غزہ کا مسئلہ اور وہاں برپا ہونے والی جنگ و تباہی وہ معاملہ ہے جس پر عرب میڈیا کو صبح و شام مرکوز رہنا چاہیے۔
شیخ الازہر: انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم غزہ کے واقعات پر یورپی ممالک کے بدلتے موقف کو سراہیں اور ان کے انسانی ضمیر کی بیداری کو خراجِ تحسین پیش کریں۔
بہت سی گمراہ کن میڈیا تصاویر ہمارے ممالک میں انہی لوگوں کے ہاتھوں داخل ہوئیں جو ہم میں سے ہیں مگر جعلی ثقافتوں کو فروغ دیتے ہیں۔
"اسلاموفوبیا" ایک خیالی خوف ہے، ایک وہم ہے جسے اسلام کی شبیہ بگاڑنے اور اس کے اصولوں کو گرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
میڈیا اہلکاروں پر لازم ہے کہ وہ مغربی زہرآلود میڈیا مہمات کا مقابلہ کریں اور ہمارے نوجوانوں کو فکری غلامی اور ثقافتی انحلال سے بچائیں۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی کو اخلاقی ذمے داریوں اور پیشہ ورانہ اصولوں کے حصار میں رکھنا ضروری ہے، ورنہ یہ ایک درندہ بن کر انسانیت کو نگل سکتا ہے۔
شیخ الازہر نے عرب میڈیا فورم میں خطاب کرتے ہوئے فلسطینی صحافیوں کی قربانیوں کا ذکر کیا، جنہوں نے سچ کی حرمت اور کلمۂ حق کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
غزہ میں صحافیوں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا تاکہ سچائی کی آواز کو خاموش کیا جا سکے، اور ظلم کی گواہ تصاویر دنیا سے چھپائی جا سکیں۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف ، چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے منگل کے روز دبئی میں منعقدہ "عرب میڈیا سربراہی اجلاس" کی افتتاحی تقریب میں خطاب کیا۔ جو متحدہ عرب امارات کی میزبانی اور نائب صدر، وزیراعظم، اور دبئی کے حاکم، شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کی سرپرستی میں منعقد ہوا اس میں مختلف عرب میڈیا رہنماؤں نے شرکت کی۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف ، چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے اپنی تقریر میں امید ظاہر کی کہ یہ اجلاس ایک قابلِ عمل اور مشترکہ عرب میڈیا حکمتِ عملی تیار کرنے میں کامیاب ہوگا، جو اس امت کی حقیقت، اس کے درد و الم اور مصیبتوں کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اور ہمارے نوجوانوں کی حفاظت کی طاقت رکھتی ہو، جو عنقریب اُن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے جال میں پھنسنے والے ہیں، جو ان کے جذبات اور احساسات کو کنٹرول کرتے ہیں، اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ انہیں اپنی امت کی حقیقت اور اس کے چیلنجز کا سامنا کرنے سے غافل رکھا جائے۔ بلکہ یہ پلیٹ فارم ان کے بُرے اعمال کو خوشنما بنا کر پیش کرنے لگے ہیں، اور بہت سوں کے ذہنوں میں نیکی و بدی، فضیلت و رذالت کے درمیان کی حدیں مٹانے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ دلکش مگر فریب پر مبنی نعرے بیچتے ہیں، جیسے: ترقی، کشادگی، آزادی، جدت، رجعت پسندی، تاریکی اور پسماندگی کو ترک کرنا۔ ایسے نعروں نے ہماری سرزمین کو بہت سی سماجی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے، جنہوں نے عمومی ذوق اور فطری سچائی پر منفی اثرات ڈالے ہیں، اور جن کی وجہ سے حسن و قبح اور درست و غلط کے پیمانے بگڑ چکے ہیں۔
