الازہركا چارٹر عربى عولم كى حمايتك ے لئے
3 ذي الحجة 1432ھ 31 اكتوبر 2011ء
ديتاويز كا متن:
فیصلہ کن تاریخی مرحلہ جس سے امت عرب کی قومیں گذر رہی ہے ڈیموکریسی، عدل و انصاف اور آزادی کے خاطر اور اپنے تہذیبی قافلے کو از سر نو شروع کرنے کے لئے اس کے مطالبات کا اداراک سینئر علماء ازهر اور ان کے ساتھ شامل دانشوروں نے کیا، شریعت اسلام میں آزادی کی روح سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے، اور حکومت کی مشروعیت کے فقہی قوانین اور اصلاح میں اس کے کردار، اور امت کے لئے بلند مقاصد اور مصالح کے حصول کے لئے ازهر کی پالیسی اور مصر ووطن عربی میں فکری قائدین کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے ظالم اور جابر سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک کی تائید کرتے ہوئے، اور سب کا یہ ایمان ہے كہ بیداری اور ترقی کے اسباب کو اپنانا، امت کی بیداری کے لئے اور تاریخی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اور سماجی انصاف میں شہريوں کے حق کو مستحکم کرتے ہوئے، شریعت کے مضبوط بنیادی اصول پر، جو عقل، دین، نفس عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کا ضامن ہے، اور اس ظالمانہ ادارہ کے سامنے سد باب بن جائے جو عربی واسلامی معاشرے کو روشن تہذیبی زمانے، معرفت کی ترقی، اور ہمہ گیر بیداری اور معاشی خوشحالی کو حاصل کرنے میں شریک ہونے اور داخل ہونے سے محروم کر دیتا ہے، ان تمام کے پیش نظر وہ گروہ جس نے ازهر کا دستاویزی بیان جاری کیا اور جسمیں مصری سماج کے مختلف اطراف کی نمائندگی تھی اس نے عربی انقلابات نے جو سرسبز باہمدیگر اور مختلف مسالک اور جماعتوں کے درمیان جو زبردست مقبولیت حاصل کیا اس سلسلے میں متعدد تعمیری ڈائلاگ کا اہتمام کیا، اور فکر اسلامی سے ماخوذ اصول و ضوابط اور عرب قوموں کے بلند توقعات پر اتفاق کیا اور اخیر میں ازهر شریف کی زیر نگرانی مندرجہ ذیل امور اور معاہدوں کے احترام کا اعلان ہوا۔
پہلا: دینی اور دستوری نقطہ نظر سے حکمران ادارے کی شرعیت قوموں کی رضامندی، اور اس کے آزادانہ انتخاب جو ڈیموکریٹک طریقہ سے علی الاعلان صاف وشفاف طریقے سے ہو، اس طور پر کہ وہ اسلامی بیعت کا جو نظام تھا یہ اس کا جدید ترین عصری متبادل ہے، اور وہ جدید ملک کی کارروائیوں میں نظام حکومت کی ترقی کے موافق ہے، اور جس پر عدالتى ، تنفیذی اور قانون ساز اداروں کی تقسیم دستوری عرف کے لحاظ سے متفقہ ہے، اور ان کے درمیان فيصلہ کرنے والا ہو، اور نگرانی، سوال وجواب اور محاسبہ کے ذرائع کو ضبط میں لایا جاسکے، بایں طور کہ امت ہی تمام اختیارات کا منبع ہو، اور وہی ضرورت کے وقت اسے شرعیت عطا کرے اور چھینے بھی- بہت سارے حکمراں اپنی حکومت سے چمٹے رہنے کے لئے اس قرآنی آیت کی غلط تشریح کرتے ہیں، ﱡﭐﳄ ﳅ ﳆ ﳇ ﳈ ﳉ ﳊ ﳋ ﳌ ﳍﳎ ﱠ (سورۂ النساء: 59) " اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول اور حکمرانوں کی" اس آیت کے سیاق و سباق کو بالكل بھلا کر جو اس سے پہلے آیا ہے، ﱡﭐ ﲨ ﲩ ﲪ ﲫ ﲬ ﲭ ﲮ ﲯ ﲰ ﲱ ﲲ ﲳ ﲴ ﲵ ﲶﲷ ﱠ (سورۂ النساء: 58) "اللہ اے ايمان والو! فرمانبردارى كرو الله تعالى كى اور فرمانبردارى كرو رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى اور تم ميں سے اختيار والوں كى"۔
حکمرانی کی امانت اور عدل قائم نہ کرنے کی وجہ سے اس نے قوموں کے لئے یہ جواز فراہم کردیا کہ وہ عدل قائم نہ کرنے والے حکمرانوں کا مقابلہ کریں، اور ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اور جو ہمارے فقہائے نے حکمرانوں میں سے ظالم اور جابر پر صبر کرنے کو کہا ہے وہ امت کو انارکی اور افراتفری سے بچانے کیلئے ہے، اور یہ بھی اجازت دیا ہے کہ ظالم کو سبكدوش کردیا جائے اگر اس کی قوت حاصل ہو، اور نقصان اٹھانے اور نقصان پہونچانے کے امكان کو امت اور سماجوں کی سلامتی کے لئے ختم کیا۔
