شیخ الازہر: خدا تعالی ایک مطلق سچائی ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک موجود رہے گا جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ ہی اس کی انتہا ہے۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

الہٰی وجود کے مقابلے میں مخلوقات کا وجود عدم  ہے۔
امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر نے کہا: کہ "حق" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر دس بار آیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔ ( یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وه باطل ہے اور بیشک اللہ ہی بلندی واﻻ کبریائی واﻻ ہے"۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: "یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو جِلاتا ہے اور وه ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے"۔ اسی طرح  بہت سی احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ان میں سے وہ مقام  جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مذکور ہے۔ "تم حق ہو، تمہارا وعدہ سچا ہے، اور تمہاری بات سچی ہے۔" یعنی تو ہی حق ہے، تمہارے سوا کوئی حق نہیں، اس پر ملت اسلامیہ کا اتفاق ہے۔ 
شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام " امام طیب" کی چھبیسویں قسط میں اپنی گفتگو  کے دوران وضاحت کی کہ اسم حق کا معنی  اس کے اطلاق کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی  صفت کے طور پر بیان کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ازل سے اور ابد تک موجود ہے۔ پس خدا تعالیٰ مطلق حق ہے اور وہ ازل سے اور ابد تک موجود ہے، اس کے وجود کی کوئی ابتدا یا انتہا نہیں ہے اور اس کے وجود کا ابتداء نہیں ہے۔ اس سے پہلے عدم تھا۔ اور اس ذات کا اختتام عدم پر نہیں ہو سکتا۔ وضاحت کی کہ حق کا یہی معنی ہے جب اس کا اطلاق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مطلق موجود ہے ہاں البتہ جب اس کا اطلاق ذات حق پر ہو تو یہ اسم ذات ہوتا ہے۔
امام اکبر نے اشارہ کیا حق اور حقیقت اور موجود معنی کے درمیان علاقہ  قویہ ہے جو کہ تطابق ہے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وجود کا مفہوم جدید فلسفوں میں بھی گہرے مفاہیم میں سے ایک ہے۔ چونکہ وجود ایک سطح کا  نہیں  ہوتا  ہے،اور اسی طرح موجودات بھی،  لیکن ایک تدرج ہے اور ایک الہی وجود ہے۔ پھر ملکی وجود، روحانی وجود، اور جسمانی ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مخلوقات کا وجود الٰہی کے مقابلے میں درحقیقت عدم ہے۔ ایک طرف ہم وجود رکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ ہمارا ذاتی وجود نہیں ہے یعنی ہم وجود میں لائے گئے ہیں۔ پھر یہ وجود ہم سے چھین لیا جائے گا اور ہم عدم ہو جائیں گے، وہی ہے جس نے ہمیں ایک مدت کے لیے وجود بخشا اور پھر ہم عدم ہو جاتے ہیں۔
 
امام  اکبر نے انکشاف کیا کہ جسم کے بارے میں فلسفیوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ جب اس سے جان سلب ہو جاتی ہے اور وہ عدم ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ مرنے کے بعد بکھر جاتا ہے اور تحلیل ہو جاتا ہے، اور جسم  اور خاک کے ذرات ایک ہو جاتے ہیں۔ پھر جب بعثت ہو گی اور دوبارہ اٹھایا جائے گا  انہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ آیا بعث موجودہ ذرات کا مجموعہ ہو گی ، یا جسم مکمل طور پر معدوم ہو چکا  ہے۔ اور ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ اس غیر موجود چیز کو بحال کرے گا ۔ جیسا کہ فلاسفہ نے اس جسم کی واپسی کے امکان کو رد کر دیا، اور کہا کہ غیر موجود (معدوم)  کو بحال نہیں کیا جا سکتا، بلکہ موجود، جو کہ ایٹم اور ٹکڑے ہیں، کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ عمل بعث اس جسم کا دوبارہ جمع ہونا ہے جس کے ذرات پہلے سے موجود ہیں۔
اور معجزات کے امر مستحیل ہونے کے بارے میں، امام الطیب نے وضاحت کی کہ مستحیل دو طرح کا ہوتا ہے:  مستحیل عادی اور مستحیل عقلی، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مستحیل عقلی وہ ہے جس کا عقل تصور بھی نہیں کرسکتی، یہ وہ چیز ہے جس سے قدرت الہیہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ انسان گمراہ ہو جاتا ہے، نہیں جانتا کہ مستحیل ہے کہ نہیں، سو یہاں قدرت کا تعلق ممکنات سے ہے۔ جہاں تک مستحیل عادی کا تعلق ہے، یہ وہ ہے جو عادتا نہیں کیا جاتا ۔ لیکن عقل اس کے حدوث کو تصور کرتی ہے  انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معجزات مستحیل عادی  کے قبیل سے ہیں نہ کہ مستحیل عقلی کے قبیل سے ، کیونکہ یہ عقل کے تصورات میں تضاد ہے، جہاں تک مستحیل عادی  کا تعلق ہے، تو یہ عقل کے تصورات میں تضاد ہے ، بلکہ عقل ان کو تصور کرتی ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024