شیخ الازہر نے اس بات کی تاکید کی کہ عربوں اور مسلمانوں کو اُن پیغامات اور میڈیا رپورٹس کی وجہ سے شدید تکلیف اٹھانا پڑی، جنہوں نے مغرب کی نظر میں ان کی شبیہ کو مسخ کر دیا۔ ان رپورٹس نے اسلام کو ظلم و تشدد، انتہاپسندی، اور عورت پر ظلم کے ساتھ جوڑ دیا، اور اسے جھوٹ اور بہتان کے ساتھ ایک "سماجی تحریک" یا "سیاسی نظریہ" کے طور پر پیش کیا، جو تشدد، تعصب، نفرت اور عالمی نظام کے خلاف بغاوت کی دعوت دیتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مغربی میڈیا نے ان جھوٹے دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اور آج تک ان کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس بات کی گواہی میں انہوں نے فلسطینی نژاد منصف اور مسیحی مفکر و مصنف، ڈاکٹر ایڈورڈ سعید کی شہرۂ آفاق کتاب " تغطية الإسلام" کا حوالہ دیا، جس میں وہ مغربی میڈیا کے اسلام کے ساتھ برتاؤ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تفصیلی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مشکل ہی سے کوئی ٹیلی وژن پروگرام ایسا ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کی نسل پرستانہ اور توہین آمیز دقیانوسی تصویریں شامل نہ ہوں؛ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو تمام مسلمانوں اور خود اسلام کا نمائندہ سمجھ لیا جاتا ہے۔"
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بہت سی گمراہ کن تصویریں اور خیالات عرب اور مسلم ممالک میں دراندازی کر چکی ہیں، جن کے اثرات منفی طور پر اور فکری استحصال کی صورت میں ہمارے عربی میڈیا کے بیانیے پر نمایاں طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ اس منصوبے کے لیے ہماری ہی قوم سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کو استعمال کیا گیا، جنہوں نے ایک جعلی ثقافت کو فروغ دینے میں مہارت حاصل کی، جو ہر اس چیز پر تنقید کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہے جو عربی الاصل یا اسلامی فکر و نظریے کی حامل ہو۔ یہ روش موجودہ چیلنجز کو اور بھی سنگین بنا رہی ہے، جن میں سرِفہرست وہ خلیج ہے جو ہمارے معاصر شعور اور ہمارے اُس علمی و تہذیبی ورثے کے درمیان پیدا ہو چکی ہے، جو کچھ عرصہ قبل تک ہماری عزت، فخر اور ان عناصر کے خلاف مزاحمت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا جو اس امت کے ماضی اور حال سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور اُن مسائل کے حوالے سے جو عربوں اور مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں، امامِ اکبر نے کہا: کہ "میرا نہیں خیال کہ کوئی منصف انسان چاہے وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں اس بات میں شک کرے گا کہ وہ مسئلہ جسے عربی میڈیا کو صبح و شام مرکزِ توجہ بنانا چاہیے، وہ مسئلہ "غزہ" کا ہے؛ اور وہ تباہی و بربادی جو اس سرزمین پر نازل ہوئی، اور وہ ہولناک خلاف ورزیاں جو وہاں ہوئیں، جنہیں دنیا بھر کے عوام نے مسترد کیا، اور اب بھی رد کر رہے ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں – یہ سب کچھ لگاتار انیس مہینوں سے جاری ہے۔" آپ نے اس بات پر زور دیا کہ عرب میڈیا پر ایک نہایت اہم اور تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہ وہ اہلِ زمین اور اہلِ حق پر ہونے والے ظلم کو مسلسل دنیا کے سامنے لاتا رہے، اس مظلوم قوم کے عزم، استقامت، اور اپنے وطن سے وابستگی کو اجاگر کرے، اور فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں ایک زندہ اور روشن مشعل کی صورت میں برقرار رکھے۔ اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم ان مثبت تبدیلیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کا خیر مقدم کریں، جو آج ہم یورپی یونین کے کئی ممالک کے موقف میں غزہ کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں؛ اور ہم ان کے بیدار انسانی ضمیر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
