شیخ الازہر نے (الضار النافع) کے معنی کی وضاحت کی

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب، شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ : (الضار النافع) کا ذکر قرآن پاک میں اسم فاعل کی  شکل میں نہیں آیا ہے۔ یہ دونوں دو فعلوں "یضر اور ینفع" سے ماخوذ ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ براہ راست اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ ضار  اور نافع ہے۔ لیکن یہ اس امر کو مستلزم ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نقصان اور فائدہ دینے والا نہیں۔ اگر ہم یہ نہ مانیں کہ خدا تعالیٰ ہی نقصان اور فائدہ پہنچانے والا ہے تو یہ نصوص عقلی طور پر باطل ہو جائیں گی۔ یعنی اگر کوئی امر اس بات کہ نقصان اور فائدہ دینے والی ذات ایک ہی ہے  تو یہ نصوص باطل ہیں۔ نیز حدیث کی بھی سمجھ نہیں آئے گی، اسے "دلالت مفہوم" کہا جاتا ہے۔
 
شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام "امام الطیب" کی چوبیسویں قسط میں اپنی گفتگو کے دوران ممتاز علماء میں سے علامہ ابوبکر ابن العربی کا قول پیش  کیا۔ جنہوں نے کہا کہ دنیا میں انسان کو جو بھی نقصان پہنچتا ہے اسے نقصان نہیں کہا جاتا جب تک دوا  اس کو نقصان کا نام نہ دے۔۔ جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی مصلحت  کے لیے نقصان پہنچاتا ہے نقصان کے لیے نہیں۔ یہاں یہ عمل قبیح کے معنی میں ہے، کیونکہ اس کا صدور خدا تعالی کی طرف سے درست نہیں۔ کیونکہ اس کے ہاں اس میں مستقبل  میں حکمت ہے۔ یہاں تک کہ لفظ میں بھی حکمت ہے۔ کیونکہ آپ ضار سے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ظالم ہے۔ کیونکہ  ضار وہ  ہے جس کی وجہ سے تکلیف یا درد پہنچے۔  اصل نقصان تو دوزخ کا عذاب ہے۔ اور اصل فائدہ جنت میں داخل ہونا ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس لحاظ سے اللہ تعالی ضار اور نافع ہے، لیکن وہ مستحقین کو نقصان پہنچاتا ہے، کیونکہ کافر سزا کے مستحق ہیں اور مومن ثواب کا مستحق ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024