مصر كے مستقبل سے متعلق الازہر الشريف كا بيان
17 رجب المرجب 1432ھ بمطابق 19 جون 2011ء
دستاويز كا متن
شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب کی دعوت پر مختلف فکری اور دینی تعلیم یافتہ افراد ازهر کے علماء کےساتھ اکٹھا ہوئے، اور انہوں نے مختلف اجلاسوں کے دوران پچیس جنوری کے بعد مصر جن تاریخی اور فیصلہ کن مرحلے سے گذررہا تھا اس کے تقاضے، مصر کے روشن مستقبل اور بلند مقاصد کی طرف رہنمائی میں اس کی اہمیت، آزادی، عزت واحترام، مساوات اور سماجی عدل و انصاف میں مصری قوم کے حقوق پر غوروفکر کیا۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وطن کے قافلے کو منزل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے ہمہ گیر اور بنیادی اصولی اور قواعد و ضوابط کی بنیاد ڈالی جائے جس سے مصری سماجی طاقتیں بحث و مباحثہ کرکے رہنمائی حاصل کرے تاکہ حکمرانی کی صحیح فکری ڈھانچوں کو مضبوط کیا جا سکے۔
صحیح وسطیت پر مبنی اسلامی فکر کو واضح کرنے میں ازهر کے قائدانہ کردار اور مركزيت ومرجعيت کا اعتراف کرتے ہوئے تمام شرکاء اس کی اہمیت کی تاکید کرتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسا روشن منارہ ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے، حکومت کا دین سے کیسا تعلق ہو اس كا تعين کرنے میں اسی کو معيار بنایا جاتا ہے،اور صحیح شرعی اور سیاسی بنیادوں کو بیان کرنے میں جس کو اپنایا جانا مناسب ہے، ازهر کے غیر معمولی تجربات اور اس کی علمی و ثقافتی تاریخ پر مرکوز کرتے ہوئے جو مندرجہ ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے۔
1- دینی علوم کے احیاء اور تجدید میں فقہی پہلو اہلسنت وجماعت کے مذہب کے موافق کو عقل و نقل کو جامع ہو ، اور وہ نصوص شرعیہ کی تاویل میں رعایت کی جانے والی قواعد کو واشگاف کرتا ہو ۔
2- آزادی وحريت کی طرف قومی تحریک کی قیادت میں ازهر کے روشن کردار کا پہلو۔
3- مختلف سائنسی علوم اور متنوع سرسبز و شاداب آداب وفنون کے احیاء کا تہذیبی پہلو۔
4- سماج کی تحریک اور مصری زندگی میں فکری قائدین کی تشکیل کا عملی پہلو۔
5- عرب اور مسلم معاشروں ميں ایجوکیشن، کلچر، قیادت، اور بیداری پیدا کرنے کا جامع پہلو۔
شرکاء کی اپنے بحث ومباحثے میں یہ خواہش رہی کہ وہ ازهر شریف میں اصلاح، ترقی، اور بیداری وفکر کے نمایاں شخصیات کى تصنيفات وتاليفات وتخليقات كو پيشِ نظر ركها جائے، اور تراث کی روح کو پيش نظر ركها جائے، شیخ الاسلام شیخ حسن عطار اور ان کے شاگرد رفاعہ طھطاوی سے لے کر امام محمد عبده اور ان کے شاگردوں جیسے محمد عبد اللہ دراز، مصطفی عبد الرزاق، شلتوت اور ان کے علاوہ شیخ الاسلام اور آج تک كے علماء وغیرہ۔
جیساکہ ساتھ ہی انہوں نے بڑے بڑے مصری تعلیم یافتہ کے کارناموں سے رہنمائی حاصل کی جنہوں نے انسانی اور معرفت کی ترقی میں شرکت کی، اور عصر حاضر کی بیداری میں مصری اور عربی دانش اور شعور کی تشکیل میں حصہ لیا، جیسے کہ فلسفہ، قانون اور ادب وفن کے اساتذہ، اور اس کے علاوہ علوم و معارف جس نے فکر، احساس اور عام وجدان کے ساز کو چھیڑا، اور اس کے لئے ہر وقت محنت کیا، اور سب کے لیے مشترکہ ڈھانچے رکھے، اور یہ ڈھانچے جن کا بلند مقصد ہے اور امت کے دانشوران اور حکماء اس کو پسند کرتے ہیں اور جو مندرجہ ذیل چیزوں میں رونما ہوگا ۔
اس نازک مرحلے میں اسلام کا حکومت سے تعلق کیسا ہو، اس کو سمجھنے کے لئے حکومت کے اصول و ضوابط كا تعين كرنے، اور وہ اجتماعی اتفاق کے دائرے میں جو مطلوبہ جديد ترين ملک بنانے اور اسمیں حکومت کے طریقے کار کو بیان کرے، اور امت کو تہذیبی ترقی کی طرف تیز گام کرے، جس سے اقتدار كى جمہورى طريقے سے منتقلى کا کام انجام پائے، اور سماجى عدل و انصاف کا ضامن ہو۔
