اپنے پروگرام " امام طیب" میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الازہر کہتے ہیں: گناہ گاروں اور خطا کاروں کی ایک بڑی جماعت کو کوئی نہیں دیکھتا، اللہ ان کا کسی عظیم حکمت کے تحت پردہ رکھتا ہے۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہرنے کہا: اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے اور علماء کا اس پر اجماع ہے، وہ نام " غفار" ہے، قرآن میں کئی طریقوں سے یہ نام وارد ہوا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ " وہى زبردست اور گناہوں كا بخشنے والا ہے۔"، اور اللہ کا ارشاد:نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ " ميرے بندوں كو خبر دے دو كہ ميں بہت ہى بخشنے والا اور بڑا ہى مہربان ہوں۔"، اللہ کا فرمان:
"وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ" " ہاں بيشك ميں انہيں بخش دينے والا ہوں جو توبہ كريں ايمان لائيں "
"، اور یہ بھی فرمایا:
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ۔ " گناه كا بخشنے والا اور توبہ كا قبول فرمانے والا "
امام اکبر نے حیات چینل پر نشر ہونے والے اپنے رمضان پروگرام " امام طیب کی گفتگو" کی پندرہویں نشست میں واضح کیا کہ: یہ نام فاعل، فعال اور فعول کے وزن پر آیا ہے، جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اللہ بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے، وہ معاف بھی کرتا ہے، پردہ بھی ڈالتا ہے اور ہر اس طریقے سے معاف کرتا ہے جسے اہل عرب سمجھتے ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ لفظ غافر اور غفار غفر سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ستر پوشی اور پردہ ہوتا ہے، چنانچہ غفار کا معنی ستار ہے اور غفر کا معنیٰ پردہ اور ستر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اپنے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا ہے۔
امام اکبر نے مزید کہا کہ: بسا اوقات بات بہت سادہ محسوس ہوتی ہے لیکن اس کے پیچھے بڑی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، گناہ گاروں اور خطا کاروں کی ایک بڑی جماعت کو کوئی نہیں دیکھتا، اللہ ان کا پردہ رکھ لیتا ہے، یہی غفار کا معنی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے، پھر انہیں معاف کر دیتا ہے اور آخرت میں قیامت کے دن ان کی بخشش فرمائے گا، ہمارے لئے جو سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ اللہ اپنے بندوں کی ستر پوشی کرتا ہے اور آخرت میں انہیں معاف کر دے گا۔
شیخ الازہر نے واضح کیا کہ: اس موضوع پر امام غزالی کی نظر بہت گہری تھی، انہوں نے کہا: اللہ کا نام " غفار" کئی سطح پر انسانی قباحتوں کی سترپوشی کرتا ہے، سب سے پہلے انسان کے باطن میں موجود قباحتوں کو چھپاتا ہے، کیونکہ اگر وہ ظاہرہو جائیں تو کوئی بھی انہیں برداشت نہیں کر پائے گا، چنانچہ اللہ نے انہیں خوبصورتی سے ڈھانپ دیا ہے، اس کا تعلق حسی قباحتوں کے ساتھ ہے، اسی طرح اللہ معنوی قباحتوں پر بھی پردہ ڈالتا ہے، اور یہ حسد، کینہ، نفرت اور تکبر جیسی قلبی بیماریاں ہیں، اللہ ان عیوب اور گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، جنہیں دوسرے نہیں دیکھ پاتے۔
امام اکبر نے واضح کیا کہ قرآن اوامر اور نواہی لے کر نازل ہوا ہے، لیکن ایسے قانون کا محتاج ہے جو قرآن میں موجود اخلاق فاضلہ کو لوگوں پر لازم کر دے، اور اگر وہ حدود سے تجاوز کریں تو ان پر گرفت کرے، بہت سارے ممالک میں کوئی شخص کسی چینل پر بیٹھ کر دوسرے شخص کی برائی نہیں کر سکتا، نہیں تو وہ قانون کے آگے جوابدہ ہوتا ہے، لیکن ہم ایسے لوگوں میں گھرگئے ہیں، جو اچھائی دیکھ کر چھپا دیتے ہیں اور برائی دیکھ کر اسے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں، اگر کوئی برائی نظر نہ آئے تو ایجاد کر لیتے ہیں، لیکن انشاءاللہ اس صورتحال کے لیے سخت قانون سازی کی جائے گی۔
شیخ الازہر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: جو شخص کسی کے نام اور شہرت کو داغدار کرتا ہے گویا وہ اس کو قتل کر دیتا ہے یا زخمی کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے اس شخص کو خبردار کیا ہے جو لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس شخص کا کیا حال ہوگا جو انہیں چینلز پر پھیلا دیتا ہے، تو پھر اللہ اس کے رازکو افشاء کر کے اسے گھر بیٹھے رسوا کر دے گا، نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو اپنے کسی بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے اللہ پھر اس کے عیب ڈھونڈتا ہے اور جس کے عیب اللہ ڈھونڈے اسے اپنے گھر میں رسوا کر دیتا ہے، جو ایسا کرے اسے چھوڑا نہیں جائے گا، مگر اس صورت میں کہ وہ توبہ کرے، ندامت کا اظہار کرے اور جس کے حق میں اس نے برا کیا ہے اس سے معافی مانگے، اور یہ ماہ مبارک بہترین موقع ہے اس کے لیے جو وعظ و نصیحت حاصل کرے، اور جو لوگ پرواہ نہیں کرتے اللہ ان کے لیے ایک بار ہی فیصلہ کرے گا۔