الازہر بین الاقوامی کانفرنس "آزادی اور شہریت.. تنوع اور انضمام"
14/03/2017
امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے 2011 میں کچھ ایسے واقعات جن سے قومی اتحاد اور بقائے باہمی کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ تو آپ نے "مصری خاندانی گھر" کے قیام میں پہل کی ، پھر 2011 اور 2013 کے درمیان دستاویزات اور بیانات کا سلسلہ جاری رہا، جس نے اسی پیغام میں دلچسپی کی تصدیق کی: کہ مصر اور باقی عرب ممالک میں شہریت، قومی اتحاد، آزادی اور بقائے باہمی (اسلامی - عیسائی) کا پیغام۔
2014 میں امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کانفرنس منعقد کی۔ تمام مذہبی رہنمائوں اور فرقوں نے اس کا مطالبہ کیا۔ اس کے آخر میں سفارشات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انہی معانی کی تصدیق کی گئی تھی۔ یہ سب کچھ امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین کے ویٹیکن، فرانس، اٹلی، انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، نائیجیریا اور انڈونیشیا کے دوروں کے دوران اور بین الاقوامی مذاکرات اور امن میں دلچسپی رکھنے والی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں اور مصر اور دنیا کے عیسائی مذہبی رہنماؤں کے مسلسل استقبال اور مشرق میں رہنے والے (مسلم-عیسائی) کے مسائل اور عالمی امن کا اہتمام کرنے کے علاوہ ہے۔ چونکہ امام الاکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف زندگی اور مذہبی اور ثقافتی تنوع کے مسائل اور اختلافات کو اقدار کی منطق سے دیکھ رہے تھے نہ کہ قلت وکثرت کی نظر سے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کچھ مشترکہ خدشات، خوف اور رجحانات ہیں جو گزشتہ برسوں کے واقعات نے ظاہر کیا ہے۔ اور یہ چیزیں حرص اور ذمہ داری کے عہدوں سے سمجھنے، سننے، مشترکہ مشاورت اور علاج کا مطالبہ کرتی ہیں ۔
گزشتہ برسوں میں، مسیحی اداروں جیسے: مشرقی بشپس کی کونسل، فلسطین اور مصر کی ذمہ دار تنظیمیں، اور مشرق وسطیٰ کی کلیسیاؤں کی کونسل - نے بقائے باہمی اور مشترکہ تعلق کے شعبوں میں مثبت اقدامات کیے ہیں۔ اور وہ ایسے بیانات اور اعلانات ہیں جو اس نیک ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس تاریخی زندگی کے شراکت داروں کو موجودہ اور مستقبل میں ہمارے عرب معاشرے، مشرقی اور انسانی ہمدردی کی میٹنگ کے لیے ذمہ داری اور تشویش کے جذبے کے ساتھ پہل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
بقائے باہمی کے شرکاء نے، اپنی دستاویزات اور وثائق اور پرامید ہو کر سب کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک سنجیدہ ارادے کے ساتھ ایک واحد مستقبل بنائیں جو چیلنجوں اور توقعات کا مناسب جواب مہیا کرے۔
لہٰذا، امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر اور مقام و ذمہ داری اور اس متنوع زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے مسائل کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کی بنا پر، اور کی گئی کوششوں کا حقیقت پسندانہ ترجمہ، اور مشرقی عیسائی اقدامات کا اہتمام کرتے ہوئے انہوں نے 28 فروری سے 1 مارچ کو قاہرہ میں الازہر بین الاقوامی کانفرنس "آزادی اور شہریت.. تنوع اور انضمام" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر زور دیا۔ جس میں عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کے علماء، پادری، مفکر، دانشور اور اہل فکر، علم اور تجربہ رکھنے والے لوگ، بڑے لوگ اور سول شخصیات ; شہریت، آزادیوں اور سماجی اور ثقافتی تنوع کے مسائل پر غور کرنے اور بقائے باہمی اور تنوع کے عرب، اسلامی اور عیسائی تجربے کی مشرقی اور عالمی جہتیوں اور اس زندگی کے مسائل اور چیلنجز پر غور کرنے اور حال اور مستقبل کے لیے قابل تجدید امکانات پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ تاکہ ایک جامع اور مساوی متفقہ معاہدے کے بارے میں سوچتے ہوئے مل کر کام کرنا جس کے تحت ہر ایک کو آزادی، ذمہ داری، آزاد وابستگی، بنیادی حقوق اور مستقبل کے لیے ایک امید افزا وژن حاصل ہو۔ مجھے امید ہے کہ ہماری زندگیوں اور ہمارے مستقبل کے مسائل کے بارے میں ایک ساتھ سوچنا "مسلم-عیسائی بقائے باہمی کے لیے الازہر اعلامیہ" کے اجراء کا باعث بنے گا۔ جس میں شہریت، آزادی اور مشاےکت کے سائے میں ایک ساتھ رہنے کی ضرورت ہے، یہ وہ پیغام ہے جو الازہر اور عمائدین کی کونسل کی طرف سے، اور مذہبی علماء اور دینی افراد، اور دونوں طرف سے اہل رائے، تجربہ کار اور ذمہ داری کے حامل افراد کی طرف سے عرب عوام اور ان کے فیصلہ سازوں اور دنیا کی تمام اقوام کے لیے ہے۔. { اے لوگو ّ ہم نے تم سب كو أيك (ہى) مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور اس لئے تم آپس مسں أيك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديئے ہيں، الله كے نزديك تم سب ميں باعزت وه ہے جو سب سے زياده ڈرنے والا ہے۔ يقين مانو كہ الله دانا او ر باخبر ہے۔}۔[الحجرات: 13]، { اور يقينا يہ (خود) آپ كے ليے اور آپ كى قوم كے ليے نصيحت ہے اورعنقريب تم لوگ پوچھے جاؤ گے۔
}۔[الزخرف: 44].
الازہر بین الاقوامی کانفرنس "آزادی اور شہریت.. تنوع اور انضمام" میں گرینڈ امام کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحيم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سامعین حضرات اور اسٹیج پر تشریف فرما گراں قدر مہمان
ازہر شریف اور مسلم دانشور كونسل کی طرف سے میں آپ حضرات کا استقبال کر رہا ہوں اور مصر بھی اپنی سرزمین پر آپ حضرات کا استقبال کر رہا ہے اور وہ اس اہم کانفرنس کی وجہ سے اپنی سعادت مندی کا بھی اظہار کر رہا ہے۔ یہ کانفرنس ایک ایسے استثنائی اور سخت ماحول میں منعقد کی جارہی ہے جس سے آج نہ صرف عالم اسلامی بلکہ پوری دنیا دوچار ہے اور یہ ماحول بغیر کسی معقول سبب كے اسلامی اور عربی ملکوں میں جنگ کی آگ بھڑکنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور یہ سبب ایسا ہے کہ اسے اکیسویں صدی کا کوئی بھی انسان قبول نہیں کر سکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے بلکہ افسوس وغم کی بات ہے کہ دین کی تصویر کشی اس طرح کی جا رہی ہے گویا کہ اسی کی وجہ سے جنگیں ہو رہی ہیں اور لوگوں کی عقلوں اور ذہنوں میں یہ بات مزین کی جا رہی ہے کہ یہی اسلام ہلاکت وبربادی کا سبب ہے اور اسى کی وجہ سے تجارت کی عالمی منڈی کی دیواریں مسمار ہو رہی ہیں اور باٹکلان کے ڈرامہ گھروں اور میٹرو اسٹیشنوں کو اڑایا جا رہا ہے اور اس کی تعلیمات کی وجہ سے نیس شہر اور اس کے علاوہ مشرق ومغرب کے دوسرے شہروں میں معصوم لوگوں کی جانیں لی جارہی ہیں۔ خوفناك واقعات کی یہ تصویریں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں اور دہشت پسندی کا دائرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور ادیان سماویہ اور انبیاء کے پیغامات کی حقیقت کی صحیح سمجھ بوجھ کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ دین سے نکلے ہوئے یہ چند لوگ قرآن وحدیث کے نصوص کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں گویا کہ یہ ان لوگوں کے لئے اجرت پر لی گئی ایک بندوق ہے اور يه لوگ جنگوں کے دلال، اسلحوں کے تاجر اور نئے سامراج کے فلسفوں کے ٹھیکیدار ہیں۔
آپ کے لئے کافی ہے کہ آپ عجیب وغریب حرکات وسکنات کے سلسلہ میں غور وفکر کریں۔ یہ اسلام کا جھنڈا تو بلند کرتے ہیں لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگتے ہیں،ایک دوسرے کو کافر اور خائن قرار دیتے ہیں تاکہ آپ جان لیں کہ اس پورے معاملہ کا تعلق دین اسلام سے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خون خرابے میں اسلام کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم اس خونریزی میں ایک جھوٹ کو سمجھیں اور وه يه كه یہ مسئلہ کسی ایسے دین کو صحیح قرار دینے کا نہیں ہے جس کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور ان کے ذمہ ہے کہ وہ فکری تجدید اور عقلی اجتہاد کے ذریعہ اسے درست اور صحیح کریں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ندیوں کی طرح ناجائز خون بہایا جائے اور انسان کی کامیابیوں پر جرأت کرکے اسے منہدم کردیا جائے خواہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور ان پر قدرت ملتے ہی انہیں ہلاک وبرباد کر دیا جائے۔
تھوڑی مدت قبل دین سے دور اس جماعت کا اثر ورسوخ بہت کم تھا۔ اس کی تعداد کم تھی اور اس کے پاس ساز وسامان بھی ناکافی تھے لیکن اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اس جماعت نے پوری دنیا کو اس دین کے خلاف کمر بستہ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارے لئے بس یہ جان لينا کافی ہے کہ مغرب کے شمال وجنوب میں ہر جگہ اسلاموفوبیا پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمان شہریوں پر اس کا کافی برا اثر پڑا ہے۔
ابھی ہم اسلاموفوبیا کے سلسلہ میں گفتگو نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اس دہشت گردی سے متعلق گفتگو کر رہے جس کی وجہ سےاس رجحان کو پھلنے اور پھولنے کا موقعہ ملا ہے اور جو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ناپسندیدگی کا سبب بنا ہے۔ کیا دہشت گردی علاقائی یا عالمی پیداوار ہے جسے مضبوط کیا گیا ہے پھر اس کی تدبیر رات كے سناٹے میں کی گئی ہے یا بہت سارے افراد کے ساتھ مل کر حقوق انسان کے خلاف سازش رچی گئی ہے اور عالمی امن وآشتی، بقائے باهم ، آزادی اور مساوات کے علمبرداروں کے ساتھ مل کر یہ کام انجام دیا گیا ہے۔
میری سمجھ کے مطابق ان تمام چیزوں میں غور وفکر کرنا سب سے زیادہ ضرورى ہے جن کے لئے کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں اوريه سب سے زیادہ اهم چیز ہے جس کا پابند علماء، دانشوران اور مفکرین کو بنایا جاتا ہے تاکہ اس وبا کی تشخیص ہو سکے، اس کے اور ان جسموں کے ذمہ دار کو متعین کیا جا سکے جن کے خون روزانہ بہائے جا رہے ہیں اور وه ان كے بتوں كے نام پر قربان كئے جارهے هيں ۔
