فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر پروفیسر احمد الطیب نے میانمار میں ان روہنگیا مسلمانوں کی آہیں اور تکلیفیں سننے سے اپنے کان بند نہیں کئے جو بورما کے حکام کی طرف سے مذہبی ظلم وستم، جان سے مارنے، جلانے، جبری نقل مکانی اور نسل کشی جیسے ظلم و جور سے دو چار ہوئے اور اب بھی دوچار ہیں۔
چنانچہ امام اکبر نے بورمی حکام سے بات چیت کے ذریعےان کوبچانے اور ان کا مسئلہ حل کرنے کی بہت کوشش کی ، اور جنوری 2017 کے آغاز میں میانمار کے مذہبی رہنماؤں سمیت وہاں کے تمام ادیان و مذاہب اور نسلوں کی نمائندگی کرنے والی متعدد نوجوان قیادتوں کے ساتھ بات چیت کے متعدد راونڈ منعقد کئے جن میں قاہرہ میں متعین میانمار کے سفیر بھی شریک تھے تاکہ ایک ساتھ رہنے کی راہوں کے بارے میں بات چیت کی جائے، میانمار میں اختلاف کے اسباب سے واقف ہوا جائے اور اسے جڑسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اور روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو امن وسلامتی کی راہ پر رکھنے کے پہلے اقدام کے طور پر شہریوں کے مابین بقائے باہم اور شہریت کی بنیادیں راسخ کی جائیں۔
وہاں برسرپیکار نقطہائے نظر میں قربت پیدا کرنے کے لئے امام الطیب کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود ان کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا اور بورمی حکام نے ان تمام کوششوں کو پس پشت ڈال دیا، اور میانمار کے صوبہ راخین میں مسلمانوں کو جان سے مارنے کی کاروائیاں پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ واپس آگئیں۔
لیکن امام الطیب ان غیر انسانی خلاف ورزیوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں رہے بلکہ دنیا کے لئے ایک ویڈیو تقریر کی جس میں بورمی حکام کے ہاتھوں وہاں کے مسلم شہریوں کے خلاف جاری نسل کشی اور نسلی صفائی کی کاروائی اور غیر انسانی جرائم پرغم و غصہ ظاہر کیا، اور اعلان کیا کہ ازہر شریف، میانمار میں صرف مسلم شہریوں کے خلاف جاری قتل عام کو روکنے کے لئے عربی ، اسلامی اور بین الاقوامی سطحوں پر نقل وحرکت کرے گا ، اور انہوں نے دنیا کے تمام اداروں، بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کی انجمنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مذموم جرائم کی تحقیقات کرانے، مجرموں پکڑنے ، اور ان کے وحشیانہ مظالم کی وجہ سے جنگی مجرمین کی حیثیت سے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی غرض سے ان کو بین الاقوامی انصاف عدالت میں پیش کرنے کے لئے تمام تر کاروائیاں کریں،
اسی طرح موصوف نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے خیموں کی زیارت کے لئے ایک وفد کی صدارت کریں گے، لیکن انہوں نے اس دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے بالکل آخری وقت میں معذرت کردی جو اس دورے کے وقت ہی شمالی سینائی کی الروضہ مسجد میں پیش آیا، اور امام اکبر نے امدادوں کا حجم دوگنا کرنے اور پچاس ٹن اشیائے خوردونوش پر مشتمل دو ہزار پیکٹیں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ، اور امدادی ٹیم بنگلہ دیشی سرحدوں پر واقع ان خیموں میں پہنچی جہاں روہنگیا مسلمان رہتے تھے ، اور وہاں اماراتی ہلال احمر اور بنگلہ دیشی ہلال احمر کے ساتھ ہم آہنگی سے پیکٹیں تقسیم کی گئیں تاکہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے بورمی شہریوں کی بڑی تعداد تک امدادیں پہنچ سکیں۔
امام الطیب نے اپنی انتہائی موثر تقریر یہ کہتے ہوئے ختم کی : " ہم یہاں سے عرب اور اسلام کے دل مصر سے اور ازہر شریف سے ایک اونچی انسانی آواز لگارہے ہیں تاکہ عرب لیگ ، اسلامی تعاون تنظیم، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور بالخصوص سلامتی کونسل سے ، اور ان سے پہلے عربی اور اسلامی ملکوں کے فیصلہ سازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق ایسا سیاسی اور اقتصادی دباؤ ڈالیں کہ میانمار کے حکام عقل اور حق کی طرف واپس آجائیں ، اور شہریوں کے درمیان نسلی اور مذہبی امتیاز کی پالیسی سے ترک کردیں"
اور ایک لمبی خاموشی کے بعد بین الاقوامی برادری کی نگاہیں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کی طرف مبذول کرانے میں، غم وغصے سے پر اس موثر تقریر کا بڑا ہاتھ رہا۔
چنانچہ متعدد ممالک ، ادارے اور حقوق اور امدادات سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں، بنگلہ دیشی سرحدوں پر قائم روہنگیا مسلمانوں کے خیموں میں گئیں تاکہ ان کی مدد کریں ، اس کے بعد اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے سنجیدہ نقل وحرکت شروع کی تاکہ دنیا کے رہنماؤں کو اس بات پر ابھاریں کہ وہ میانمار کی فوج کے ساتھ معاملہ کرنے والی کمپنیوں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں ، اس کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری نسل کشی کی کاروائیوں کی وجہ سے متعدد ملکوں نے انفرادی شکل میں میانمار پر پابندیاں عائد کیں