" اس سوگوار عورت نے جن لوگوں کو کھویا ہے ہم ان سے قیمتی نہیں ہیں " اس جملے کو کہا: اور اپنی زندگی کو لاحق خطرات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گاڑی، اپنے پاسبانوں کے کمانڈر اور اس کے معاونین کو چھوڑ کر ریت میں تیزی سے چلنے لگے تاکہ اس سوگوار عورت سے تعزیت کا اظہار کریں، اور اس طرح فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر پروفیسر احمد الطیب نے قربانی اور انسانی کام کا عمدہ ترین نمونہ پیش کیا ۔
چنانچہ فضیلت مآب امام اکبر نے چوبیس نومبر 2017 کے دن شمالی سینائی کے بئر العبد نامی علاقے کی الروضہ مسجد میں دہشت گردی کے اس سفاکانہ واقعہ کے پیش آنے کے بعد جس میں تین سو سے زائد لوگ شہید اور دیگر سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے اس مسجد میں جمعے کی نماز ادا کرنے کے لئے دسمبر 2017 کے آغاز میں اس مسجد کا دورہ کیا، اور امام الطیب نے اس دوران تمام سکورٹی انتباہات کو چیلنج کیا اور اس بستی کے گھروں پر جا کر خود سے وہاں کے لوگوں سے تعزیت کرنے پر مصر رہے، اور موصوف نے اس وقت اس بستی کے لوگوں کے لئے متعدد اہم فیصلے کئے، جن میں بعض یہ تھے: شہداء کے لواحقین کو ماہانہ پنشن دیا جائےگا، ان کو مفت میں حج کرایا جائے گا، اس بستی کے فرزندوں کی خدمت کے لئے ایک ہمہ پہلو ازہری کمپلیکس تعمیر کیا جائے گا، اور بئر العبد سے تعلق رکھنے والے ازہری طلبہ اور طالبات کو یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں رکھا جائےگا، اس کے علاوہ عموماً شمالی سیناء کے لوگوں اور خصوصاً بئر العبد کے لوگوں کے لئے دعوتی اور طبی قافلے بھیجنےکی تعلیمات دیں، اور بستی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے گورنر، قبیلوں کے سربراہان، اور شیخ الازہر کے دفتر کے ساتھ براہ راست رابطہ شروع کرنے کا حکم دیا۔
اور تعزیتی راونڈ ختم ہونے کے بعد جب امام اکبر کے قافلے کی گاڑیاں اس ںبستی سے قاہرہ واپس آنے کے لئے تیار ہوچکی تھیں تو شیخ الازہر نے ایک سوگوار عورت کا قصہ سنا جس کو بستی والوں نے شہیدوں کی ماں" کا لقب دے رکھا تھا کیونکہ دہشت گردی کے اس سفاکانہ حملے میں اس کی اولاد ، پوتے، شوہر اور اس کے خاندان کے متعدد لوگ شہید ہوگئے تھے، چنانچہ اس کے بارے میں سنتے ہی شیخ الازہر نے کہا: " رک جاو" میں اس کے پاس ضرور جاوں گا، سکورٹی کمانڈر کو اس فیصلے کا علم اچانک ہوا، تو انہوں نے کہا کہ قافلے کو روکنے کی صورت میں کچھ خطرات پیش آسکتے ہیں، لیکن شیخ الازہر گاڑی سے اتر کر اس سوگوار عورت کے پاس جانے پر مصر رہے جس نے اپنے گھر سے بارہ شہید پیش کئے تھے، موصوف سکورٹی خطرات اور انتباہات کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے گاڑی سے اترے اور اس کے گھر کی طرف رخ کر کے تنہا ریت میں چلنے لگے یہانتک کہ امن کمانڈر چیختے ہوئے آب کے پاس پہنچا اور کہا : اس میں آنجناب کے لئے خطرہ ہے" تو امام الطیب نے جواب دیا: " ہم ان لوگوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں جن کو اس سوگوار عورت نے کھویا ہے" اور وہ ریت میں اس کے گھر کی طرف چلتے رہے، اس کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے اور اس کی مصیبت میں اس کو تسلی دینے کی کوشش کی ، اور اس کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کے لئے اس سے اجازت چاہتے ہوئے کہا: روضہ کی عورتیں ، صبر میں مصریوں کا مدرسہ ہیں، تو آپ ہی جیسے لوگ ہمیں صبر سکھاتے ہیں، اور آپ اپنی خدمت کے شرف سے مجھے محروم نہ کیجئے، تو اس سوگوار عورت نے بیت اللہ کی زیارت کرنے کی خواہش ظاہر کی تو امام اکبر نے فوراً حکم دیا کہ اسی سال ازہر شریف کے خرچ پر ان کو حج بیت اللہ کرایا جائے، پھر جھک کر اس کی چھوٹی پوتی کو سلام کیا۔ جو اپنے والد سے محروم ہو چکی تھی، موصوف اس کے ساتھ خوش طبعی کرتے ہوئے اس کا نام پوچھنے لگے، اور پھر اس کے لئے اور اس کی دادی کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ان شہیدوں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے جو سجدے کی حالت میں اپنے پروردگار سے جاملے، اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور تمام بستی والوں کو صبر وسکون فراہم کرے۔