دوسرا: جب امن پسندانہ اور عوامی قومی اپوزیشن کی آواز بلند ہو جوکہ حکمران کو درست اور راہ راست پر لانے کے لیے اصل حق ہے، اور حکمراں پھر بھی قوموں کی آواز کو نہیں سنتے، اور مطلوبہ اصلاحات میں پہل نہیں کرتے، بلکہ اس جائز قومی مطالبات كو نظر انداز کرتے ہیں، جو آزادی، عدل و انصاف کی آواز لگاتے ہیں، تو یہ اپوزیشن کے افراد سرکش نہیں سمجھے جائیں گے، بلکہ سرکش وہ ہوں گے جن کے اندر فقہی طور پر ایسے اوصاف یعنی قوت و شوکت کے نشہ میں وہ قوم سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہوں، اور اپنے مخالفین کا سامنا ہتھیار سے کرتے ہوں، اور طاقت کے بل بوتے پر زمین میں فساد پھیلاتے ہوں، جہاں تک مخالف امن پسند قومی تحریکوں کی بات ہے تو وہ تو اسلام میں انسان کا اصل حقوق میں سے ہے، جیساکہ بین الاقوامی معاہدوں نے اس کی تاکید کی ہے، بلکہ یہ ہر شہری کا فریضہ ہے اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کو درست کرنے کے لئے، اور اس پر لبیک کہنا حکمرانوں اور اہل حکومت پر واجب ہے بلا کسی سرکشی اور چالاکی کے۔
تیسرا : کسی بھی قومی امن پسندانہ مظاہرہ کو طاقت اور مسلح تشدد سے ختم کرنا، امن پسند شہریوں کا خون بہانا، امت اور حکمرانوں کے درمیان معاہدہ کو توڑنا ہے، اور اس سے حکومت کی قانونی حیثیت ساقط ہوجاتی ہے، اور وہ رضامندی سے اس کے حکمرانی کے حق کو باطل کر دیتا ہے، اور اگر حکومت اپنی سرکشی میں ہٹ دھرمی دکھائے اور ظلم و ستم اور زیادتی پر اتر آئے، اور اپنے ناجائز بقا کے لئے بے قصور شہریوں کا خون بہانے کو معمولی سمجھے تو وہ حکومت مجرم بن گئى، اسکی تاریخ گندی ہوگئى، اور پھر مظلوم و مقھور عوام کا یہ حق ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ ظالم حکمرانوں کی معزولی اور ان کے محاسبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، بلکہ پورا نظام بدل دیں، امن و امان اور استقرار یا فتنوں اور سازشوں سے نمٹنے کےلئے کتنے ہی بہانے کیوں نہ ہو۔
بے قصوروں کا خون بہانا حکومت کے قانونی حیثیت کے باقی رہنے اور جرم و زیادتی کے گناہ میں ساقط ہونے میں حد فاصل ہے، ہماری تمام وطنوں کے نظامی فوجوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داری کے بموجب ان حالات میں بیرونی عناصر سے ملک کی حفاظت کریں، نہ کہ شہریوں کو ڈرانے اور اندر ہی ان کا خون بہانے کا آلہ بن جائیں - ارشاد باری ہے،ﭐﱡﭐ ﱉ ﱊ ﱋ ﱌ ﱍ ﱎ ﱏ ﱐ ﱑ ﱒ ﱓ ﱔ ﱕ ﱖ ﱗ ﱘ ﱙ ﱚ ﱛﱜ ﱠ (سورۂ المائده:32) " جو شخص كسى كو بغير اس كے كہ وه كسى كا قاتل ہو يا زمين ميں فساد مچانے والا ہو، قتل كرڈالے تو گويا اس نے تمام لوگوں كو قتل كرديا اور جو شخص كسى ايك كى جان بچالے، اس نے گويا تمام لوگوں كو زنده كرديا"۔
چوتھا: انقلاب، تجدید اور اصلاح کی قوتوں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے بالكل دور ہوں جو خون کو بہانے کا سبب بنے، یا بیرونی طاقتوں سے مدد کا ذریعہ بنے خواہ اس کا مصدر کچھ بھی ہو، اور یا جو بھی اسباب اور ذرائع ہوں جو انکے ملکوں اور وطنوں میں دخل اندازی کرتے ہیں، اگر وہ بیرونی تعاون لیتے ہیں تو وہ اپنی امت اور اپنے ملک کے لئے سرکش شمار کئے جائیں گے، اس وقت حکومت پر یہ لازم ہوگا کہ وہ انہیں وطنی صف میں لا کھڑا کریں، اور یہ سب سے پہلا فریضہ ہے، اور انقلابی وتجديد کی طاقتوں پر یہ لازم ہے کہ وہ انصاف اور آزادی کے لیے متحد ہوں، اور مذہبی، نسلی یا فرقہ واریت سے گریز کریں، ملکی وحدت کو باقی رکھنے کے لئے، شہریت کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے، تمام عوام کے مفاد کےلئے پوری طاقت کو یکجا کرنا ڈیموکریٹک انتقال اور تبدیلی کے لئے، قومی اور ملکی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے، اور جس کا مقصد عدل و انصاف کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر ہو، اور ایسا نہ ہو کہ انقلابی تحریکیں فرقہ وارانہ اور مذہبی مال غنیمت میں تبدیل ہوجائے، یا مذہبی احساسات کو بھڑکائے۔