اور مصر کے لئے انسانی اور روحانی اقدار اور ثقافتى وتہذيبى سرمایہ کی حفاظت کے ساتھ معرفت، ایجوکیشن، خوشحالی اور امن وسلامتی کی ضامن ہو، اور یہ ان اسلامی اصولوں کی حمایت کے لئے جو امت اور علماء و مفکرین کے ذہن میں رچ بس گئى ہے اور انہیں غفلت، بدنامی یا انتہاپسندی اور غلط توضیح سے بچانے کےلئے ہے، اور اسی طرح انہیں ان منحرف نعروں کا استغلال ہوجانے سے بچانے کےلئے جو وقتا فوقتاً مذہبی یا آئڈیالوجیکل نعرے بلند کرتے ہیں جو ہماری امت کے ثوابت اور مشترکہ افکار کے منافی ہے، اور وہ اعتدال وسطیت کے راستے سے دور، مساوات، عدل اور آزادی میں اسلام کے جوہر سے متضاد ہے اور تمام آسمانی مذاہب کی رواداری سے دور ہے۔
چنانچہ اسی بنیاد پر ہم یہاں اکھٹا ہوے تمام شرکاء مندرجہ ذیل اصولوں پر روشن اسلامی مرجعیت کے مزاج کی تحدید کے لئے اتفاق کرتے ہیں جو بنیادی طور پر چند ایسے کلی مسائل کی شکل میں ہیں جو قطعی طور پر دلائل کے لحاظ سے ثابت نصوص سے ماخوذ ہیں، بایں طور کہ وہ دین کی صحیح سمجھ سے عبارت ہے، اور اجمالاً ہم ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل راؤنڈز میں کرتے ہیں۔
پہلا : اس جدید جمہورى، آئينى اور قومى رياست كے قيام کی تائید کرنا جو ایسے دستور پر مبنی ہو جس سے امت راضی ہے، وہ رياست اور اس كے انتظامى اداروں كى صلاحيتوں كا تعين كر كے الگ كرتا ہو- اور حکومت کے دائرے کی تحدید کرے، اور مساوات کی بنیاد پر اپنے تمام شہریوں کے لیے حقوق اور واجبات کا ضامن ہو، اس طور پر کہ قانون سازی کا حق عوام کے ہاتھ میں ہو، جو صحیح اسلامی مفہوم کے ساتھ موافق ہو، جیساکہ اسلام نے نہ تو اپنی تشریعات، اور نہ ہی تہذیبوں اور تاریخ میں ایسی چیز کو جانا جس كو دیگر ثقافتوں ميں مذہبى رياست كہا گيا جو لوگوں پر مسلط ہو گئ ہو اور تاریخ کے مختلف مراحل میں انسانیت كو خاصى مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كے بر عكس اسلام نے لوگوں پر معاشرتى انتظام و انصرام، مصلحتوں کے پیش نظر اپنے لئے مناسب ذرائع اور اداروں کا انتخاب چھوڑ دیا، اس شرط پر کہ اسلامی شریعت کے کلی اصولوں کے موافق ہو، جو کہ قانون سازی کی بنیاد ہے، اور جو دیگر آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے لئے پرسنل اور عائلی مسائل میں انہیں اپنے مذہب کی طرف رجوع کے حق کا ضامن ہو۔
دوسرا: آزادانہ براہ راست انتخاب پر قائم ڈیموکریٹک نظام کو تقویت دینا، جو کہ اسلامی شورائی نظام کے اصولوں کو حاصل کرنے کے لئے موجودہ مفہوم ہے، جو در اصل امن پسندانہ طریقہ سے اقتدار كى منتقلى کا ذریعہ، ذمے داريوں اور صلاحيتوں كا تعين ، كاركردگى کی نگرانی اور قوم کے سامنے ذمہ داروں کا محاسبہ ہے اور تمام قانون سازیوں اور فیصلوں میں لوگوں کی مصلحت اور منافع کا خیال اور حکومت کو قانون سے چلانا، صرف قانون سے، کرپشن کی پکڑ دھکڑ، اور مکمل شفافیت بہم پہنچانا، معلومات کو حاصل کرنے اور اسے نقل کرنے کی مکمل آزادی ہو۔
تیسرا: بچہ، عورت اور تمام انسانی حقوق کے مکمل احترام کے ساتھ رائے اور فکر کی بنیادی آزادیوں کا التزام، اور اس بات پر زور کہ آسمانی مذاہب کا احترام اور تعدد کے اصول کا خیال رکھنا اور معاشرے میں وطنیت کو تمام ذمہ داریوں کا سبب تسلیم کرنا۔
چوتھا : ڈائيلاگ کے اخلاقیات اور آداب اختلاف کا مکمل احترام، دوسروں کو کافر اور خائن قرار دینے اور دین کا ناجائز استعمال اور ملکی باشندوں کے درمیان دشمنی، نفرت اور انتشار پھیلانے سے پرہیز کی ضرورت، اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ فتنے اور نسل پرستى كے نعرے بلند کرنے کو ملک کے حق میں ایک جرم شمار کرنا، اور قوم کے مختلف جماعتوں کے درمیان احترام متبادل، اور مناسب باہمی گفتگو پر بھروسہ کرنا اور اس کو فروغ دینا، تمام باشندوں کے درمیان حقوق واجبات میں بغیر کسی فرق کے۔
