شیخ الازہر کی برطانیہ کی رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز کے وفد سے ملاقات

شيخ الأزهر يلتقي وفد الكلية الملكية لدراسات الدفاع بالمملكة المتحدة .jpg

شیخ الازہر: غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری مظالم ایسے وحشیانہ جرائم ہیں جن کا تصور بھی قرونِ وسطیٰ میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔
شیخ الازہر: جو گروہ مذہب کی غلط فہمی کی بنیاد پر تشدد کرتے ہیں، وہ کرائے کی بندوق کی مانند ہیں، کبھی اِس کے لیے،  اور کبھی اُس کے لیے کام کرتے ہیں۔
شیخ الازہر: امن، افہام و تفہیم، اور بھائی چارہ ازہر کے پیغام کا جوہر ہے، اور یہی پیغام ہم اپنے طلبہ کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بدھ کے روز، عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز کے وفد کا خیر مقدم کیا، جس کی قیادت جناب فلپ بارہم کر رہے تھے، جو کالج کے سینئر ترین ڈائریکٹرز میں سے ہیں۔
شیخ الازہر نے وفد کو مشیخہ الازہر میں خوش آمدید کہا اور وضاحت کی کہ ازہر الشریف گزشتہ 1080 برسوں سے دنیا بھر سے آئے ہوئے طلبہ کو اسلام کی صحیح تعلیم دینے کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ اعتدال پسند نصاب کی وجہ سے، ازہر کا پیغام امن، افہام و تفہیم اور بھائی چارے پر مبنی ہے، اور یہی پیغام ہم اپنے طلبہ کے دلوں میں بٹھاتے ہیں، جو انہیں دینِ اسلام کی صحیح تعلیم دیتا ہے اور انتہاپسند افکار سے محفوظ رکھتا ہے۔
امام اکبر نے وضاحت کی کہ ازہر ہر ایک کے لیے کھلا ہے اور اندرون و بیرون ملک تمام دینی اداروں کے ساتھ تعاون کر چکا ہے۔ اس کی ابتدا مصری کلیساؤں کے ساتھ "بیت العائلة المصریة مصری فیملی ہاؤس" کے قیام سے ہوئی، جس کے سائے میں تمام کلیساء ازہر شریف کے ساتھ مل گئے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگیوں پر قابو پانے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ مصری اور مشرقی  کلیساؤں کے باہمی تعاون کے نتیجے میں "اقلیت" کا لفظ ختم کر کے "شہریت" کا تصور اپنایا گیا، جو ازہر کی عالمی کانفرنس "آزادی اور شہریت... تنوع اور تکامل" کے اہم نتائج میں سے ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ انہوں نے مغربی کلیساؤں سے بھی روابط قائم کیے، جیسا کہ انہوں نے کینٹربری، ویٹی کن اور ورلڈ کونسل آف چرچز کا دورہ کیا، اور ان اداروں کے ساتھ تعمیری معاہدے کیے۔ انہی معاہدات کے نتیجے میں 2019ء میں پوپ فرانسس کے ساتھ "انسانی اخوت کی دستاویز" پر دستخط ہوئے، جو آج کی دنیا کے مسائل کا مؤثر حل پیش کرتی ہے اگر اس کی دفعات کو صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے۔
شیخ الازہر نے یہ بھی وضاحت کی کہ ازہر کا اعتدال پسند اور وسطیت پر مشتمل منهج دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ ازہر میں اس وقت 110 ممالک کے 60 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جو صحیح فقہ اور شرعی علوم حاصل کر کے اپنے ممالک میں واپس جا کر امن، رواداری اور انتہاپسند نظریات کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ شیخ الازہر نے تشدد پر مبنی مذہبی فہم کے حامل گروہوں کو "کرائے کی بندوقوں" سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ نہ اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ کسی اصول پر قائم ہوتے ہیں، بس موقع کی مناسبت سے رخ بدلتے ہیں۔
آخر میں، امام اکبر نے وفد کے ارکان کے سامنے دنیا بھر میں جاری بے مثال بدامنی، جنگوں، قتل و غارت پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ اس کا سبب انسانی اقدار کا خاتمہ ہے  کہ دنیا آج ایک جنگل بن چکی ہے، جہاں طاقتور کمزور کو نگل جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال غزہ میں جاری وہ وحشیانہ جرائم ہیں، جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے مسلسل جاری ہیں ایسے جرائم جن کا تصور بھی قرونِ وسطیٰ میں نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن آج یہ سب کچھ ترقی یافتہ دور میں، انسانی حقوق کے نعرے لگانے والی دنیا کے سامنے ہو رہا ہے، اور ان نعروں کا کھوکھلاپن ظاہر ہو چکا ہے۔
وفد کے ارکان نے ازہر شریف میں موجودگی پر اپنی دلی خوشی کا اظہار کیا اور مشرق و مغرب کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے، مکالمے کی بنیاد رکھنے، اور مختلف ادیان و ثقافتوں کے لوگوں میں امن و ہم آہنگی کی ترویج کے لیے شیخ الازہر کی کوششوں کو سراہا۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025