انڈونیشین محمدیہ ایسوسی ایشن نے شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین کے لیے خصوصی استقبالیہ کا انعقاد کیا

الجمعيَّة المحمديَّة الإندونيسية تقيم حفل استقبال خاص لشيخ الأزهر رئيس مجلس حكماء المسلمين.jpg

شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین نے وصیت کی کہ انڈونیشیا کے علماء اپنے بچوں کو ان لوگوں سے محفوظ رکھیں جو سنت کی حجیت پر سوال اٹھاتے ہیں... اور تاکید کی کہ: امت کا پیغمبرِ انسانیت سے تعلق ایک قریبی تعلق ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط اور مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔  جب کہ ایسے پرانے اور جدید رجحانات پائے جاتے ہیں جو سنت نبوی پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔
سنت میں شک کرنے والوں  میں سے ایک تو نبوت کا دعویٰ کرنے تک چلا گیا۔

قرآن مجید کو سنت نبوی سے الگ کرنا اس میں خلل ڈالنا ہے۔

"شک اور شبہ" سنت میں شک کرنے والوں  کے درمیان امر مشترک ہے۔

امت کے علمائے کرام نے سنت نبویؐ کی چھان بین کے لیے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔
الازہر یونیورسٹی کے صدر کے زمانے سے، میں نے "قابل مذمت متن" کی تنقید سے نمٹنے والے کورسز کے ڈیزائن کا مطالبہ کیا ہے۔

کچھ منکرین سنت اپنے آپ کو "قرآن پرست" کہتے ہیں اور وہ قرآن سے سب سے دور لوگ ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں 14 صدیاں پہلے ان لوگوں کے بارے میں خبردار کیا تھا جو آپ کی سنت کو چھوڑنے کا مطالبہ کریں گے۔

جکارتہ میں انڈونیشین محمدیہ ایسوسی ایشن نے امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر، چیئرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز کے لیے آپ کے تیسری مرتبہ انڈونیشیا کے دورے کے موقع پر خصوصی استقبالیہ کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا ''ازہر شریف اور محمدیہ ایسوسی ایشن اور اسلام کے اعتدال کو پھیلانے اور عالمی امن کے حصول میں ان کا اولین کردار" یہ محمدیہ سوسائٹی کے صدر شیخ حیدر ناصر، ادارے کے قائدین، محمدیہ یونیورسٹی کے صدور اور انڈونیشین علماء اور مفکرین کے ایک اعلیٰ گروپ کی موجودگی میں ہوا۔

تقریب کے آغاز میں انڈونیشین محمدیہ سوسائٹی کے صدر حیدر ناصر نے شیخ الازہر کی انجمن کے ہیڈ کوارٹر آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور الازہر کی جانب سے انڈونیشین مسلمانوں کی لامحدود حمایت  پر خوشی کا اظہار کیا جو وظائف کی فراہمی اور الازہر یونیورسٹی میں انڈونیشیائیوں کو داخلہ دینے کی صورت میں ہے۔  اور اس بات کی تائید کی کہ الازہر دینی تعلیم کو فروغ دینے اور اسلام کی دعوت دینے کا ایک نمونہ ہے، اور یہ سب سے بڑی اسلامی اتھارٹی اور اسلامی تہذیب کا ستون ہے۔
جناب حیدر ناصر نے اس بات پر زور دیا کہ شیخ الازہر عالم اسلام کے مسائل اور انسانی مسائل کے سب سے بڑے حامی ہیں، وہ نہ صرف مسلمانوں کے امام ہیں بلکہ عالمی سطح پر امن اور انسانیت کی علامت ہیں۔ انسانی برادری سے متعلق دستاویز کی دفعات کو فعال کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا جس پر امام اکبر نے پوپ فرانسس کے ساتھ 2019 میں دستخط کیے تھے، انسانی ہمدردی کے اصولوں کی وجہ سے اس میں انسان کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے، چاہے اس کا رنگ، مذہب یا نسل کچھ بھی ہو۔ اس دستاویز سے سامنے آنے والے اقدامات کے لیے انڈونیشیائی باشندوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ان میں سرفہرست انسانی برادری کے لیے زید پرائز ہے۔ جس سے محمدیہ ایسوسی ایشن اور نہضۃ العلماء ایسوسی ایشن کو انڈونیشیا کے اندر امن اور انسانی بھائی چارے کے قیام کی کوششوں پر نوازا گیا ۔




