شیخ الازہر: خدا عادل ہے. اور غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے سزا مل کے رہے گی۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

شیخ الازہر: خدا نے غزہ کے صبر کرنے والوں سے بلند ترین جنت کا وعدہ کیا ہے اور خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
شیخ الازہر: فائدہ اور ضرر خدا کی طرف سے ہے اور کوئی انسان کسی دوسرے کو نفع یا نقصان  نہیں پہنچا سکتا۔
شیخ الازہر نے کہا کہ خدا کے نام " الضار " کو خدا کے نام " النافع "  کے ساتھ جوڑنے کا فائدہ مسلمانوں میں یہ عقیدہ پختہ کرنا  ہے کہ اگر نقصان پہنچانے والا خدا ہے کوئی اور نہیں تو فائدہ پہنچانے والا بھی خدا ہی ہے۔ یور یہ توحید اور یقین پر دلالت ہے کہ نقصان پہنچانے والا اور فائدہ پہنچانے والا صرف خدا ہی ہے، اور وضاحت کی کہ فائدہ اور نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ کوئی بھی ہو، دوسروں کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا تصرف نہیں رکھتا۔ کچھ ایسے ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ کام پر ان کا دوست یا باس انہیں نقصان پہنچانے یا فائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ حقیقت  کے برعکس ہے۔ یہ سب کچھ خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور منتظم یا دوست تقدیر کے پورا ہونے کا سبب ہے، خواہ نقصان ہو یا فائدہ۔
 
 
آپ نے امام طیب پروگرام کی پچیسویں قسط میں وضاحت کی کہ نقصان اور فائدہ اسباب ہیں۔ مسلم علماء بشمول امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسباب اور مسببات پر بحث کی ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آیا اسباب کا مسبباب کے حصول میں کوئی کردار ہے، یا اسباب محض وسائل ہیں  اور حکم الٰہی کی پیروی کے لیے ہیں، مثال کے طور پر، جب آگ روئی یا کسی بھی جلنے والی چیز کو چھوتی ہے تو جلن پیدا ہوتی ہے۔ کیا آگ کاغذ یا روئی کو جلانے کے لیے خود پیدا ہوئی ہے، یا اسے جلانے کا حکم دیا گیا تھا، یا کوئی اور عمل ہے  جو جلانے کا باعث تھا؟ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سبب کے تین عناصر ہیں، پہلا علت یا سبب جو محسوس سے تعلق رکھتا  ہے۔ دوسرا جلانا ہے، وہ بھی محسوس سے تعلق رکھتا  ہے ہے۔ تیسرا عنصر پہلی اور دوسری کے درمیان ربط ہے، کیا یہ ربط ایک ناگزیر اور ضروری ہے، اس طرح کہ آگ کا جلانا مستقل ہے۔ اور یہ کہ جب بھی کوئی چیز آگ کو چھوئے گی  تو وہ بھڑک آٹھے گی  یا کوئی اور چیز ہے؟
 
امام  اکبر نے کہا کہ معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا نے یہ اثر پیدا کرنے کے لیے بعض جسموں میں قوت جمع کر رکھی ہے۔ جبکہ امام غزالی ہمیں اس عقیدہ کے خلاف تنبیہ کرتے ہیں کہ آگ ہی چیزوں میں آتش کا سبب بنتی ہے۔ کچھ فلسفیوں کے جواب میں، انہوں  نے اپنے اس اعتراف کی تصدیق کی کہ آگ کا بطور سبب انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آگ خود احتراق کا سبب بنی، یا ایسا خود نہیں کیا۔ فلسفیوں نے جواب دیا کہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی آگ روئی کو چھوتی ہے تو احتراق پیدا ہوتا ہے ۔ امام غزالی نے ان سے پوچھا: پہلے رجحان، آگ"اور دوسرے، "جلانے" کے درمیان تعلق کی نوع کیا ہے؟ یہ بھی کہا کہ جب یہ دونوں مظاہر ملتے ہیں تو ایک اور عمل ہوتا ہے جو کہ آگ کا بھڑکنا ہے۔
شیخ الازہر نے تصدیق کی کہ کچھ فلسفی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آگ بے جان اشیاء ہونے کے باوجود ارادہ، علم اور طاقت رکھتی ہے۔ تو سیدنا ابراہیم کیسے آگ سے جلے بغیر  نکلے  بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کے بعد کیسے نکلے جب اس آگ کی طرف وحی کی گئی کہ  ٹھنڈی اور پرامن ہو جا؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اسے جلانے یا جلانے سے  روکنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ اس سے امام غزالی کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس کائنات میں فاعل خدا تعالی ہے، اور اس کائنات میں کوئی بھی نہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو، جس کے پاس اختیار یا طاقت ہے سوائے اس کے جس پر  خدا جاری فرمائے۔
آپ نے وضاحت کی کہ ایک مومن جب آفت کا شکار ہوتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر جو بھی آفتیں یا آزمائشیں آتی ہیں وہ سب خدا کی طرف سے ہوتی ہیں۔ سب کچھ اس  اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے،  وہ اس کی طرف لوٹ کر آئے گا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق " اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)" جو کچھ اس پر گزرا ہو گا وہ اس کا اجر اور ثواب پائے گا۔ آیت میں صبر کرنے والوں کے لیے جنت اور اس میں بلند مقامات کی بشارت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداتعالی کے ناموں میں سے ایک نام "الصبور" ہے اور جو شخص صبر کا تجربہ کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے بہت فوائد ہیں، اور اس کا نتیجہ وہ تمام تکلیفیں دور کر دے گا جو اس نے برداشت کی تھیں۔
 
امام  اکبر نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ غزہ کے صبر کرنے والوں کو  اعلیٰ ترین جنت ملے گی۔ ان شاء اللہ تعالی، یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ جیسا کہ خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ خدا کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، یا مارے جاتے ہیں، یا اپنے گھروں سے نکالے جاتے ہیں، ان کے لیے اعلیٰ ترین جنت ہے۔ خداتعالیٰ نے فرمایا: "یہ مت سمجھو کہ خدا ظالموں کے کاموں سے بے خبر ہے" خدا کی قسم یہ تمام اعمال ایسے نہیں گزریں گے۔ خدا عادل ہے۔ وہ مظلوموں اور کمزوروں کا حامی ہے، خاص طور پر جب ان کمزوروں کو ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہ ملے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024