انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نے شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین کا استقبال کیا اور خواتین کے مسائل کے لیے ان کی مسلسل حمایت اور ان کے حوالے سے اسلام کے موقف کو واضح کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

رئيسة مجلس النواب الأندونيسي تستقبل شيخ الأزهر رئيس مجلس حكماء المسلمين.jpeg

انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کی اسپیکر: شیخ الازہر کا انڈونیشین پارلیمنٹ کا دورہ انڈونیشی خواتین کی حمایت ہے۔
انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کی اسپیکر: ہم اپنے ملک میں اعتدال اور تکثیریت کو برقرار رکھنے کے لیے الازہر پر انحصار کرتے ہیں۔
شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز : انڈونیشیا تکثیریت، مذہبی رواداری اور سماجی امن کے ایک اہم ماڈل کی نمائندگی کرتا ہے۔
شیخ الازہر:  خواتین کو معاشرتی زندگی میں حصہ لینے سے خارج  کرنے کی وجہ معاشرتی روایات شرعی احکام کے ساتھ گڈمڈ ہو گئی ہیں۔

انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کی سپیکر محترمہ پوان مہارانی نے انڈونیشیا کی تاریخی عمارت جسے 1965 میں انڈونیشیا کے پہلے صدر احمد سوکارنو نے بنایا تھا میں عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف، چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز سے ملاقات کی۔ 
انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کی سپیکر نے شیخ الازہر کے انڈونیشیا کے اس دورے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔  اور انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کو اس دورے سے نوازا گیا۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ انڈونیشی خواتین کی حمایت کا پیغام لے کر آیا ہے، خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کا قیادت کے عہدوں کو سنبھالنے کے حوالے سے غلط فتووں کے پھیلاؤ  اور اسلام پر عورتوں کا دشمن مذہب ہونے کا جھوٹا الزام لگانا سے نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "سب سے بڑے اسلامی ملک - انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کی صدارت سنبھالنے والی پہلی خاتون کے طور پر - میں آپ کے مستقل مواقف کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو اسلام میں خواتین کے احترام، ان کی حیثیت کے تحفظ اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں مردوں کے لیے ایک پارٹنر اور بہن کا درجہ دیے کی تصدیق کرتے ہیں۔ 





انڈونیشیا کے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نے ازہر شریف پر انڈونیشیا کے عوام کے اعتماد کی تصدیق کی جس کو وہ ایک علمی مینارہ اور اعتدال پسند مذہبی حوالے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اور غزہ کے خلاف جارحیت کو مسترد کرنے والے الازہر کے مؤقف انڈونیشیائیوں کی طرف سے محسوس کی گئی شدید تلخی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور غزہ کے لوگوں کے مصائب سے آگاہ کرنے میں الازہر کے کردار کو جاری رکھنے کی انڈونیشیائی عوام کی خواہش ہے جب تک کہ خدا اس ظالمانہ جارحیت کو روک نہ دے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا اور الازہر میں مشترکہ رجحانات ہیں جو مذہبی اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے، اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر مسلم مسائل کو متعارف کرانے اور ان کا دفاع کرنے کے قابل عالمی اسلامی اداروں کی تشکیل چاہتے ہیں۔
انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کی اسپیکر نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ملک نے تکثیریت، دوسروں کو قبول کرنے اور بقائے باہمی اور باہمی احترام کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے کا طریقہ اپنایا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اختلاف خدا تعالی کی طرف سے ایک تحفہ اور حکمت ہے جس کا اس نے اس کائنات کے لیے ارادہ کیا ہے۔ اور یہ بھی بتایا کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی اعتدال کو برقرار رکھنے کے لیے ازہر شریف پر انحصار کرتے ہیں، اس کے گریجویٹس اور طلباء ایک نرم قوت ہیں جو ہمارے مربوط سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہم الازہر میں زیر تعلیم انڈونیشیائی 'طلباء کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ہم ان کی تعداد کو دوگنا کرنے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں۔
اپنی طرف سے، شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین، نے انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کے دورے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور مصر اور انڈونیشیائی تعلقات کی مضبوطی کی طرف اشارہ کیا۔ مصر پہلا ملک تھا جس نے 1946 میں انڈونیشیا کی آزادی کی حمایت اور اسے تسلیم کیا۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ الازہر مصر اور انڈونیشیائی تعلقات کو مضبوط بنانے میں سب سے اہم عوامل میں سے ایک تھا، اور ان کو اس وقت تک بڑھا رہا ہے جب تک کہ ہمارے پاس الازہر کے اداروں اور یونیورسٹی میں 14,000 سے زیادہ انڈونیشی طلباء زیر تعلیم ہیں، الازہر 200 اسکالرشپس بھی پیش کرتا ہے، اور ہم نے انڈونیشیا کے لوگوں کے احترام میں اس دورے کے دوران وظائف کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
شیخ الازہر نے انڈونیشیا کی ترقی اور پیشرفت جو کہ مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کے عزم کے ساتھ ساتھ ہوئی ہے، کی تعریف کی۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا تکثیریت، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ امن سب کے اشتراک اور اتحاد کے فریم ورک کے اندر اختلاف اور ملک کے استحکام کو برقرار رکھنے کے ایک اہم ماڈل کی نمائندگی کرتا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کا اعتدال ہی اس کی بقا اور امتیاز کا راز ہے اور اسی چیز نے اسے انتہا پسندی، افراط اور تفریط سے دور رکھا ہے۔
الازہر کے شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کی سماجی زندگی میں شرکت سے محرومی اور پسماندگی کی تاریخ ایک طویل تاریخ ہے جس کا انحصار معاشرتی روایات کو شرعی احکام سے گڈمڈ کرنے پر ہے۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی متعصبانہ فقہ ہے جس نے خواتین کو خود کھڑے ہونے پر مجبور کیا اور غلط معاشرتی نقطہ نظر کے خوف سے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مناسب تعلیم کے ساتھ، اور یہ بیان کہ خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ مسلم معاشرے کی تعمیر میں مدد کی، اس سب نے خواتین کو ان خوف اور خدشات سے نجات دلائی جو انہیں طویل عرصے سے پریشان کیے ہوئے تھے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024