خاتون " شہید علم" طالبہ اسماء الرفاعی
"میں اس معاملے پر ازخود نظر رکھوں گا یہانتک کہ مجرم کو سزا مل جائے" ان ہی کلمات سے شیخ الازہر نے اس وقت اپنے غم اور تکلیف کا اظہار کیا جب انہوں نے ازہر یونیورسٹی کی فیکلٹی آف نرسنگ کی تیسری جماعت کی طالبہ ( اسماء الرفاعی) کی وفات پر اس کے گھر والوں سے تعزیت کے لئے انہیں ٹیلیفون کیا، یہ طالبہ قاہرہ کی نصر سیٹی کے علاقے میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی تھی جس میں اس کی مقتول لاش پائی گئی، شیخ الازہر امام الطیب نے ازہر کے چانسلر کی صدارت میں ازہری قیادتوں پر مشتمل ایک سرکاری وفد کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مصری گورنریٹ دقہلیہ کے شہر المنصورة میں اس شہید طالبہ کی جائے پیدائش جاکر اس کے خاندان سے تعزیت کرے، اور جب شیخ الازہر کو یہ معلوم ہوا کہ یہ طالبہ بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم میں فوقیت بھی رکھتی تھی اور زندگی کی مشکلات پر قابو پانے اور اپنے خاندان کی مدد کرنے کے لئے تعلیمی سال ختم ہونے کے بعد قاہرہ میں رہ کر کام بھی کر رہی تھی تو امام اکبر نے تعلیمی فوقیت ، اخلاقی پابندی، استقامت اور گھروالوں کے ساتھ نیکی و بھلائی جیسی ان تمام چیزوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کی اعلی مثال قائم کرنے والی اس طالبہ کی قدر افزائی کے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اس کے والدین کو ازہر شریف کے خرچ پر حج کرایا جائے گا ، امام اکبر اس معاملے پر قریب سے نظر رکھ کر متعلقہ اطراف کے ساتھ رابطے میں رہے یہانتک کہ مجرم کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ قانون کے مطابق اپنے جرم کی سراپائے، اور اس طرح شیخ الازہر نے اپنا وہ وعدہ پورا کردیا جو انہوں نے " خاتون شہید علم" کے گھر والوں سے تعزیت کے دوران کیا تھا۔