پانچواں: بین الاقوامی معاہدوں اور فیصلوں کی پاسداری کی تاکید، اسلامی اور عربی کلچر کے روادارانہ تقالید کےساتھ انسانی تعلقات میں تہذیبی کارناموں کو تھامنا، اور اسے جو مختلف زمانوں میں مصری عوام کی طویل تہذیبی تجربہ سے ہم آہنگ ہے، اور اسے جو پرامن بقائے باہمى اور پوری انسانیت کے لیے بھلائی چاہنے کے روشن نمونے پیش کئے ہیں ان کے ساتھ ہم آہنگی۔
چھٹا: مصری امت کی کرامت کی حفاظت کی مکمل خواہش، اور اس کے قومی عزت کی حفاظت، تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں كى عبادت گاہوں کےلئے مکمل احترام اور مکمل حمایت کی تاکید، اور بلا کسی رکاوٹ کے تمام شعائر کو انجام دینے کی گارنٹی، اور عبادت کے مختلف اشکال کے ساتھ تمام مظاہر کا احترام، کسی قوم کے کلچر کو بیوقوفانہ یا اس کے اصلی رسم عروج کی شکل بگاڑے بغیر، اسی طرح اظہار رائے، فنی اور ادبی اختراع کی آزادی کی حفاظت اپنے تہذیبی اقدار کے دائرے میں۔
ساتواں: ایجوکیشن، اور علمی ریسرچ و تحقيق اور معرفت کے زمانہ میں انٹری کو مصر کی تہذیبی ترقی کا انجن سمجھنا، اور اس میدان میں چھوٹی ہوئ چیزوں کے استدراک کے لئے تمام کوششوں كا اسى طرف رخ كرنا ، اور امت میں سے جہالت کو ختم کرنے کے لیے پوری توانائیاں صرف کرنا، انسانی قوت کو بار آور بنانا، اور بڑے بڑے مستقبل کے پروجیکٹ کو حاصل کرنا۔
آٹھواں : معاشرتی عدل و انصاف اور ترقی کو حاصل کرنے کے لئے ترجيحات کو سمجھنا، ظلم کا مقابلہ کرنا، بدعنوانيوں کا خاتمہ کرنا، بیروزگاری ختم کرنا، جو میڈیا، کلچر سوشل پروگراموں، اور معاشی میدانوں میں معاشرے کی قوت کو کھول دے، اور یہ سب ان ترجيحات کے سرفہرست ہو جس کو ہماری عوام نے موجودہ بیداری میں اپنایا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ تمام ملکی باشندوں کے لئے سنجیدہ اور مکمل جسمانی صحت کا خیال رکھنا حکومت پر واجب ہے۔
نواں: اپنے عرب پڑوسیوں اور اس سے متصل اسلامی دائرے اور افریقی اور عالمی دائرے سے ایک مضبوط بنیاد پر تعلقات قائم کرنا، فلسطینی حق کی نصرت کرنا، اور مصری ارادے کی آزادی کی حفاظت، اور مصر کا تاریخی قائدانہ کردار کو واپس لانا، مشترکہ بھلائی میں تعاون کی بنیاد پر اور قوموں کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے دائرے میں اور انسانی ترقی کےلئے شریفانہ انسانی كوشش میں مشارکت، اور آب وہوا کی حفاظت اور قوموں کے درمیان منصفانہ امن وسلامتی کو مستحکم کرنا۔
دسواں : الازہر کی آزادی کے پروجیکٹ کی تائید، بزرگ علماء بورڈ کا اعادہ اور شیخ الازهر کی نامزدگی اور انتخاب میں اس کا اختصاص واپس لوٹانا، ازهری نصاب تعلیم کی تجدید کاری پر کام کرنا، تاکہ وہ اصل فکری کردار اور پوری دنیا میں اپنے عالمی اثر کو واپس دوبارہ حاصل کرسکے۔
گیارہواں : ازهر شریف کا شمار اس طور پر کہ وہ ہی خاص ادارہ ہے جس کی طرف اسلامی معاملات، اس کے علوم اور اس کے سرمایے، اور اس کے جدید فکری وفقہی امور میں رجوع کیا جائے، باوجودیکہ اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کو سب سے چھینے بغیر لیکن جب لازمی علمی شرائط پائے جائیں،اور بشرطیکہ مكالمے کے آداب اور جس پر علماء کا اتفاق ہے اس کا احترام کیا جائے۔
ازهر كے علماء اور تمام دانشوران جو اس بیان کی تیاری میں شامل ہوئے مصری تمام سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بیان میں وارد بنیادی اصولوں اور ضوابط کی روشنی میں مصر کی سیاسی، اقتصادی، اور سماجی ترقی کےلئے کوشش کریں۔
اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے اس چیز کی جسمیں امت کی بھلائی ہے۔
شیخ ازہر
پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب