شیخ الازہر نے ایسٹونیا کے صدر کا استقبال کیا اور غزہ اور لبنان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا
شیخ الازہر نے ایسٹونیا کے صدر سے کہا: عصری عالمی واقعات نے بہت سے لوگوں کی امن تک پہنچنے کی امید کھو دی ہے، سیاسی فیصلہ سازوں پر لوگوں کے اثر و رسوخ کی امید رکھی جاتی ہے۔
شیخ الازہر: غزہ میں جو قتل عام ہو رہا ہے اس کا تصور یا بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ایسٹونیا کے صدر: ہم علمی تبادلے کے ذریعے الازہر کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
ایسٹونیا کے صدر: ہمیں یوکرین، فلسطین، لبنان اور سوڈان میں جنگوں کے خاتمے کی امید ہے۔
عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے بدھ کی صبح مشیخۃ الازہر میں ایسٹونیا کے صدر سے مشترکہ تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملاقات کی۔
امام اکبر نے کہا: اسلام کا پیغام دنیا میں امن پھیلانا ہے اور یہی وہ پیغام ہے جس سے ازہر شریف نے اپنا منہج اخذ کیا ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے الازہر مذہبی علوم اور زبان کی تعلیم دے رہا ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے مسلمان بچوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ تاکہ اقدار، آداب، امن اور بھائی چارہ جو انہوں نے سیکھا ہے، اسے اپنے ملک میں پھیلایں۔ اور اس بات کی نشاندہی کی کہ ہمارے پاس (60) ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلباء ہیں، جو (100) سے زیادہ ممالک سے ہیں جو کنڈرگارٹن سے لے کر پوسٹ گریجویٹ سطح تک مختلف تعلیمی سطحوں پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، آپ نے ایسٹونیا میں مسلم کمیونٹی کے لیے اسکالرشپ مختص کرنے اور جامعہ الازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کے لیے الازہر کی تیاری کی تائید کی۔
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ امن ایک کھویا ہوا خواب بن گیا ہے، اور عصری عالمی واقعات نے بہت سے لوگوں سے اس کے حصول کی امید کھو دی ہے۔ تاہم، امید لوگوں کی مذہب اور اخلاق کی اقدار پر قائم رہنے اور انہیں اخوت اور مساوات کی اقدار کی تعلیم دینے میں سرمایہ کاری پر رکھی گئی ہے۔ تاکہ ہم لوگوں کی عالمی سیاسی فیصلہ سازوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کے مرحلے تک پہنچ سکیں نہ کہ اس کے بر عکس۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تصور یا بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جرائم اور قتل عام کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے دل بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے قتل پر رنج و غم سے بھرے ہوئے ہیں، ان کا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ انہوں نے اپنی سرزمین اور وطن میں رہنے پر اصرار کیا اور اسے چھوڑنے سے انکار کیا۔
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ دوسری دنیا مشرق وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں اور تنازعات سے بے خبر نہیں ہے، جیسے کہ غزہ، لبنان اور سوڈان اور نہ ہی ان جنگوں سے جو مغرب میں ہوتی ہیں، جیسے یوکرین۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگیں اور تنازعات پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ دنیا میں نفرت اور عدم برداشت میں اضافہ ان تنازعات کے اثرات میں سے ایک ہے۔ دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں جب کہ غزہ اور لبنان کے لوگ دن رات مصائب کا شکار ہو رہے ہیں۔ آپ نے عالمی برادری پر مزید دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا؛ تاکہ وہجارحیت کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن موقف اختیار کرے۔
شیخ الازہر نے غزہ پر صیہونی جارحیت کی مذمت میں ایسٹونیا کے موقف اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی ریاست کو مکمل رکنیت دینے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کی تعریف کی۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پوزیشن انسانی ہمدردی کے اصولوں اور بین الاقوامی انصاف کے لیے ایسٹونیا کی وابستگی کی عکاسی کرتی ہے، اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت کی امید کو بڑھاتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے مصائب کو اجاگر کرنے میں اس طرح کے مواقف کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا۔
اپنی طرف سے، ایسٹونیا کے صدر نے قدیم اسلامی ادارے ازہر شریف میں اپنی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا، اور استونیا کے بچوں کے لیے ازہر الشریف میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ مختص کرنے پر امام اکبر کے اقدام کو سراہا۔ اور الازہر کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش کی طرف اشارہ کیا، اور کہا یہ کہ یہ اسکالرشپ طرفین کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک موقع ہے۔ انہوں نے علمی سائنسی تبادلے اور محققین اور طلباء اور الازہر الشریف کے پروفیسرز اور طلباء کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تبدیلی کے شعبوں میں اپنی مہارت منتقل کرنے کے لیے ایسٹونیا کی تیاری پر زور دیا۔ ایسٹونیا کے صدر نے دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے اور یوکرین، فلسطین اور سوڈان میں جنگوں کے خاتمے کی امید ظاہر کی۔ تاکہ ہم معصوم لوگوں تک انسانی امداد پہنچا سکیں۔