اسلاموفوبیا کے رجحان کے سلسلہ میں غور وفکر کرنے والے کی عقل اس غیر منطقی تفریق کے سلسلہ میں غلطی نہیں کر سکتی ہے یا ایک طرف اسلام اور دوسری طرف یہودیت وعيسائيت کے سلسلہ میں دوہرا معیار اختیار كرنے كے معامله ميں غور وفكر كرنے ميں غلطى نهيں كرسكتى ۔ باوجودیکہ سب کے سب اس ایک هى تہمت یعنی تشدد اور دہشت گردی کے مسئلہ میں برابر کے شریک ہیں۔ جبکہ عیسائی اور یہودی دہشت گردی تو مغرب میں امن وآشتی کے ساتھ گزر گئی لیکن اس نے ان دونوں آسمانى مذاهب کی شبیہ کو خراب نہیں کی جبکہ تيسرے آسمانى مذاهب دین اسلام کو اکیلے کٹگھرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور اس کی مذمت اور اس کی شبیہ ابھی تک خراب کی جا رہی ہے۔
جی ہاں! دین اور دہشت گردی کے درمیان علیحدگی کے سلسلہ میں عیسائی اور یہودی تشدد کی سب سے گھناؤنی تصویر امن وسلامتی کے ساتھ گزر گئی ہے۔ مثال کے طور پر مائکل برائی کا اسقاط حمل کے کلینک پر دھماکہ خیز مادوں کے ذریعہ حملہ کرنا، ٹموتھی میو وی کا اوکلاہوما کے سرکاری عمارت پر حملہ کرنا اور دینی بیان کی وجہ سے ٹکساس کی ریاست میں حادثات کا ہونا۔ یہ وہ حادثات ہیں جو مغربی دنیا میں رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح شمالی آئیرلینڈ میں ہونے والی دینی کشمکش اور بعض دینی اداروں کی طرف سے بوسینیا کے ڈھائی لاكھ مسلمان مرد وخواتین کو قتل کرنے کا جو کام انجام دیا گیا ہے وہ سب مثال كے لئے کافی ہے۔
محفل میں موجود معزز علمائے کرام
میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب اس بات سے متفق ہونگے کہ دہشت گردی سے تمام آسمانی ادیان کو صرف برى اقرار دینا ان چیلنجوں کے سامنے کافی نہیں ہوگا بلکہ ایک اور اقدام کرنا
پڑے گا یعنی ان ادیان کی بنیادی تعلیمات اور ان کی اخلاقیات کو واقعی زندگی میں پیش کرنا پڑے گا اور میری رائے کے مطابق یہ اقدام ضروری تیاریوں کا طالب ہے۔ سب سے پہلے ان ادیان کے ذمہ داروں اور ان کے علمائے کرام کے درمیان موجود کشیدگی کو ختم کرنا پڑے گا کیونکہ اب ان کشیدگی کا کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔ جب تک ان داعیوں کے درمیان امن وسلامتی قائم نہیں ہوگى اس اس وقت تک وہ دوسرے لوگوں کو امن وسلامتی عطا نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ جس انسان کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو وہ دوسرے شخص کو وہ چیز کیسے دے سکتا ہے اور یہ اقدام اس باہمی تعارف کے بغير مکمل نہیں کیا جا سکتا ہے جس كے لئے تعاون اور هم آهنگى ضرورى هے اور پہلے نمبر پر یہی مطلوب ہے۔ جس اسلام کی طرف میری نسبت ہے اور مجھے اس نسبت پر فخر بھی ہے وہ اسلام ہمیں قرآنی آیتوں میں تنبیہ کرتا ہے جو مسلمان اور عیسائی سب لوگوں کی زبان زد ہیں کیونکہ یہ آیتیں محفلوں میں کثرت سے پڑھی جاتی ہیں۔ ﱡﭐﱥ ﱦ ﱧ ﱨ ﱩ ﱪ ﱫ ﱬ ﱭ ﱮ ﱯﱰ ﱱ ﱲ ﱳ ﱴ ﱵﱶ ﱷ ﱸ ﱹ ﱺ ﱻ ﱠ (اے لوگو ّ ہم نے تم سب كو أيك (ہى) مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور اس لئے تم آپس مسں أيك دوسرے كو پہچانو كنبے اور قبيلے بنا ديئے ہيں، الله كے نزديك تم سب ميں باعزت وه ہے جو سب سے زياده ڈرنے والا ہے۔ يقين مانو كہ الله دانا او ر باخبر ہے۔)۔ (سورۀ حجرات:13)۔
