شیخ الازہر: خدا کے نام " الغفار معاف کرنے والے" سے بندے کا حصہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کرنے اور در گزر کرنے کا عادی بن جائے اور اس عمل کو زندگی کا منہج بنائے۔
شیخ الازہر: اللہ تعالی شرک کے علاوہ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔
شیخ الازہر: اگر گناہ کبیرہ کرنے والا اپنے رب سے توبہ کیے بغیر مر جائے تو وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔
شیخ الازہر: دہشت گرد اور انتہا پسند جماعتیں نافرمان مسلمانوں اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے حوالے سے خوارج کے مذہب پر اعتماد کرتی ہیں۔
شیخ الازہر نے کہا کہ خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے سوائے ایک گناہ کے جو کہ شرک ہے، اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق: {بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے}۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:۔ {آپ فرما دیجیے اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا بے شک اللہ تعالی سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے} اسرفوا سے مراد کثرت ذنوب ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کر دے گا سوائے شرک کے پس کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کی بخشش سے بڑا نہیں۔ مزید کہا کہ یہ اللہ تعالی کرم ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی وعید جیسے عذاب، اور عقاب، جہنم میں ڈالنے وغیرہ کی دھمکیوں کو معاف کر سکتا ہے، لیکن وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ جیسا کہ جو آیت کریمہ میں مذکور ہے، ’’خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘ یہ ایک وعدہ ہے، اور خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
آپ نے "امام طیب" پروگرام کی تیرھویں قسط میں اس سوال کے جواب میں کہ "کبیرہ گناہ کرنے والے کا کیا حکم ہے؟"وضاحت کی کہ: اہل سنت کے مذہب کے مطابق شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جو کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جس میں قتل، زنا، شراب پینا، والدین کی نافرمانی وغیرہ شامل ہیں، وہ نافرمان یا گناہگار یا فاسق مسلمان ہے۔ وہ ان کے نزدیک دو منازل کے درمیان ہو گا. جہاں تک خوارج کا تعلق ہے تو انہوں نے کبیرہ گناہ کے مرتکب کو اگر وہ توبہ نہ کرے تو کافر کہا ہے۔ البتہ اہل سنت کی رائے، جو کہتے ہیں کہ اس کا معامہ خدا کے ہاتھ میں ہیں، سب سے عام، وسیع اور شائع ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر گناہ کبیرہ کرنے والا توبہ کیے بغیر مر جائے تو وہ مومن ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا۔ بر خلاف عقیدہ معتزلہ کے جو کہتے ہیں کہ وہ دو منزلوں کے درمیان ہو گا، اور بر خلاف عقیدہ خوارج کے جو اسے کافر گردانتے ہیں۔
آپ نے کہا کہ یہاں سب سے بڑا مخمصہ یہ ہے کہ خوارج کا عقیدہ وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ بعض انتہا پسند گروہ اسے نافرمان مسلمانوں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کی تکفیر کے لیے استعمال کرتے ہیں، پھر اسے قتل کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔ حالیہ ابھرنے والی تمام انتہا پسند اور دہشت گرد تحریکیں خوارج کے اسی اصول پر مبنی ہیں۔ ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، اور درحقیقت وہ حکمرانوں کو بھی اسی دلیل سے کافر سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی نازل کردہ چیزوں کے علاوہ فیصلہ کرتے ہیں، اور اس نافرمانی کی نمائندگی کرتے ہیں جو انہیں کافر بناتی ہے، یہ (نقطہ نظر) درست نہیں ہے۔
اور خدا کے نام " الغفار بہت معاف کرنے والے" سے بندے کے نصیب کے بارے میں کہا کہ یہ اس کی روزمرہ کی زندگی اور طرز عمل میں کیسے منعکس ہو سکتا ہے امام اکبر نے وضاحت کی کہ بندے کا حصہ خدا کے اسم گرامی، معاف کرنے والے " الغفار" سے یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کو معاف کرے، اس سے درگزر کرنے کی عادت ڈالے۔ اس بات کی عادت ڈالنے کے لیے اسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {انہیں چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کر دیں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمہیں معاف کر دے} ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو معاف کریں جنہوں نے ہمارے حق میں غلطی کی اور ہم معاف کرنا اور درگزر کرنا سیکھیں۔