امام اکبر نے شہزادہ چارلس کے ساتھ بین المذاہب گفت وشنید کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ہے اورانہیں "انسانی بھائی چارہ دستاویز" کی ایک کاپی بھی ہدیہ میں پیش کی ہے۔
شیخ ازہر اور امام اعظم جناب پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب اور برطانوی ولی عہد، ویلز کے شہزادہ رائل ہائینس پرنس چارلس نے جمعرات کو مسجد ازہر میں ہونے والی آج کی ملاقات کے دوران بین المذاہب گفت وشنید کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ہے اور شیخ ازہر نے شہزادہ چارلس کو ابوظہبی 2019 میں پوپ فرانسس کے ساتھ دستخط کیے گئے "انسانی بھائی چارہ دستاویز" کی ایک کاپی بھی دی ہے اور امام اکبر نے یہ بھی کہا کہ ازہر نے ایک دوسرے کے لئے کھلے پن اور گفت وشنید کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اوراس بات کی بھی وضاحت کی کہ ازہر نے کینٹربری چرچ اور ویٹیکن اور دیگر بین الاقوامی گرجا گھروں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کئے ہیں اور ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کی کوششوں کے اہم نتائج سامنے آئے ہیں جن میں سب سے اہم "انسانی بھائی چارہ دستاویز" پر دستخط کرنا ہے جس پر سال 2019 میں ابوظہبی میں امام اکبر اور پوپ فرانسس کے درمیان شراکت داری میں دستخط کئے گئے تہیں اور امام اکبر نے مزید کہا کہ ازہر نے کینٹربری چرچ کے ساتھ سال 2018 میں اپنے اہم منصوبوں میں سے ایک "ینگ پیس میکرز" کا آغاز کیا تھا جو یورپ کے 25 نوجوانوں اور مشرق وسطیٰ کے 25 نوجوانوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں گفت وشنید اور رواداری کی مہارتیں فراہم کرنا اور مستقبل میں حقیقی عالمی امن کے قیام کے لئے مرکز اور سفیر بننا ہے۔ اسی سلسلہ میں شہزادہ چارلس نے گزشتہ برسوں میں بین المذاہب گفت وشنید کے سلسلہ میں امام اکبر کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا ہے اور خاص طور پر ازہر اور ویٹیکن کی طرف سے گفت وشنید کو فروغ دینے اور عالمی امن کو پھیلانے کے لئے کی جانے والی کوششیں سر فہرست ہیں اور اسی مناسبت سے اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ برطانیہ ازہر کے ساتھ سائنسی اور ثقافتی تعاون کو بڑھانے کا خواہش مند ہے اور شیخ ازہر اور شہزادہ چارلس نے ازہر کے ان متعدد محققین سے ملاقات کی ہے جنہوں نے برطانیہ سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کی ہے اور یہ دونوں حضرات ان سے مطالعہ کی نوعیت، سائنسی اور علمی مہارتوں اور ان گرانٹس سے مستفید ہونے کے لئے ان کے مستقبل کے منصوبوں سے قریب سے واقف ہوئے ہیں اور جو تجربات انھوں نے حاصل کئے ہیں وہ انھیں ازہر کے دوسرے طلبہ اور محققین تک پہنچائیں گے۔