے کہ عقیدے کا احترام کرنے اور اس پر یقین کرنے کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا؛ کیونکہ  دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنا ایک بات ہے  اور اسے تسلیم کرنا بالکل الگ بات ہے۔۔  اس تناظر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (دین میں کوئی زبردستى نہیں ہے) [البقرہ: 256] اور اسی طرح ایک دوسرے فرمان: (تم میں سے ہر ایک کے لئے  ایک دستور اور  راه مقرر كردى)۔[المائدہ: 48] اور قرآن مجید کی دیگر  آیات کو سمجھنا صحیح ہو جائے گا اور انہوں نے مزید کہا کہ مصر کے اندر اور باہر دینی اداروں کے لئے ازہر کی کشادگی، توحید پرست مذاہب کے درمیان انسانی مشترکات کو تلاش کرنے اور ان سے منسلک رہنے کے لیے ایک کشادگی ہے تاکہ انسانیت کو اس کے عصری بحران سے نکالا جا سکے اور اسے ظلم و ستم سے آزاد کیا جا سکے اور کمزوروں پر  طاقتوروں کے ظلم اور ظالموں کے تکبر کو روکا جا سکے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025