شیخ الازہر: خدا کے نام "العظیم" میں بندے کا حصہ یہ جاننا ہے کہ ہر عظیم خدا کے آگے حقیر ہے

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

امام  اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف، مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین نے کہا: کہ اسم "عظیم" کے تین معنی ہیں: پہلا بڑی شان والا ہونا ہے، اور دوسرا معنی "بڑا ہونا" ہے، جیسے اس کے لیے بولا  جاتا ہے کہ  "جس کا جسم بڑا ہو" ، اور تیسرا معنی تعداد میں کثرت ہے۔ ان تینوں معانی میں سے، صرف پہلا معنی  ذات الٰہی پر منطبق ہوتا ہے، جو "بڑی شان والا" ہے۔ یعنی عظمت اور سربلندی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ جیسے  اس کا یہ قول ، "اور وہ سب سے بلند عظیم ہے،" اور اس کا یہ قول، "وہ خدائے  عظیم پر ایمان نہیں لاتے" ان دونوں میں عظیم کی نسبت اللہ کی  ذات کی طرف ہے۔ اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ باقی دو معانی، "بڑا جسم" اور "کثرت عدد"، ذات الٰہی کے لائق نہیں ہیں۔ کیونکہ جسم اعضاء پر مشتمل ہے اور اگر ایسا ہوتا تو اسے ان حصوں کو جمع کرنے کے لیے کسی کی ضرورت ہوتی، یعنی اس کا کوئی بنانے والا ہوتا، اور یہ سب کچھ ذات الٰہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
شیخ الازہر نے "امام طیب" پروگرام کی گیارہویں قسط کے دوران وضاحت کی کہ یہ عجیب بات ہے۔ کہ اگر آپ ہمارے زمانے کے بعض ملحدین کو بتائیں کہ یہ "کرسی" مثال کے طور پر خود بخود وجود میں آئی ہے ، اور اس کا کوئی بنانے والا نہیں ہے، تو وہ حیران ہوں گے اور اس کا انکار کریں گے۔ لیکن وہ صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ خود سے پیدا ہوئی ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ خدا تعالی کا "جسم" ہے، کیونکہ جسم ایک مرکب ہے جسے جمع کرنے کے لیے کسی کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو اس کو جمع کرتا ہے وہ اس سے پہلے وجود میں آتا ہے۔ یہ ذات الہی کے ساتھ درست نہیں ہے، جس کے لیے "مطلق قدرت " اور "مطلق علم" کی صفت کو ثابت ہے۔ وہ سب سے پہلے ہے اس لیے وہ اول ہے اور اس سے پہلے کوئی نہیں ہے اور یہ کہنا (یعنی اس کے لیے جسم کا ثبوت) ان تمام صفات کے خلاف ہے جو اس کے لیے ثابت ہیں اور یہ اس کے لیے ناممکن ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کے نام  " العظیم"کے ساتھ تصدیق کے بارے میں اس جملے کے حوالے سے  " صدق الله العظيم  خدا تعالی نے سچ کہا ہے"۔ آپ نے وضاحت کی کہ : یہ ایک ایسا رواج ہے جس کے علماء یا مسلمان عادی ہو چکے ہیں، لیکن لفظ "عظیم" اور قرآن کی آیات کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہے۔ پورا قرآن اور اس کی تمام آیات اس قائل کی عظمت اور اسے نازل کرنے والے کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا، جب وہ ’’ صدق الله العظيم خدا تعالیٰ نے سچ کہا ہے‘‘ کے ساتھ اختتام کرتا ہے تو وہ اس عظیم کتاب کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں جو کہا گیا ہے کہ ’’جب قرآن پڑھا جائے تو اسے  غور سنو‘‘۔ اور جب ہم قرآن کا آغاز یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ" أعوذ بالله من الشيطان الرجيم " میں شیطان مردود سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ تاکہ شیطان ہمیں مشغول نہ کرے، ہمیں گمراہ نہ کرے، اور ہمارے خیالوں یا دلوں میں ایسی کوئی چیز نہ ڈالے جو ہمیں تلاوت کے معنی سے غافل کرے، اس کے علاوہ سنت کی دیگر ادلہ بھی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے۔  جیسا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا فرمان: "ہر اہم بات جو خدا کے نام سے شروع نہیں ہوتی ہے نامکمل  ہے۔ اور " قراءت کسی بھی دوسرے معاملے سے زیادہ اہم معاملہ ہے کیونکہ اس کے لیے ایک تدبر والے ذہن کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ یہ حکم سنت مقدسہ سے ماخوذ ہے، جس کا مسلمانوں کے لیے شریعت میں اہم کردار ہے۔ یہ قرآن کو ماننے والوں اور حدیث پر شک کرنے والوں کے درمیان جاری بحث ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنت سے شریعت نہیں لی جا سکتی، یا وہ کہتے ہیں کہ سنت حکم  میں مستقل نہیں ہوسکتی، اور وہ اس میں دھوکہ  دہی سے کام  لیتے  ہیں۔ ان کا جواب یہ ہے کہ سنت رسول کے علاوہ قرآن مجید کا تقریباً دو تہائی حصہ نہیں سمجھ سکتے۔ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے، حج کرنے کا حکم ہے اور اسلام کی وہ تمام اسس موجود ہیں جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر ہم صرف قرآن پر اعتماد  کرتے ہیں تو ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوتا، کیونکہ ان  کی تفصیلات، احکام، فرائض، اوقات اور زکوٰۃ کی مقدار وغیرہ (قرآن پاک میں بیان نہیں کی گئی)۔ لہٰذا، سنت نبوی کا اسلامی شریعت میں تین مراحل میں سے ایک اہم کردار تھا۔ یا تو "وضاحت،" "تصدیق،" یا "انشاء"، یعنی شرعی احکام کو  تشکیل دینا شامل ہے۔ اس میں وضاحت یہ ہے کہ کسی لڑکی کو اس کی پھوپھی اور چچی کے ساتھ (نکاح میں) ملانے کی ممانعت ہے، اوریہ شرعی حکم سنت نبوی سے اخذ کردہ ہے، اور تمام مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔
قسط کے آخر میں، آپ  نے وضاحت کی کہ خدا کے اسم "عظیم" میں بندے کا حصہ یہ جاننا ہے کہ ہر عظیم شخص خدا کے آگے حقیر ہے۔ دوم، اسے اس عظمت کو تسلیم کرنا چاہیے جو انسان کے لیے مناسب ہے اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو کہ انبیاء، علماء، اولیاء، صالحین وغیرہ کی عظمت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بندوں کو اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ اور ان میں سے ہر ایک عظیم شخص خدا کی نسبت حقیر ہے اور انسانی عظمت کا اس کی حدود میں احترام کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ ایک "عظیم" جادوگر ہے، کیونکہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ عظیم نہیں ہے۔ لیکن عظمت کا وصف  کچھ لوگوں پر منطبق  ہو سکتا ہے، جیسے کہ انبیاء، علماء، اور خدا کے نیک اور صالح بندے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025