اس موقع پر امام اکبر نے ایک تقریر کی جس میں انہوں نے امت محمدیہ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑنے پر زور دیا جنہوں نے انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر نور علم کی روشنی اور ظلم و جبر کی تنگی سے رحمت اور امن کی فراوانی تک لائے۔ یہ ایک قریبی تعلق ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ اور بیان کرتے ہوئے نات کہ روئے زمین کے مشرق و مغرب کے مسلمان آپ کی سیرت اور اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں جیسا کہ وہ مستحق ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ آسمان کی روشنیوں سے زمین کے اندھیروں کو دور کرنے ں كى کڑی ہیں۔
شیخ الازہر نے (پرانے اور جدید) رجحانات کے ظہور کی طرف اشارہ کیا جو سنت نبوی کی قدر، اس کے ثبوت اور اس کے راویوں صحابہ کرام تابعین اور جو ان کے بعد آئے ان میں شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سنت نبوی کو قانون اور احکام کے دائرہ سے بالکل خارج کر دیا جائے۔ اور قانون سازی اور احکام کا انحصار صرف قرآن کریم پر ہونا چاہیے۔ مسلمان جو کچھ بھی کرتا ہے اور جو کچھ بھی عبادت اور لین دین کے لحاظ سے ترک کرتا ہے، جو کچھ بھی مسلمان قرآن میں متعین نہیں پاتے ہیں، وہ اس سلسلے میں کسی حکم یا نہی حلال یا حرام کے پابند نہیں ہیں.
شیخ الازہر مسلم کونسل آف ایلڈرز کے سربراہ نے وضاحت کی کہ قرآن کریم کو سنت رسول سے الگ کرنا اس میں خلل ڈالتا ہے۔ اور یہ اس کی آیات، احکام اور شریعت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے دروازے کھولتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز قرآن سے ثابت ہے، اور اس کے باوجود قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے جس سے مسلمان یہ سمجھ سکے کہ نماز کیسے پڑھی جائے، اور نہ ہی نماز کا طریقہ کیا ہے۔ اور نہ ہی اس کی رکعتوں اور سجدوں کی تعداد۔ یہ اور اس جیسی تفصیلات کا سوائے سنت نبوی کے، جو اسلام میں قانون سازی کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید میں بہت سی قانون سازی کا عمومی طور پر ذکر کیا گیا ہے اور سنت نبوی میں ان کی تفصیل ہے۔
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ یہ شبہات خواہ ان کے مقامات اور زمانہ مختلف ہیں لیکن ان کے خیالات اور ذوق کے اختلاف کے باوجود ایک قدر مشترک ہے، وہ یہ ہے: احادیث کے راویوں میں شکوک و شبہات اور ان عظیم اور علمی کاوشوں کو نظر انداز کرنا جن میں امت کے علماء و مشائخ نے ساری زندگی گزار دی علماء نے اپنی آنکھوں کا پانی بہایا فقط ایک ہدف اور مقصد کی خاطر اور وہ تھا سنت کی صحیح روایتوں اور غیر صحیح  میں روایتوں فرق کرنا ۔ یہ کام راویوں کی تاریخ، ان کی علمی اور اخلاقی سوانح عمریوں اور سچائی، درستگی اور دیانت میں ان کی حیثیت، اور جرح اور تعدیل کے، منفرد اور حیرت انگیز تحقیق کے ذریعے کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے تحقیق سے ایک آزاد علم ابھر کر سامنے آیا، جو علماء کے ہاں علم الإسناد» یا «علم الرجال» کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کی غیر مسلموں کے ہاں کوئی نظیر نہیں ہے، نہ قدیم اور نہ ہی جدید میں، اور یہ بات ممتاز یورپی علماء کی گواہی کے مطابق ہے جنہوں نے سنت نبوی کا مطالعہ کیا ہے۔ یقیناً یہ منصفانہ بیان مغربی دانشوروں نے مطالعہ، تحقیق اور جستجو کی طویل کوششوں کے بعد جاری کیا ہوگا۔ جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ تاریخ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو، کسی نبی، رہنما، یا ہیرو کو نہیں جانتی کہ جس کی زندگی کے تمام حقائق، اس کے تمام اعمال، قول، سفر، اخلاق۔ ، اور رسم و رواج کو ریکارڈ کیا گیا ہو  یہاں تک کہ اس کے لباس، اس کے چہرے کی لکیریں، اس کے بولنے کا طریقہ، کھانا، پینا، سونا اور مسکرانا، اور دنیا میں اس کے قبیلے کا انداز، دوستوں، دشمنوں کا احاطہ کیا گیا ہو اور ان کی سوانح حیات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
امام اکبر نے قابل اعتراض متن کی تنقید سے نمٹنے کے لیے ازہر شریف کے کورسز کے ڈیزائن کی تعریف کی۔ یہ سلسلہ اس وقت سے ہے جب اس صدی عیسوی کے آغاز میں وہ جامعہ الازہر کے صدر تھے۔ جیسا کہ انہوں نے خود کلیہ اصول الدین میں حدیث کے سینئر اسکالرز سے یہ درخواست کی تھی۔ تاکہ اس متن میں علل قادحہ کو بیان کیا جائے اور اس فن کے اس نادر نسخوں کی تحقیق کی جائے جن کا مطالعہ، مقبولیت اور پھیلاؤ کا کا بڑا حصہ لوگوں تک نہیں پہنچا۔





