شیخ الأزہر نے ملائیشیا کے وزیرِ اعظم کو ان کی اسلامی خدمات اور امت مسلمہ کے مسائل کی حمایت میں کی جانے والی کاوشوں کے لیے "مسلم آف ایلڈرز" کی شیلڈ دی۔

شيخ الأزهر يُهدِي رئيس الوزراء الماليزي درع «حكماء المسلمين».jpeg

ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے کہا: غزہ میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی صورت میں نہ ہوتا اگر حقیقی اسلامی اتحاد ہوتا۔
شیخ الأزہر نے ملائیشیا کے وزیرِ اعظم سے کہا: "ہمیں عارضی سیاسی مفادات پر اسلامی بھائی چارہ اور امت کے مستقبل کو ترجیح دینی چاہیے۔"
شیخ الأزہر نے کہا: "امت کا اتحاد وہ دیوار ہے جس میں کوئی بھی شخص ایک کیل بھی نہیں ٹھوک سکتا، اور اس کے بغیر کوئی بھی فریق اکیلا آگے نہیں بڑھ سکتا۔"
 
ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے کہا: "شیخ الأزہر کو عالم اسلام میں بلند مقام حاصل ہے اور ہمیں اسے استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم عام مسلمانوں کو مختلف مسالک کے درمیان مکالمہ اور قربت کی اہمیت سے آگاہ کر سکیں۔"
ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے کہا: "ہم اسلامی مکالمہ کانفرنس کے پیغام کی حمایت کرنے اور اسے جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلانے کے لیے تیار ہیں۔"
بروز جمعرات عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الأزہر شریف اور چئیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز، نے بحرین میں اپنی قیام گاہ میں ملائیشیا کے وزیرِ اعظم، جناب انور ابراہیم کا استقبال کیا؛ تاکہ مشترکہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر گفتگو کی جا سکے۔
ملاقات کے آغاز میں، ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے کہا: "ہم عزت مآب امام اکبر کی اس اہم وقت پر مکالمے کی دعوت کی قدر کرتے ہیں، اور عزت مآب کی اس بات کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے تمام اسلامی مسالک کو اس میں شامل کرنے کی کوشش کی، بغیر کسی فریق کو باہر کیے۔ میں نے اسلامی-اسلامی مکالمہ کانفرنس کے افتتاحی خطاب کو سنا اور درخواست کی کہ اس کا مالائی زبان میں ترجمہ کیا جائے، تاکہ اسے ہمارے ملک کی وزارتوں، متعلقہ اداروں، مساجد اور اسلامی اداروں تک پہنچایا جا سکے۔ اس خطاب میں وہ باتیں کی گئی ہیں جو اس کانفرنس میں زیر بحث آنی چاہئیں، یعنی "اگلا قدم" کیا ہوگا، اور ہمیں اس بات کو حقیقت میں کیسے تبدیل کرنا ہے تاکہ اس اہم کام سے پوری امت فائدہ اٹھا سکے۔"
جناب انور ابراہیم نے اس بات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ملائیشیا اسلامی - اسلامی مکالمہ کانفرنس کے تمام نتائج کی حمایت کے لیے تیار ہے اور اس کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچانے اور اس کی تشہیر کرنے کی ضمانت دیتا ہے، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک امت کی یکجہتی کے لیے کام کرنے اور تفرقہ و انتشار کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ مزید فرمایا: "آپ کا بلند مقام بہت اہم ہے، اور دنیا بھر میں آپ کا احترام اور قدر کی جاتی ہے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مقام کو استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم مسلمانوں کو مکالمہ اور تمام اسلامی مسالک کے درمیان قریب آنے کی اہمیت کے بارے میں قائل کر سکیں، اور ہر اس شخص کے لیے دروازے بند کر سکیں جو امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اس کے مقاصد سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔"
اپنی طرف سے، عزت مآب امام اکبر نے فرمایا: "مسلمانوں کا اتحاد ہی امت کے استحکام اور ترقی کا واحد حل ہے، اور اسی سے امت کو دوبارہ اپنی خوداعتمادی حاصل ہوگی، نیز یہ اسے ہر قسم کے بحران کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دے گا، چاہے وہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کانفرنس کا انعقاد کیا جو علمی پہلوؤں کو چھوتی ہے اور دوسروں کے نظریات کو سمجھنے سے متعلق ہے، جو کہ ایک اہم اور اثر انداز پہلو ہے، جو ان لوگوں کے ذہنوں میں دوسروں کے تصور کو متاثر کرتا ہے جو مختلف مسالک پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ وہ پہلو ہے جو امت کو امن کی طرف لے جانے، رویوں کو متاثر کرنے، اور اسلامی فکر کے تمام مکاتب کے درمیان ہم آہنگی، مکالمہ اور اتحاد کے خیالات کو اپنانے میں کامیاب ہے، نیز ان حالات کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جہاں دین کو سیاست اور جھگڑوں میں استعمال کیا جاتا ہے جو عوام کی وحدت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ علمی کمیونٹی مکالمے کے اصولوں اور قواعد کو وضع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ کے لیے سیاستدانوں کی طرف سے مناسب طریقہ کار کی ضرورت ہوگی۔
 
شیخ الأزہر نے اس بات پر زور دیا کہ کوششوں کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے اور علمائے دین اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان مکالمے کے راستے کھولنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اخوت اور امت کے مستقبل کو وقتی سیاسی مفادات پر فوقیت دینی چاہیے، اور مسلم دنیا کو ایک متحد منصوبہ پر جمع کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اتحاد وہ دیوار ہے جس میں کوئی بھی شخص ایک کیل بھی نہیں ٹھوک سکے گا، اور اس کے بغیر کوئی بھی فریق ترقی اور قوت کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اختلافات ایک بیماری اور کمزوری ہیں جن کا علاج صرف اتحاد، مکالمہ اور مشترکہ منزل کے بارے میں ایمان ہے جو تمام امت کے افراد کو یکجا کرتا ہے۔ انہوں نے فلسطین اور غزہ کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اب معصوم لوگوں اور بچوں کے ساتھ (16) ماہ سے زیادہ عرصہ سے ہو رہا ہے، اور فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے منصوبے ہو رہے ہیں، یہ سب کچھ اس صورت میں نہیں ہوتا اگر اسلامی وحدت حقیقتاً موجود ہوتی۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025