شیخ ازہر نے بین المذاہب ہم آہنگی اور گفت وشنید کے ناقدین کو ابراہیمیت نامی متحد مذہب کو فروغ دینے کا دعویٰ کے ذریعہ جواب دیا ہے۔
شیخ ازہر نے مصری فیملی ہاؤس کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر کی جانے والی اپنی تقریر میں ان شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہے جو سلامتی، امن اور استحکام کے ساتھ مصری شہری کے رہنے کے حق کے دفاع میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان بھائی چارے کے اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور یہ ان دونوں مذاہب اور اس بھائی چارے کے درمیان اختلاط ہے اور ہر ایک کے پاس جو فرق اور تقسیم ہے اس کا ختم ہونا ہے اور یہ بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور دعوے ہو رہے ہیں کہ "ابراہیمیت" یا دین ابراہیمی کے نام سے ایک نئے دین کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ - ایسا لگتا ہے - یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ایک ایسے پیغام یا ایک ایسے دین میں شامل کرنا ہے جس پر تمام لوگ متفق ہو سکیں اور وہ ان مصیبتوں اور تنازعات سے بچالئے جائیں جن کی وجہ سے جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور لوگوں بلکہ ایک عقیدے کے ماننے والوں کے درمیان خونریزی اور مسلح جنگوں کا بازار گرم ہے۔
شیخ ازہر نے کہا کہ یہ دعوی، عولمہ، تاریخ کا خاتمہ، عالمگیر اخلاقیات جیسے دعووں کی طرح ہے اگرچہ ظاہرا یہ لگ رہا ہے کہ یہ انسانی اجتماع، اس کے اتحاد اور تنازعات اور کشمکشوں کے اسباب کے خاتمے کے لئے ہو رہا ہے لیکن یہ دعوی خود انسان کے پاس سے سب سے قیمتی چیز کو ضبط کرنے کے لئے ہو رہا ہے اور وہ عقیدہ کی آزادی، ایمان کی آزادی، اختیار کی آزادی ہے اور یہ وہ سب حقوق ہیں جن کی ضمانت تمام مذاہب نے دی ہے اور اس کی تاکید واضح نصوص میں کی گئی ہے اور پھر یہ ایک ایسی بلا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے ایسے خواب دکھائے گئے ہیں جن میں چیزوں کی حقیقتوں اور نوعیتوں کا صحیح ادراک تک نہیں ہے اور امام اکبر نے مزید کہا کہ ہم اپنے آسمانی پیغامات پر اپنے عقیدے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مذہب یا ایک الہی پیغام پر تمام مخلوق کو متحد کرنا اس نظام الہی میں ناممکن ہے جس کے ساتھ اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؛ کیونکہ لوگ اپنے عقائد، اپنے عقل وفکر اور اپنی زبان میں مختلف ہیں بلکہ ان کی انگلیوں کے نشان اور آنکھوں کے ریٹینا مختلف ہیں اور یہ سب تاریخی اور سائنسی حقیقت سے ثابت ہو چکے ہیں اور اس سے پہلے یہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس کے بارے میں قرآن نے تصدیق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ خدا نے لوگوں کو مختلف ہونے کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور اگر وہ ان کو ایک مذہب، ایک رنگ، ایک زبان یا کسی عمل کی ایک سمجھ کے مطابق پیدا کرنا چاہتا تو وہ ایسا کر لیتا۔
شیخ ازہر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ازہر اور اس کے علماء کی طرف سے کلیسیاؤں، وہاں کے مرد حضرات اور رہنمائوں کے لئے انفتاحیت، جن میں سب سے آگے آرتھوڈوکس کلیسا ہے اور اسی طرح مصری کلیسیاؤں کی طرف سے ازہر کے لئے کھلے پن ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ عقائد، فرقوں اور مذاہب کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہےاور یہ بھی واضح ہے کہ عقیدے کا احترام کرنے اور اس پر یقین کرنے کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔۔۔ ۔۔ اس تناظر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں ہماری سمجھ: (دین میں کوئی زبردستى نہیں ہے) [البقرہ: 256] اور اسی طرح ایک دوسرے فرمان کے بارے میں ہماری سمجھ: (تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک دستور اور راه مقرر كردى ہے۔[المائدہ: 48] قرآن مجید کی دیگر آیات ہیں جن کا صحیح سمجھنا بہت ضروری ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ مصر کے اندر اور باہر دینی اداروں کے لئے ازہر کی کشادگی، توحید پرست مذاہب کے درمیان انسانی مشترکات کو تلاش کرنے اور ان سے منسلک رہنے کے لیے ایک کشادگی ہے تاکہ انسانیت کو اس کے عصری بحران سے نکالا جا سکے اور اسے ظلم و ستم سے آزاد کیا جا سکے اور کمزوروں پر طاقتوروں کے ظلم اور ظالموں کے تکبر کو روکا جا سکے۔