شیخ الازہر نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ چودہ صدیاں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے فرمایا تھا۔ کہ ان سے منسوب لوگ ایک دن ان کی سنت کو خارج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نکلیں گے۔ اور قرآن پر اکتفا کرنے کا کہیں گے۔ آپ نے ان سے متنبہ کیا اور کہا:  کہ کیا یہ ان کی نبوت کا ثبوت نہیں ہے ، اور ان کے معجزات میں سے ایک معجزہ نہیں ہے جس کا چمکتا ہوا چراغ ابد تک نہیں بجھے گا۔ وہ اس بات پر بھی حیران تھے کہ کچھ منکرین سنت خود کو " اہل قرآن " کہتے ہیں انہوں تاکیدا کہا کہ وہ قرآن پاک سے سب سے دور لوگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس امر کا انکار کیا جسے اللہ تعالیٰ نے اس قرآن میں لازم کیا ہے اور وہ سنت نبوی کی اور مومنین کی راہ کی پیروی ہے۔ اور سنت مبارکہ قرآن پاک کی وجہ سے محفوظ ہے۔
اپنی تقریر کے اختتام پر، امام اکبر نے سفارش کی کہ انڈونیشیا کے علماء اس مسئلہ (سنتِ نبوی کی جحیت) پر بہت زیادہ توجہ دیں، اور اگر آپ اسے یونیورسٹی کے تقاضوں میں، یا یہاں تک کہ تعلیمی نصاب میں بھی شامل کریں تو بہتر ہوگا۔ یونیورسٹی سے پہلے کی تعلیم کے مراحل میں بھی شامل کیا جائے۔ تاکہ ہم نوجوان نسلوں کو ایسی جگہوں کا گرویدہ ہونے سے بچا سکیں جہاں نہ سنت، نہ قرآن، حتیٰ کہ مذہب بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: "گفتگو طویل ہو گئی ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے خطرے کی گھنٹی سے آگاہ کر دیا ہے ہے جو ان دنوں مشرق اور مغرب، مسلم ممالک میں دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔"

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024