شیخ الازہر نے جارحیت کی مشین کے خلاف ڈٹے ہوئے عرب موقف کو سلام پیش کیا، اور اُن کوششوں کو سراہا جو فوری طور پر فائر بندی کے لیے، اور انسانی و امدادی سامان کی ترسیل کے لیے کی جا رہی ہیں – اگرچہ قابض قوت کا غرور و تکبر ان راہوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے اُن تمام آزاد ضمیر رکھنے والے افراد کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا، جو غزہ میں پیش آنے والے واقعات کو ایک انسانی المیہ سمجھتے ہیں، جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم آج بھی شدت سے منتظر ہیں اُن منظم اور بھرپور میڈیا مہمات کے، جو اس مصنوعی اور ناپاک رجحان اسلاموفوبیا کے خلاف کھڑی ہوں، اور مغربی معاشروں میں اس کے تباہ کن اثرات کا مؤثر انداز میں مقابلہ کریں۔ اگرچہ اسلاموفوبیا محض ایک وہم یا بیمار ذہن کی اختراع ہے، جس سے خوف و ہراس کی فرضی کہانیاں گھڑ کر اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی، اور اس کے اُن اصولوں کو مشکوک بنانے کی سعی ہوئی جو امن، بقائے باہمی، اور زندگی کے ہر شعبے کے احترام پر مبنی ہیں – چاہے وہ انسان ہو، جانور، پودا یا بے جان اشیاء۔ اسلامی شریعت نے ان سب کے لیے جو حقوق متعین کیے ہیں، ان کی نظیر کسی معاصر قانون، نظام یا پالیسی میں نہیں ملتی، حالانکہ انہی قوانین کے علمبردار ہمیں اکثر ان چیزوں کی کمی کا طعنہ دیتے رہے۔ مگر جب غزہ کے عوام پر آفت نازل ہوئی، تو وہ تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے، نقاب اُتر گیا، اور اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا؛ بلکہ جو کچھ اب تک چھپا ہوا تھا، وہ اس سے بھی زیادہ ہولناک اور خطرناک نکلا۔
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا کی مہمات صرف اسلام کی شبیہ بگاڑنے تک محدود نہیں رہیں، اور نہ ہی صرف اُس عظیم تہذیب و تمدن کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اسلام کے زیرِسایہ پروان چڑھی ایک ایسی تہذیب جس کی قدر و قیمت اور انسانیت کی فکری و علمی ترقی میں اس کے کردار کو خود مغربی دنیا بخوبی جانتی ہے بلکہ ان حملوں نے ایک اور سنگین رخ اختیار کر لیا ہے: مشرق کی تہذیب، اس کے اخلاقی اصولوں، اور انسانی و خاندانی بنیادوں پر قائم معاشرتی ڈھانچے پر حملہ۔ ان مہمات میں سب سے پہلے شخصی آزادی کے نعرے کو بنیاد بنایا گیا، چاہے اس کا نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی، اس کی شکل و صورت میں تبدیلی، یا اسے دیگر ایسے نظاموں سے بدلنے کی صورت میں نکلے جو بچوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہیں، اور ان اعمال کو جائز قرار دیتے ہیں جنہیں نہ صرف تمام الہامی مذاہب نے حرام قرار دیا ہے، بلکہ فطرتِ انسانی اور عالمی انسانی روایات بھی ان سے نفرت کرتی ہیں۔ یہی مہمات مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے نکاح جیسی باتوں کو عام کرنے لگیں، اور ساتھ ہی الحاد کی ترغیب، اور فطری دین داری کے خلاف بغاوت کو بھی جائز اور فطری دکھانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ قوت، خودمختاری، اور عربی و اسلامی تشخص پر فخر کے تمام سرچشموں کو خشک کر دیا جائے۔ یہ سب یا اس کا کچھ حصہ بھی ہمیں، بالخصوص میڈیا سے وابستہ افراد کو، اس امانت کا احساس دلاتا ہے کہ ہم سنجدگی سے غور کریں کہ ہم اس زہریلی یلغار کا کیسے مقابلہ کریں، اور اپنے نوجوانوں اور اپنے وطنوں کو اُن عوامل سے کیسے بچائیں جو ہمیں فکری طور پر غلام بنانے، مٹا دینے، اور ہماری شناخت کو گُھلا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمارے موجودہ دور میں تکنیکی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں، بالخصوص مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے میدان میں جو تیز رفتار ترقی ہو رہی ہے، اُسے اخلاقی ذمہ داری اور پیشہ ورانہ اصولوں کی باڑ میں مقید کرنا نہایت ضروری ہے؛ تاکہ یہ ترقی کہیں ایک بے قابو درندے کی صورت اختیار نہ کر لے، جو پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری ماہرین اور قانون سازوں پر عائد ہوتی ہے، اور انہی پر لازم ہے کہ وہ ان ٹیکنالوجیز کی نگرانی کریں تاکہ یہ اپنے صحیح اور فطری مقاصد سے منحرف نہ ہوں۔ اور یہ سب ایسے انسانی اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے جو ہر قسم کی بالادستی، تسلط اور ثقافتی یلغار سے پاک ہوں۔ شیخ الازہر نے اس ضمن میں اس منصوبے کا بھی ذکر کیا، جو وہ مرحوم بھائی، پوپ فرانسیس کے ساتھ مل کر شروع کر چکے تھے، جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے اخلاقی اصولوں پر مشتمل ایک جامع دستاویز تیار کرنا تھا۔ یہ دستاویز تقریباً منظرِ عام پر آنے ہی والی تھی، مگر قدرت نے پوپ کے انتقال کے ساتھ کچھ اور ہی ترتیب چاہی۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ویٹیکن کے نئے دور میں بھی اس اہم منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے رابطے اور تعاون جاری ہے۔
شیخ الازہر نے اپنی تقریر کے اختتام پر فلسطینی صحافیوں اور دیگر اُن اہلِ صحافت کی الم ناک قربانیوں کو یاد کیا، جنہیں تقدیر نے اس راستے پر لگا دیا کہ وہ "کلمے کی حرمت، سچائی کی عظمت، اور بغیر کسی فریب یا تحریف کے حقیقت کا عکس دکھانے کی قیمت اپنی جان سے چکائیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی سرزمین پر 200 سے زائد صحافی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ درجنوں دیگر شدید زخمی ہوئے، کچھ کے اعضاء کاٹ دیے گئے، کچھ کے گھر تباہ ہوئے، بعض نے اپنے پورے خاندان کھو دیے، اور کئی کے خاندان بے گھر ہو گئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں صحافیوں کو دانستہ نشانہ بنانا ایک منظم عمل ہے، جس کا مقصد حقیقت کی آواز کو خاموش کرنا ہے؛ وہ تصویر مٹانا ہے جو جارحیت کی درندگی کو بے نقاب کرتی ہے؛ شواہد کو دفن کرنا ہے؛ انصاف کو دھوکا دینا ہے؛ اور ان جرائم کی دستاویزی حیثیت کو مٹانا ہے، جو دن رات انسانیت کے خلاف سرزد ہو رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر، امام اکبر نے میڈیا سے وابستہ ہر فرد سے اپیل کی کہ وہ اس عظیم پیشے کی حرمت کو پہچانے، اور آگے بڑھ کر ایک مربوط عرب میڈیا حکمتِ عملی کی تشکیل میں حصہ لے ایسی حکمتِ عملی جو حق کی حفاظت کا ہتھیار ہو،امت کی اقدار کی محافظ ہو، اور اس کی شناخت کی پاسبانی کرے۔