شیخ الازہر: مجھے امید ہے کہ عربی زبان اور عربی تاریخ کی تعلیم ہماری عرب دنیا میں لازمی ہو جائے گی اور اس کا نصاب تمام عرب ممالک میں یکجا ہو جائے گا۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے بروز سوموار، مشیخۃ الازہر میں ڈاکٹر عمرو عزت، عرب یونیورسٹیوں کی انجمن کے سیکرٹری جنرل، اور ڈاکٹر مشہور رفاعی، اردن کی اعلیٰ کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے سیکرٹری جنرل سے متعدد مشترکہ علمی منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے اور عرب یونیورسٹیوں کی یونین میں الازہر یونیورسٹی کی مستقل رکنیت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملاقات کی۔
امام اکبر نے کہا کہ: عرب اور اسلامی یونیورسٹیوں پر اس منظم ثقافتی یلغار کی روشنی میں دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو نشانہ بناتی ہے اور ان کے مذہبی اور مشرقی تشخص کو مٹا دیتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عرب اور اسلامی تعلیمی اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کے احیاء، اس کی عظمتوں اور فوائد اور نوجوانوں کے دلوں میں اس کی عالمی تعمیر کے لیے کام کرنے کا عزم کریں۔ اور ہماری امت میں تعلیمی نصاب کو اس انداز میں ترتیب دیا جائے جو مذہبی اور اخلاقی اقدار کو مضبوط کرنے میں معاون ہو، ان کا مزید کہنا تھا کہ "مجھے امید ہے کہ عربی زبان کی تعلیم ہماری عرب دنیا میں لازمی ہو جائے گی، اور تمام عرب ممالک میں اس کا ایک متفقہ نصاب ہو گا۔ یہ مقصد ایک درجے سے دوسرے درجے تک تعلیمی مراحل کی ترقی کے مطابق متعدد لیول پر مشتمل ایک کتاب تیار کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور عرب تاریخ کو ابتدائی تعلیم کے مراحل سے شروع کرتے ہوئے ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔
امام اکبر نے وضاحت کی کہ اسلام کے دشمنوں نے اس کی طاقت کے ذرائع پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے اس کے اثر و رسوخ کی طاقت دیکھی، جو اس کی تہذیب اور تاریخ کی طاقت پر منحصر تھی۔ سو انہوں نے اس کی طاقت اور اقدار کے ذرائع کو تباہ کرکے اسے نشانہ بنایا، اور مسلمانوں کا اپنے دین کی تعلیمات اور اس کے اجزاء سے منسلک ہونے اور اپنے دین کی اقدار پر فخر کرنے کے جذبے کو توڑا اور زور دیا کہ ہمارے عرب اور اسلامی ممالک کو مذہبی اور اخلاقی اقدار کی مضبوطی پر مبنی تعلیمی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے واضح مقاصد ہونے چاہئیں، اور اس کی نصاب سازی اور اس کا نفاذ ہمارے عرب اور اسلامی دنیا میں فیصلہ ساز کریں۔
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ ہمارے عرب ممالک کے تعلیمی اداروں کو عربی زبان اور اس کے علوم میں فخر و تفاخر کے جذبے کو عام کرنے کی ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔ اور اس بات کی نشاندہی کی کہ زبان شناخت کے اہم ترین اجزاء میں سے ایک ہے، اسے لوگوں کی زندگیوں سے خارج کرنے سے ہمارا صرف دوسروں پر زیادہ انحصار بڑھے گا اور اپنی قدیم عرب تاریخ سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ اور اس بات پر تعجب کیا کہ بعض سماجی حلقوں میں کچھ خاندان اپنے بچوں کی غیر ملکی زبانوں پر عبور اور عربی زبان کے آسان ترین اصولوں سے ناواقفیت پر شیخی مارتے ہیں۔
اپنی طرف سے ڈاکٹر عمرو عزت اور ڈاکٹر مشہور رفاعی نے شیخ الازہر سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا، اور عرب اور اسلامی ممالک کے مسائل کی حمایت میں امام اکبر اور ازہر شریف کے ادا کردہ اہم کردار کی تعریف کی۔ خاص طور پر الازہر کی طرف سے دنیا بھر سے طلباء کو قبول کرنا اور انہیں راحت اور علم کے حصول اور اور اپنے ملک میں واپس جانے تک تمام ضروری سہولتیں اور مدد فراہم کرنا تاکہ وہ اعتدال پسند فکر کو پھیلایں اور الازہر کے سفیر بننں۔ ( اس عمل کی بھی تعریف کی)۔
عرب یونیورسٹیوں کی انجمن کے سیکرٹری جنرل نے عرب اور اسلامی یونیورسٹیوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے ، مشترکہ کام اور مشترکہ علمی منصوبوں کی تعمیرکی اہمیت پر زور دیا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عرب اور اسلامی یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر کریں۔ جیسے انہیں مغربی یونیورسٹیوں اور علمی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر ہے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر کا اس سلسلے میں بڑا اور اہم کردار ہے۔ کیونکہ تعلیمی میدان میں اسے وسیع تجربہ ہے، اور اسے عظیم بین الاقوامی شہرت اور تمام عرب اور اسلامی اقوام کا اعتماد بھی حاصل ہے۔