شیخ الازہر کا اقوام متحدہ میں خطاب: اسلاموفوبیا ایک غیر معقول، غیر منطقی رجحان ہے جو عالمی امن کے لیے حقیقی خطرہ بن چکا ہے
شیخ الازہر نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اسلام سے متعلق "منصفانہ" باتوں پر شکریہ ادا کیا
شیخ الازہر کا اقوام متحدہ میں خطاب: اسلاموفوبیا، اسلام کی حقیقت سے لاعلمی اور دانستہ مسخ کاری کا نتیجہ ہے
شیخ الازہر کا اقوام متحدہ میں خطاب: تاریخ گواہ ہے کہ "اسلام" سراپا امن کا دین ہے، اس کی دعوت تعارف، ہم آہنگی اور تصادم کی نفی پر قائم ہے
شیخ الازہر نے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سرایت کرتی نفرت انگیز تقاریر کے مقابلے کی اپیل کی
اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران امامِ اکبر نے بین المذاہب مکالمہ اور انسانی اخوت کے فروغ میں الازہر اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کی کوششیں بیان کیں
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں "عالمی یومِ انسدادِ اسلاموفوبیا" کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: "اس عالمی دن کا قیام ان ستودہ کوششوں کا ثمر ہے جو اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کے گروپ نے اسلاموفوبیا جیسے غیر منطقی، غیر معقول اور تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف کیں، جو کہ اب عالمی امن کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔"
شیخ الازہر کی طرف سے یہ خطاب سفیر اسامہ عبد الخالق، اقوام متحدہ میں مصر کے مستقل مندوب، نے پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوتیرش کے حق گو اور باوقار موقف کو سراہتے ہوئے ان کے اس بیان پر شکریہ ادا کیا جس میں انہوں نے اسلام کے متعلق انصاف پسند اور علم پر مبنی خیالات کا اظہار کیا۔ شیخ الازہر نے کہا: کہ اس طرح کے معتدل اور علم پر مبنی بیانات اسلاموفوبیا جیسے مظاہر کا تدارک کرتے ہیں اور ان ذہنی رویوں کا سدباب کرتے ہیں جو اندھی تقلید اور بگڑی ہوئی ذہنی تصویروں کی بنیاد پر اسلام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان منفی تصورات کو اکثر اوقات انتہا پسند دائیں بازو کی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
شیخ الازہرنے کہا کہ ’’اسلام‘‘، ’’سلام‘‘ ہی سے ماخوذ ہے، اور اس کی تعلیمات محبت، رحم، رواداری اور انسانی اخوت پر مبنی ہیں
شیخ الازہرنے وضاحت کی کہ "اسلام" کا لفظ خود عربی میں "سلام" (امن) سے مشتق ہے، اور یہ نام اس عظیم دین کی انہی اعلیٰ اقدار کا مظہر ہے، جو رحمت، محبت، بقائے باہمی، رواداری اور تمام انسانوں کے درمیان بھائی چارے پر قائم ہے، خواہ ان کے رنگ، نسل، عقیدہ، زبان یا جنس کچھ بھی ہو۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں فرمائی: {اور ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا} ۔ [انبياء: 107] یہ آیت اسلام کے پیغام کا خلاصہ ہے، جو عدل، اخوت اور انسانی مساوات کی اعلیٰ اقدار کو سربلند کرتی ہے، اس بنیاد پر کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ شیخ الازہر نے مزید کہا کہ: اس دین کی سماحت اور کشادہ دلی کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ مسلمان کئی صدیوں تک دوسرے ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کے ساتھ جیتے رہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: ﴿دین میں کوئی جبر نہیں﴾ [البقرة: 256] تاریخ گواہ ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اس کی دعوت تعارف، تعاون اور ہم آہنگی کی ہے، نہ کہ تصادم اور تفرقہ کی۔ اور یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ مشرق و مغرب کی کئی اقوام نے صدیوں تک کیا، اور اسلام کو اپنی شناخت اور پیغام کا حصہ بنایا۔
شیخ الازہر نے کہا کہ: اسلاموفوبیا درحقیقت اس دین عظیم کی حقیقت اور اس کی رحمت و سماحت سے جہالت کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ ایک منظم مہم ہے جس میں اسلام کے اصولِ امن و رواداری کو جان بوجھ کر مسخ کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ان میڈیا مہمات اور انتہا پسند دائیں بازو کے بیانیے کا شاخسانہ ہے، جو اسلام کو تشدد اور شدت پسندی کا دین ظاہر کرتے ہیں حالانکہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دین جو اپنے پیروکاروں کے ایمان کی تکمیل انسانیت کے تعارف و تعاون کے اصول پر کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اے لوگو ہم نے آپ کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو﴾ ۔[حجرات: 13] وہ دین دہشتگردی یا خونریزی کا دین کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا حق اور انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ اسلام کو اس کے اصل نام سے پکارا جائے دینِ رحمت، دینِ رواداری، دینِ تعاون کا دین نہ کہ اس (دین) سے اور اس کے پیروکاروں سے خوف ایک ایسا مرض بن جائے جس کے لیے ہسپتال اور نگہداشت کے ادارے مخصوص کیے جائیں۔
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ عالمی حالات جن میں جنگیں، تصادم، نفرت انگیز بیانیے، تعصب اور امتیاز تیزی سے بڑھ رہے ہیں — ہمیں متحد ہونے، جہالت، تکبر اور نفرت کے ملبے پر افہام و تفہیم کے پل تعمیر کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اورآج مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان مکالمہ کوئی عیش نہیں بلکہ ایک وجودی ضرورت ہے، جو انسانیت کو جہالت اور بدفہمی کے گڑھے سے نکال سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہماری باتیں ان لوگوں کے لیے پُل بنیں جو اسلاموفوبیا کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ہم اعتدال کے پیغام کے ساتھ دوسروں کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔"
شیخ الازہر نے سوشل میڈیا اور میڈیا میں روزمرہ کی نفرت انگیز تقاریر اور رویّوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا: ہمیں چاہیے کہ ہم مکالمے، رواداری اور بقائے باہمی کے بیانیے کو بلند کریں، اور مل کر ایسے قوانین اور آگاہی مہمات پر کام کریں جو سماجی شعور کی زمین میں رواداری کے بیج بو سکیں، اور باہمی احترام کی ثقافت کو فروغ دے سکیں۔
آپ نے کہا کہ: مسلمانوں کے عقیدے کا مرکزی جزو یہ ہے کہ مذہبی اور ثقافتی تنوع، خالق کی حکمت کا مظہر ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ﴿ اگر آپ کا رب چاہتا تو سارے لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ﴾ [هود: 118] یہ تنوع کوئی جھگڑے کا باعث نہیں، بلکہ خوشحالی اور فکری ثروت کا ذریعہ ہے۔ اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ہر انصاف پسند انسان کی ذمہ داری ہے، جس کا دل عدل و محبت سے دھڑکتا ہے۔
امام الأکبر نے اپنی تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر الشریف — جو اسلام کی تاریخی علمی مرجعیت اور اعتدال و وسطیت کا عالمی مینار ہے اور اس کے ساتھ مسلم کونسل آف ایلڈرز جس کی صدارت بھی آپ کے پاس ہے نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے خطرے پر بہت پہلے ہی سے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ ان دونوں اداروں نے مشترکہ طور پر مشرق و مغرب کے درمیان مکالمے کے دروازے کھولنے کی سمت پیش قدمی کی، جس کا نقطۂ عروج وہ تاریخی دستاویز تھی جو "وثیقۃ الأخوۃ الإنسانیۃ" (انسانی اخوت کا میثاق) کے نام سے ۲۰۱۹ء میں ابوظہبی میں جاری ہوئی، جس پر شیخ الازہر اور پوپ فرانسس نے دستخط کیے۔ یہ صرف ایک دستاویز نہ تھی، بلکہ اس کے ساتھ عالمی فکری کانفرنسیں، علمی قافلوں کی دنیا بھر میں روانگی، اور ایسے مبلغین اور طلبہ کی تیاری شامل ہے جو پوری دنیا میں اسلام کے رحمت اور رواداری کے پیغام کو لے کر امن کے سفیروں کے طور پر گئے، ۔ یہ سب کچھ اس پیغام کے ساتھ تھا کہ نفرت انگیزی اور خوف پھیلانے والے بیانیے ناقابلِ قبول ہیں، اور اصل پیغام ہے انسانی بقائے باہمی، مکالمہ، اور مثبت شراکت — نہ کہ تصادم یا محاذ آرائی۔
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ : اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی ان کوششوں میں ایک بڑی پہل الازہر آبزرویٹری برائے انسدادِ انتہا پسندی کا قیام تھا، جو کہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لیے اسلام کی درست تفہیم اور انتہا پسند نظریات کے خلاف علمی و فکری محاذ ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف انتہا پسند تنظیموں اور دہشتگرد گروہوں کے بیانیوں کی تردید کرتا ہے بلکہ اسلاموفوبیا کے تحت مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ و تجزیہ کرتا ہے، اور دنیا بھر میں اس کے خلاف مثبت مداخلت کو فروغ دیتا ہے۔ تاہم، شیخ الازہر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ: تمام کوششوں کے باوجود، اسلاموفوبیا کا دائرہ مزید پھیل رہا ہے، اور انتہا پسند دائیں بازو کی پاپولسٹ تقاریر اس کو ہوا دے رہی ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ جنگ طویل المدت ہے، اور ہم سب کو اپنی کوششیں دوگنی کرنی ہوں گی، اور نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے جو اس پیچیدہ مسئلے سے ہم آہنگ ہوں۔
شیخ الازہر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ: اسلاموفوبیا کی بین الاقوامی تعریف طے کی جائے، جس میں ایسے الفاظ اور اعمال کو واضح کیا جائے جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف صرف ان کے دینی پس منظر کی بنیاد پر نفرت، خوف یا تشدد پر اکساتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے تجویز دی کہ ایک جامع اور باقاعدہ ڈیٹا بیس قائم کیا جائے جو ان مظالم اور نسلی امتیاز کی بیخ کنی کرے جو مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں؛ ایسے قوانین اور پالیسیز کی نگرانی کی جائے جو اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں یا اس کے حل میں مدد دیتے ہیں؛ اور ایسے قانونی و تشریعی اقدامات کیے جائیں جو اس مظہر کو روکتے ہوں، اور اس کی جگہ مکالمہ، رواداری اور انسانیت کی اقدار کو فروغ دیتے ہوں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر شیخ الازہر نے کہا: اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ صرف نعرہ بازی نہیں بلکہ عملی، جاری، اور مربوط جدوجہد ہے، جس کا دائرہ تعلیم، مکالمہ، میڈیا اور قانون سازی تک پھیلتا ہے — اور اس کا ہدف ہے انسانی وقار کا تحفظ ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ آئیے ہم سب، حکومتیں اور تنظیمیں مل کر ایک عالمی مانیٹرنگ سسٹم تیار کریں، جو ان کوششوں کی مؤثر جانچ کر سکے، اور کارکردگی کے اشاریے فراہم کرے، تاکہ ہم ایسا دنیا بنا سکیں جہاں عدل، بقائے باہمی، اور بھائی چارہ ہو، اور جہاں انسان انسان کا بھائی ہو۔