شیخ الازہر کہتے ہیں: مسلمانوں کے نزدیک حس، عقل اورغلطی سے پاک وحی علم و معرفت کے ماخذ ہیں۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نےکہا: " العلیم" اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جو قرآن میں وارد ہوا ہے اور مسلمان علماء کا اس پر اتفاق ہے، اور اس سے متعلق گفتگو بہت پھیلی ہوئی ہے، اس کی مختلف دبستان بھی وجود میں آئے ہیں، جو کہ ماہرین کے ہاں معروف ہیں، لیکن یہاں ہم بنیادی نکات کا ذکر کریں گے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ نام قرآن کریم میں مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوا ہے، تین صیغے کثرت سے آئے ہیں: عالم، علیم اور علام۔
امام اکبر نے جمعہ کے دن اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی اکیسویں نشست میں کہا ہے کہ: اللہ کا نام عالم، علیم اور علام ہے، لیکن انسان کو جب علم کے ساتھ متصف کرکے عالم کہا جاتا ہے تو انسان جتنی معلومات رکھتا ہے انہیں پہلے نہیں جانتا ہوتا، اس کا علم علمی تحقیقات میں ہی بند نہیں ہے، لیکن انسانی علم اتنا ہی ہے کہ وہ اپنے ذہن میں چیزوں کی صورتیں محفوظ کر لیتا ہے۔
امام اکبر نے اللہ تعالی کے قول کو بطور دلیل پیش کیا ہے: "الله تعالى نے تمہيں تمہارى ماؤں كے پيٹوں سے نكالا ہے كہ اس وقت تم كچھ بھى نہيں جانتے تھے، اسى نے تمہارے كان اور آنكھيں اور دل بنائے كه تم شكر گزارى كرو"۔ جیسا کہ مفسرین کتی انسان سفید تختی کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر علوم و معارف سیکھنا شروع کرتا ہے، سادہ علوم سے درمیانے اور پھر گہرے اور دقیق معارف کی طرف سفر کرتا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کا جو حسی، تجرباتی اور الحادی دبستان سے تعلق رکھتے ہیں کہ علم کا ماخذ اور معرفت کے وسائل علماء ہیں اور علماء سے ان کی مراد سائنسدان ہیں۔
امام اکبر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: یہ نظریات اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بڑی شدت کے ساتھ سامنے آئے اور پھر بیسویں صدی میں ان کا زوال ہونا شروع ہوگیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کا سیلاب تھا، اور فلسفیانہ معرفت کی وسعت میں ان مسائل کی تعبیر بھی ہونے لگی تھی جو پہلے سمجھ میں نہیں آتے تھے، یہاں تک کہ وہ مسائل بھی حل ہونے لگے مغرب کے بعض چرچ جن میں تحقیق کرنے کو حرام قرار دیتے تھے، کیونکہ وہ ان کی تعبیر کو نہیں پہنچ پاتے تھے، فلاسفہ اس وقت کہتے تھے کہ: انسانی معرفت کا ایک ہی ماخذ ہے اور وہ حواس خمسہ ہیں جنہیں بصارت، سماعت، سونگھنا، چکھنا اور چھونا کہا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: اس نظریہ کے لوگوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ گیا جو حسی نہیں تھے جیسا کہ عقلی اور روحانی مسائل اور وجود خداوندی کا مسئلہ وغیرہ، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ انہوں نے تکبر کا اظہار کرنا شروع کر دیا، اپنے عجز کا اظہار نہیں کیا کہ وہ نہیں جانتے بلکہ انہوں نے اس کا انکار کر دیا کیونکہ ان کے حواس اور ان کا علم ان مسائل تک نہیں پہنچ سکتا تھا، حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ ثابت نہ کر سکنا کس چیز کے عدم یا نفی پر دلالت نہیں کرتا، لیکن وہ تکبر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جن مسائل تک حس نہیں پہنچ سکتی ان کی کوئی قیمت نہیں ہے، حالانکہ یورپ میں اس سے پہلے عقلی دبستان موجود تھا اور وہ حس کو عقل کے ذریعے درست کرتا تھا، لیکن حسی تجربیت کے آنے کے بعد صورتحال یک لخت بدل گئی پھر اس کے بعد ہم جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے۔
شیخ الازہر نے واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک علم و معرفت کے تین ذرائع ہیں: حسی ذریعہ جو کہ انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کے ساتھ ہوتا ہے اسی لیے اسلام نے بچے کو نماز روزے کا پابند نہیں کیا کیونکہ یہ امور عقل کا تقاضا کرتے ہیں اور وہ بلوغت کے وقت آتی ہے، دوسرا ذریعہ عقل ہے جو نیا اضافہ کرتی ہے اور حواس کی غلطیوں کو درست کرتی ہے، پھر تیسرا ذریعہ غلطیوں سے پاک وحی اور خبر ہے جس پر جھوٹ غالب نہیں آسکتا اور یہ اللہ کی وحی ہے جو یقین کا درجہ رکھتی ہے عقل کا یقین اور حس کا یقین دونوں اس میں ہیں، ہم اپنے اصول دین میں سب سے پہلے جو چیز پڑھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اشیاء کی حقیقتیں ثابت ہیں اور ان کا علم حس، عقل اور خبر صادق سے ہوتا ہے، حادث علم وہ ہوتا ہے جو جہالت کے بعد آتا ہے اور یہ انسان کا مقید اور محدود علم ہے، اللہ کا علم ازلی اور ابدی ہے جو کبھی نہیں بدلتا اور جہل بھی اس پر مقدم نہیں ہوتا، علمی الہی میں معلومات اپنے وجود سے پہلے، وجود کے دوران اور وجود کے بعد منکشف رہتی ہیں اور کبھی نہیں بدلتیں۔
امام اکبر نے مزید کہا کہ اللہ کے علم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ معلوم کے بدلنے سے بدلتا نہیں، اللہ سبحانہ و تعالی وہ علیم ذات ہے جس سے کوئی بھی چیز کسی بھی شکل میں چھپ نہیں سکتی، اللہ کے اسماء و صفات میں سے ہر صفت اور ہر نام کی خصوصیات، معانی اور افعال ہیں، جیسے صفت ارادہ اور صفت قدرت وغیرہ ہیں، آج کی نشست میں ہم جس پر بات کر رہے ہیں وہ صفت علم ہے جس کے سامنے تمام معلومات وجود سے پہلے، وجود کے وقت اور وجود کے بعد منکشف رہتی ہیں، چنانچہ صفت علم انکشاف ہے جیسے صفت قدرت ایجاد ہے۔