امام اکبر: قرآن پاک نے مسلمانوں کو تاریکی کے دور میں مغرب اور مشرق کو روشن کرنے کی ترغیب دی۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

قرآن منہج حیات ہے اور مسلمانوں کو اس کی طرف اسی طرح دیکھنا چاہیے جس کا وہ حقدار ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کرم  کرتا ہے اور اس کے بندوں میں سے  چند ہی شکر گزار ہیں۔
 
خدا کی نعمتیں انسان کو ہر لمحہ گھیرے ہوئے ہیں۔
 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر عمل پر اللہ کا شکر ادا کرتے، اللہ سے دعا کرتے تھے، اس کی تعریف کرتے اور اس کی ثنا کرتے تھے۔
 
 
عزت مآب امام  اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، چیئرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے وضاحت کی: کہ "شاکر" خدا کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے۔ اور یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے اس میں اسم اور فعل ہے  جیسے غافر، یہ اس بات پر دلالت کرتا  ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا شکر قبول فرمانے والا ہے۔ اور اسی سے شکور ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ یہ صفت نہیں ہے جو صرف ایک ہی دفعہ واقع ہوتی ہے بلکہ بار بار اس کا حدوث ہوتا ہے پس یہ کثرت کا فائدہ دیتا ہے۔ اس کا ذکر حدیث (شکر) میں بھی بندے کے حوالے سے آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں (الشکور) آیا ہے۔
 
امام  اکبر نے آج اپنے رمضان پروگرام " امام طیب" کی چودھویں قسط میں اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیا کہ قرآن کریم میں مذکور الفاظ سے واقفیت اور ان کے درمیان فرق  کی اہمیت کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب (قرآن پاک) وہی ہے جس نے مسلمانوں کو مغرب اور مشرق کی تاریکی کے دور میں ان کو روشن کرنے کی ترغیب دی۔ اسی (80) سال کے دوران مسلمان اندلس اور چین میں پہنچ چکے تھے۔ اندلس کے لوگوں نے مسلمانوں کو فاتح کی طرح خوش آمدید کہا۔ کیونکہ وہ تمام امور  میں ان کے لیے لائف لائن تھے، چنانچہ انہوں نے وہاں تہذیب کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا: ’’اب بدقسمتی سے ہمارے بچے اور یہاں تک کہ خاص لوگ بھی قرآن کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس کا یہ حقدار ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن پاک کو اس نظر سے دیکھیں جس کا یہ مستحق ہے  کیونکہ قرآن ایک منہج  حیات  ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کا وصف  بیان کیا ہے۔ ان میں سے: "جس نے اس کو تکبر کی وجہ سے ترک کیا خدا اسے تباہ کر دے گا۔
 
یہ وہی ہے جس سے ہم ابھی گزر رہے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ دوا ہے جسے ہم ہلکا سمجھتے ہیں، اور یہ اس بیماری کی واحد دوا ہے جو اب موجود ہے۔
 
 
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ شکر سے مراد  مذکور میں موجود خوبصورت خصوصیات یا اچھی خصوصیات کا ذکر ہے۔ یہ بتانا کہ اگر خدا اپنے بندوں کا شکر قبول کرتا ہے تو یہ ذات کی صفت ہے۔ جبکہ ثنا اس میں موجود ذاتی خوبیوں کا ذکر ہے۔ لیکن اگر وہ ان کا شکر قبول کرتا ہے، ان کے اعمال، ان کی نیکی، ہمدردی اور دیگر اچھی خوبیوں پر ۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں  کی قدر دانی  ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر شکور  ہونے  سے یہی مراد ہے۔
 
قرآن کریم کی بعض آیات میں الشکور نام کو الغفور اور الحلیم کے ساتھ جوڑنے کی حکمت کے بارے میں بات کی اور امام اکبر نے واضح کیا کہ: ایک خاص علم ہے جو آیات کے اختتام کے بارے میں ہے جو ان احکام کو واضح کرتا ہے جو آیت کے شروع میں آتے ہیں یا آخر میں آتے ہیں۔ اور اس مناسبت کو واضح کرتا ہے جو ( اختتام آیت ) میں ہوتا ہے  اور جس وجہ سے اس کا اختتام ہوا ہے۔
 
جو (الشکور الحلیم) میں واضح ہے۔ شکور حلم کا متقاضی ہے یعنی جب تک وہ حلیم  نہ ہو شکور  نہیں ہو سکتا۔ اس طرح، بہت سارے  اوصاف ہیں جو بہت سے لوگوں کے خیال میں بے کار ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ توازن اور تناسب کو دریافت کرنے کے لیے خاص علم  ہے۔ اور نہ صرف آیت کو اس کے آغاز سے تعلق کو دریافت کرنا ہے ، بلکہ جو اس سے پہلے ہے اس سے بھی  تعلق کو دریافت کرنا ہے۔ اور آیات کا ایک دوسرے سے ربط بھی دریافت کرنا ہوتا ہے، پس پورا قرآن آپس میں مربوط ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصریح فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ فلاں فلاں سورت میں ڈال دو۔ اور اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر توقیفی ہے، کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی ایک آیت لے اور اس طرح کی دوسری چھوڑ دے۔ 
 
 
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: {اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں} - کے بارے میں امام اکبر نے  کہا کہ: شکور وہ ہے جو نعمت کا شکر ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں انسان کو اس کی زندگی کے ہر لمحے گھیرے ہوئے ہیں۔
 
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی ایسے شخص کا ملنا  بہت مشکل ہے جو اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس مفہوم کی طرف توجہ دیتا ہو۔ اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہو۔ کیونکہ انسان کھاتا، پیتا اور سوتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ یہ چیزیں اس کا حق ہیں۔ چونکہ عادت اس شخص اس خیال سے  غافل کر دیتی  ہے جس کے سامنے یہ کھانا رکھا جاتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر ایک عمل پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے، اللہ سے دعا کرتے تھے اور ہر وقت  اس کی حمد و ثنا کرتے تھے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا  کہ چند لوگ اس طرز کی پیروی کرتے ہیں، جب کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس وقت  شکر ادا کرتے ہیں جب انہیں کوئی بڑی نعمت ملتی ہے جو ان کی توجہ حاصل کرتی ہے۔ یا مثال کے طور پر جب وہ مصیبت میں پڑ جاتے ہیں، ، اور پھر  انہیں کشادگی مل جاتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں۔ تو اس صورت میں بندہ پوری طرح شکر ادا نہیں کرتا بلکہ تھوڑا سا شکر ادا کرتا ہے، یہ ایک معروف صورت حال ہے، یہاں تک کہ زیادہ تر مومن اسی صورت حال  میں رہتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو اپنی تمام حرکات و سکنات میں الہٰی موجودگی کو محسوس کرتے ہیں۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025