شیخ الازہر: اللہ تعالی کا لطف جامع ہے، جس سے مومنین، غیر مومنین اور تمام مخلوقات لطف اندوز ہوتے ہیں۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

شیخ الازہر: اللہ  کے نام "اللطیف" سے بندے کا حصہ اس کے معنی پر غور کرنا ہے، جو کہ "لطف" ہے اور اسے اس وصف کو حاصل کرنے کے لیے مشق کرنی چاہیے تاکہ وہ دوسرے  بندوں کے ساتھ حسن سلوک/ مہربانی سے پیش آئے۔
 
 
عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر نے کہا: اللہ تعالی کے اس فرمان، کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے‘‘سے مراد ہے کہ کافر بھی خدا کی مہربانی سے اسی طرح لطف اندوز ہوتا ہے جس طرح مومن اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسی لیے اس نے کہا " بعباده، اپنے بندوں پر" اور یہ نہیں کہا کہ " بالمؤمنين مومنوں پر۔" یہی بات نافرمان لوگوں، گنہگاروں، کھلم کھلا گناہ کرنے والوں اور دوسروں پر لاگو ہوتی ہے۔ وہ سب اللہ تعالی کی مہربانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کی مہربانی جامع / شامل ہے، گویا اس نے اپنے بندوں میں سے کسی کے لیے اپنی الوہیت کے انکار کا کوئی عذر نہیں چھوڑا۔
 
شیخ الازہر نے "امام الطیب" پروگرام کی آٹھویں قسط کے دوران وضاحت کی: خداتعالی نے "کافر" کو ظالم کہا ہے، کیونکہ کفر ظلم کی سب سے گھناؤنی قسم ہے، کیونکہ یہ سب سے زیادہ حقدار کے حقوق کو سلب کرتا ہے، کیونکہ کافر نے اس  کا انکار کیا اور اس پر ظلم کیا، جو اسے رزق دیتا ہے اس کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اس کی دیکھ بھال کرتا ہے، اس کے لیے معاملات کو آسان بناتا ہے، اور اسے عقل  دیتا ہے۔ پھر وہ اسے تفکیر اور ادلہ کی قوت سے نوازتا  ہے لیکن پھر بھی وہ  اس کی ناانصافی اور کفر کے باوجود اسے ایک مومن کی طرح اپنے لطف سے نوازتا ہے۔ 
آپ نے وضاحت کی کہ خدا کی مہربانی خدا کی تمام مخلوقات جانور، پودے اور بے جان اشیاء کو شامل ہے۔ اللہ تعالی  ہر اس چیز پر مہربان ہے جو روئے زمین پر حرکت کرتی ہے، اس کی پیدائش، معاش، رزق کے حصول اور دیگر مہربانیوں  کے لحاظ سے۔ کیونکہ اگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ آپ نے نشاندہی کی کہ خدا کی مہربانی پہاڑوں، سمندروں، اور دیگر بے جان چیزوں تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ تاہم اللہ تعالی کی ان پر مہربانی ان کی ذات پر مہربانی نہیں ہے بلکہ ان پر مہربانی انسان کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ اس نے انہیں انسانوں کے لیے ہی تسخیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندروں کو اس کے تابع کر دیا تاکہ وہ ان سے پانی پی سکے، اور پہاڑوں کو اس کے تابع کر دیا تاکہ وہ ان کے پیٹ میں موجود خزانوں اور معدنیات سے لطف اندوز ہو سکے، وغیرہ۔
یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ دوسری مخلوقات پر خدا کی مہربانی ان کی اپنی خاطر نہیں ہے، بلکہ انسانوں  کی خدمت اور ان کے ساتھ مہربانی کے طور پر ان چیزوں کو تسخیر کیا  ہے۔
 
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پہاڑ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ پہاڑ قرآنی نص کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ’’اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو۔‘‘ اور اُس کا یہ فرمان، ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتے ہیں۔‘‘ تاہم، ہم یہ نہیں جان سکتے  کہ ان کی تسبیح کیسی ہے  صرف اللہ ہی  ان کی تسبیح کی کیفیت کو جانتا ہے۔  اس بات پر زور دیا کہ "رزق" ہر ایک کے لیے ہے، مومن  اور کافر ہر ایک کے لیے۔  شیخ  الازہر نے وضاحت کی کہ خدا کا رزق سب کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق: "اگر خدا لوگوں کو ان کے غلط کاموں پر مؤاخذہ کرتا تو وہ اس زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" اور یہ کہ یہ مومنین اور دوسروی چیزوں بشمول جانور، بے جان اشیاء اور تمام مخلوقات کے ساتھ احسان کی توسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تسبیح کرنے عبادت اور اس کی معرفت کے لیے  پیدا کیا ہے یہ لازمی طور پر دین سے معلوم بات ہے، اور اس کا انکار کرنا قرآنی نص کا انکار ہے۔
 
 
اور غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں پر فاقہ کشی اور بربادی کے باوجود خدا تعالیٰ کی مہربانیاں ان پر سایہ فگن ہیں، شیخ الازہر نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں مہربانی ہے اور فلسطینی کاز میں روح اور زندگی دوبارہ بحال ہو گئی ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معزز صحابہ کی زندگیاں جنگوں اور چیلنجوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لیکن 80 سالوں کے دوران، آپ کے دین نے تمام انسانیت کو عدل، رحم، سوچ، اور عقائد، اخلاقیات، آداب اور ہر چیز میں درستگی کا درس دیا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ خدا کا وعدہ ہے، " خدا اپنے وعدے کو نہیں توڑتا۔" ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور ہمارے پاس سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا کے قصے میں سبق ہے جب ان کے بھائی امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا، انہوں  نے کہا: اے اللہ ہماری طرف سے یہ چھوٹی سی قربانی قبول فرما۔‘‘ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے ہیں تو ان کی قربانی چھوٹی کیسے ہو سکتی ہے  سوائے اس کے کہ اللہ کے فضل و کرم کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ چھوٹی سی شے ہے۔ شاید جو کچھ غزہ میں ہمارے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ  اس عظیم مہربانی کے مقابلے میں بہت کم ہے جو مستقبل قریب میں ان پر برسائی جائے گی ، ان شاء اللہ۔
 
قسط کے آخر میں، آپ نے وضاحت کی کہ خدا کے اسم "اللطیف" میں بندے کا حصہ اس نام کے معنی پر غور کرنا ہے۔ اور وہ لطف ہے۔ اور اسے  اپنی بشری طاقت کے مطابق اس وصف کو حاصل کرنے کے لیے مشق کرنی چاہیے تاکہ وہ دوسرے  بندوں کے ساتھ حسن سلوک/ مہربانی سے پیش آئے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان میں غور کرے "اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے"  اور یہ لطف ہے، اور یہ فرمان بھی پاد کرے کہ "ایک اچھا کلمہ بھی  صدقہ ہے۔" یعنی لوگوں سے اس کی برائی اور شر دور رہے۔ ان سب کا مطلب لطف  ہے، لیکن یہ صرف مشق کے ساتھ آتا ہے۔ رمضان کے مہینہ ایک موقعہ ہے کہ اس کی تھوڑی تھوڑی مشق کی جائے، یہاں تک کہ یہ مہربانی  اس سے خود بخود صادر ہونا شروع ہو جائے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025