اسی طرح اسلام ایک ایسے حق کی طرف بھی توجه دلاتا هے جس پر اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور وہ ہے مکمل آزادی کا حق ہے اور خاص طور پر دین، اعتقاد اور مذہب کی آزادی کا حق ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﭐﱡﭐ ﳎ ﳏ ﳐ ﳑﱠ (دین میں کوئی زور وزبردستی نہیں ہے) (سورۀ البقرة: 256) ، دوسری جگہ ارشاد ہے: ﭐﱡﭐ ﱗ ﱘ ﱙ ﱚ ﱛ ﱜ ﱝ ﱞ ﱟﱠ ﱡ ﱢ ﱣ ﱤ ﱥ ﱦ ﱧﱠ (اور اگر آپ كا رب چاہتا تو تمام روئے زمين كے لوگ سب كے سب ايمان لے آتے، تو كيا آپ لوگوں پر زبردستى كر سكتے ہيں يہاں تك كہ وه مومن ہى ہو جائيں۔) (سورۀ يونس: 99)، تیسری جگہ ارشاد ہے: ﭐﱡﳌ ﳍ ﳎ ﳏﱠ (آپ كچھ ان پر داروغہ نہيں ہيں- ) (سورۀ غاشية: 22) ، ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے: ﱡﭐﲏ ﲐ ﲑ ﲒﱠ (آپ كے ذمہ تو صرف پيغام پہنچا دينا ہے) (سورۀ الشورى: 48)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یمن والوں کی طرف بھیجے گئے پیغام میں یہ بات بھی تھی کہ یہود اور عیسائیوں میں سے جس نے بھی اسلام کو ناپسند کیا اسے اس کے دین سے پھیرا نہیں جائے گا ۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری دینی نصوص ہیں جن میں مکمل آزادی کا پیغام دیا گیا ہے۔
ایک طرف یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ جب ازہر شریف "اقلیت یا اقلیات" کی اصطلاح کے بجائے "شہریت اور وطنیت" کی اصطلاح کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسے قانون کی طرف دعوت دیتا ہے جسے اسلام کے نبی نے تاریخ کے پہلے سماج ومعاشرہ پر نافذ کیا ہے۔ یہ مدینہ منورہ کی حکومت ہے جہاں مہاجرین وانصار اور یہود کے تمام قبیلوں اور جماعتوں کے درمیان مساوات یہ سمجھ کر قائم کی گئی کہ یہ سب کے سب اس ملک کے شہری اور باشندے ہیں۔ یہ سب حقوق و ذمه داريوں میں برابر ہیں۔ اسلامى تراث نے اس سلسلے ميں ايك ايسے دستور كى شكل ميں ايك تفصيلى دستاويز محفوظ كر ركھا هے جسے تاریخ نے اسلام سے قبل کسی نظام کے سلسلہ میں نہیں جانا کہ اس کے پاس ایسا دستور موجود ہے۔
محترم سامعین حضرات
میری بات کافی طویل ہو چکی ہے، میں معذرت پیش کرتا ہوں کہ آپ کی خاموشی اور یکسوئی نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں آپ کے سامنے اس کاغذ میں لکھے تمام غم واندوہ کو بیان کردوں اور میں اخیر میں ملک کے صدر جناب عبد الفتاح السیسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کے مابین بقائے باهم ، شہریت و وطنیت، آزادی اور امن وسلامتی کی دعوت کے سلسلہ میں آپ حضرات کے کردار کو دیکھتے ہوئے اس کانفرنس کی نگرانی قبول کی ہے۔ اسی طرح میں اپنے گراں قدر مہمان، کانفرس میں تمام بہن بھائیوں اور اس کانفرنس کے منتظمین کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے راتوں کی نیند قربان کر کے اس کانفرنس کی تیاریاں مکمل کیں اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان کوششوں کو قبول فرمائے اور ملک کے اندر اور باہر سے آئے ہوئے اپنے مہمان سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ہماری طرف سے آپ کی خدمت میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اسے درگزر فرمائیں۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته