امام طیب: اللہ کا کرم مطلق ہے، جس میں کوئی کمی یا نقص نہیں... جبکہ انسان کا کرم نفس کی کمزوریوں اور شیطان کے بہکاوے سے محدود ہوتا ہے
امام الطیب نے خالق کے عطا کردہ انعامات پر انسان کے مغرور ہو جانے سے خبردار کیا… اور اس بات پر زور دیا: "اللہ حساب بھی لیتا ہے اور نگرانی بھی کرتا ہے"۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے آج پروگرام "الإمام الطیب" کی پندرہویں قسط میں اللہ کے صفاتی نام "الکریم" کی تفصیلی وضاحت پیش کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ "الکریم" اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جن کا ذکر قرآن کریم اور سنت نبوی میں واضح طور پر آیا ہے، اور جن پر تمام مسلمان متفق ہیں۔
آپ نے وضاحت کی کہ قرآن کریم میں اللہ کا نام "الکریم" صراحت کے ساتھ آیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے} اسی طرح احادیثِ نبویہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ عزوجل کا اسم "الکریم" ہے، وہ اعلیٰ اخلاق کو پسند کرتا ہے اور گھٹیا صفات کو ناپسند کرتا ہے۔ یہاں "سفساف" سے مراد معمولی اور گھٹیا کام ہیں۔
شیخ الازہر نے بتایا کہ "کریم" اسم فعیل کے وزن پر ہے، جو بعض اوقات "مفعول" کے معنی دیتا ہے (جیسے "مُکْرَم")، نہ کہ "فاعل" (یعنی دینے والا)، اور شریعت نے یہی نام اختیار کیا ہے، نہ کہ اس کا ماخوذ "کارم"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمائے حسنیٰ کو اسی شکل میں لینا چاہیے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں، کیونکہ ان میں انسانی عقل کی مداخلت جائز نہیں۔
اُنہوں نے قاضی ابوبکر ابن عربی کی کتاب "الأمد الأقصى" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں "کریم" کے سولہ (16) مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے کئی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب ہیں، جیسے: "خیر کثیر دینے والا"، "فوراً عطا کرنے والا"، "ہر عیب سے پاک"، اور "بغیر کسی بدلے کے عطا کرنے والا"۔ البتہ ایک معنی ایسا ہے جو اللہ کے شایانِ شان نہیں، وہ ہے: "ایسا دینے والا جو بدلے یا احسان مندی کی توقع رکھے"۔ انہوں نے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ جب عطا فرماتا ہے تو نہ کسی شکر کے انتظار میں ہوتا ہے اور نہ کسی احسان کا تقاضا کرتا ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے امامِ اکبر نے کہا کہ انسان کا کرم محدود ہوتا ہے، کیونکہ وہ نفس کی کمزوریوں اور شیطان کے بہکانے کے درمیان جھولتا ہے، بخل اور سخاوت کے درمیان کشمکش میں مبتلا رہتا ہے، جبکہ اللہ کا کرم مطلق ہے، جو اس کی ذات کا لازمی وصف ہے، جس میں کسی قسم کا نقص یا کمی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا کرم صفاتِ جلال اور صفاتِ افعال کو جمع کرتا ہے، جبکہ انسان کا کرم وقتی، حالات و جذبات پر منحصر ہوتا ہے۔ امامِ طیب نے اہل ایمان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے کرم سے دھوکہ نہ کھاؤ، کیونکہ اللہ نہ صرف عطا کرنے والا ہے بلکہ وہ محاسب اور نگران بھی ہے۔ اُنہوں نے کہا: "یہ کرم تمہیں غرور میں مبتلا نہ کرے، کیونکہ اللہ حساب بھی لیتا ہے اور نگرانی بھی کرتا ہے"۔
یعنی اللہ کی رحمت اور اس کا عدل، دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اور ایک مؤمن کو ان کے درمیان توازن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