امام اکبر روزمرہ کی گفتگو میں کہتے ہیں: بندوں کے مابین رحم دراصل اخوت اور بھائی چارے کا تقاضا ہے۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر نے کہا:  انسان میں رحم شفقت اور  قلبی مہربانی کا نام ہے جو اسے دوسروں کی مدد اور ان کی ضرورت پوری کرنے پر ابھارتی ہے،  انہوں نے واضح کیا ہے دوسروں کے ساتھ رحمت کا جذبہ تکلیف کو بھی ساتھ لے ہوتا ہے،  بایں طور  کہ جس شخص کو ضرورت ہوتی ہے  یا جو تکلیف میں ہوتا ہے، اس کی تکلیف سے رحم دل شخص متاثر ہوتا ہے،  رحم کا طالب شخص جس سے مدد مانگتا ہے اس کے دل میں رقت اور احساس تکلیف ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔
 امام اکبر نے اپنے رمضان پروگرام "امام طیب" کی پانچویں نشست میں واضح کیا ہے کہ: ان معنوں میں رحمت اللہ کی صفت نہیں ہے،  کیونکہ  نرم دلی ایک وقت میں پیدا ہوتی ہے، اس سے پہلے نہیں ہوتی اور ضرورت پوری ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہے،  اور اسی طرح وہ درد اور تاثر کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے،  جبکہ اللہ تعالی کی ذات مخلوقات، موجودات  اور  بندوں کی ایسی صفات سے منزہ ہے،  اگرچہ وہ ایک پہلو سے کامل  ہے مگر دوسری طرف سے وہ ناقص ہے اور اس صورت میں  اللہ کو ایسی صفت سے متصف کرنا محال ہے،  کیوں کہ اس کی صفات نقائص اور کمزوریوں سے منزہ ہیں،  اللہ اپنے بندوں پر انسان اور رحیم ہے، مگر  اس کی رحمت کو درد لاحق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ حاجت پوری ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ امام اکبر نے مزید کہا کہ: علماء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ  انسان دوسروں پر بلا وجہ رحم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا یہ رحم کرنا کسی مقصد سے خالی ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ کے نزدیک رحم ہوتا ہے،  جب انسان دوسروں کی تکلیف محسوس کرتا ہے  اور  ان پر رحم کرتے ہوئے ان کی مدد کرتا ہے تو اس کے ساتھ درد بھی محسوس کرتا ہے   چنانچہ درد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دوسروں پر رحم کرتا ہے، گویا وہ تبادلہ کر رہا ہوتا ہے،  ایک چیز کے بدلے میں دوسری چیز ادا کر رہا ہوتا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالی پر  یہ بات لاگو نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے  ایسی صفت سے   متصف  کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ  بغیر کسی مقابل اور بغیر کچھ ادا کیے رحم کرتا ہے۔
امام اکبر نے واضح کیا ہے رحمان نام بندوں پر لاگو نہیں ہو سکتا، مگر  وہ اس نام کا کچھ حصہ پا سکتا ہے کہ لوگوں پر  رحمدلی کو عام کرے،  اور اپنے اور ان کے درمیان اخوت اور  دائمی تعلق کو محسوس کرے،  اور یہ جذبہ صرف اہل ایمان تک محدود نہ ہو بلکہ تمام انسانیت کے لئے وہ رحیم اور شفیق  ہو،  انہوں نے اللہ تعالی کے قول کو دلیل بناتے ہوئے کہا:   اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا،  تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،  تو تعارف  منفعت اور تعلق کا تبادلہ ہے،  حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی اکرمﷺ ہر نماز کے بعد فرمایا کرتے تھے:  اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب! میں اس بات کا گواہ ہوں کہ تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں،  انہوں نے وضاحت کی کہ  لفظ بندہ  اہل ایمان،  کفار اور دشمن وغیرہ سب کو شامل ہے،  یہاں سے واضح ہوتا ہے  کہ اخوت کی منطق اور اس کا معنی تقاضا کرتا ہے کہ بندوں کے مابین رحمت ہو،  خاص طور پر غریبوں اور  بیماروں کے ساتھ رحم دلی کی جائے،  مثال کے طور پر مالدار اپنے مال کے ذریعے، صاحب منصب اپنے منصب کے ذریعے، اور اسی طرح عالم اور ڈاکٹر اپنے ‏ علم اور طب کے ذریعے دوسروں کے لئے رحمت اور تسلی کا  باعث بنے،  یعنی جس کسی کے پاس جو کچھ ہے اس  کے ذریعے دوسروں پر رحم کرے۔ امام اکبر نے وضاحت کی ہے کہ انسان کو نافر مانوں تک کے ساتھ  بھی رحم دل ہونا چاہیے،  اسے معلوم ہو کہ نافر مانی بیماری کی طرح ہے اور نافرمان لوگ بیمار ہیں اور ایک رحم دل انسان کا بیمار کے لیے جذبہ علاج اور رحم کا ہوتا ہے،  نہ کہ وہ بیمار پر لعن طعن اور ملامت  یا سختی کرتا ہے،  انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے  جیسا کہ بعض داعی حضرات نافر مانوں کی ملامت کرتے ہیں،  ان کا کہنا ہے کہ ایک داعی  کا  فرض ہے کہ وہ اس مرض معصیت سے بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کرے،  اور نافر مانوں  کا علاج کرنے کے لئے کرے،  گویا  نافرمانیاں ایسے امراض ہیں جن کی دوا کی جاتی ہے نہ کہ وہ غلطیاں ہیں جن پر سختی اور لعن طعن کی جاتی ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025