بلکہ انقلابیوں، مجددین، اور مصلحین پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے اداروں کی حفاظت کریں، اور اس کی دولت کو بیکار نہ کریں، یا شرپسندوں کے امیدوں پر نہ اتریں، اختلافات اور مقابلوں سے گریز کریں اور ایسی بیرونی طاقتوں سے مدد نہ لیں جو آپ کے وطن اور اس کی دولت کی طرف للچائی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پانچواں: ان اسلامی اور دستوری اصولوں پر جو تہذیبی شعور کے جوہر سے عبارت ہے، علماء ازهر، کلچر اور فکر کے قائدین تجدید و اصلاح میں عرب قوموں کی مکمل تائید کا اعلان کرتے ہیں، اور آزادی اور سماجی عدل و انصاف کے معاشرے کی جو ٹيونس، لیبیا، اور مصر میں سرخرو ہوئى، اور اب تک یمن اور شام میں بھڑکی ہوئی ہے۔
اور ان تمام وحشیانہ تشدد کے آلات کی مذمت کرتے ہیں جو اس کے شعلے کو بجھانا چاہتے ہیں، اور وہ اسلامی وعرب سماج سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کم سے کم نقصان پر اس کو کامیاب بنانے کے لئے فیصلہ کن پہل کو اپنائیں، قوموں کا اپنے حاکم کے انتخاب میں مکمل آزادی کی تاکید کرتے ہوئے، اور ان کو ظلم و ستم، کرپشن اور استحصال سے روکنے کےلئے، کسی بھی حکومت کی قانونی حیثیت اس کی قوم کے ارادے کا مرہون منت ہے، اور نقصان کو دور کرنے کے لئے اسلامی قانون میں غیر مسلح امن پسندانہ اپوزیشن کے حق کی ضمانت ہے، چہ جائے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں میں یہ انسان کے اصل حقوق میں سے ہے۔
چھٹا : علمائے ازهر اور مشارکین دانشوران حکمراں اسلامی اور عربی نظاموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ رضاكارانہ طور پر آئينى، سماجی اور سیاسی اصلاح کی پہل کریں، اور ڈیموکریٹک تبدیلی کا آغاز کریں، مظلوم قوموں کی بیداری برپا ہونا لازمی ہے، اور کسی بھی حاکم کے بس میں نہیں ہے کہ وہ آزادی کے سورج کو اپنی قوم سے چھپائے، اور شرم کی بات ہے کہ عرب خطہ اور چند اسلامی ممالک دیگر دنیا کے علاوہ پسماندگی، اور ظلم وسرکشی میں ڈوبے رہیں، اور جھوٹ اور زیادتی کے طور پر اس کو اسلام اور اس کے بے قصور کلچر کی طرف اسکی نسبت کی جائے، جس طرح ان ممالک پر لازم آتا ہے کہ وہ فورا علمی بیداری، ٹکنالوجی ترقی، اور معرفت كى تخلیق کے اسباب اختیار کرے، اور انسانی طاقتوں اور فطری دولت کو اپنے شہریوں کی خدمت اور پوری انسانیت کی خوشبختی کے لئے صرف کرے۔
یہ بات اور کہ ظلم و تشدد کے نگہبان یہ گمان نہ کریں کہ وہ ظالموں کے انجام سے بچ جائیں گے، یا اس کے بس میں ہے کہ وہ قوموں کو گمراہ کر دیں گے، جبکہ اب اوپن کمیونیکیشن کا زمانہ اور نالج کا دھماکہ، روشن تہذیبی اور دینی سیادت کا زمانہ ہے اور قربانی وفدائیت کے نمونے دنیائے عرب میں مشہور ہیں۔
ان تمام چیزوں نے لوگوں کی بیداری سے ایک دہکتا ہوا شعلہ بنا دیا، اور آزادی سے ایک بلند جھنڈا اور مظلوم قوموں کی امید کی ایک کرن جو سرخروئی تک مرمٹنے والا جدوجہد کی طرف گامزن رکھے۔
دین سے نا آشنا اور اسلامی تعلیمات کو بگاڑنے والے اور ظلم و ستم، اور سرکشی کی تائید کرنے والے اس کھیل سے باز آئیں جسمیں اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ﱡﭐ ﲺ ﲻ ﲼ ﲽ ﲾ ﲿ ﳀ ﳁ ﳂ ﱠ (سورۂ يوسف: 21) " اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے ليكن اكثر لوگ بے علم ہوتے ہيں" ۔
اے اللہ ہم آپ سے ایسی رحمت کے طلبگار ہیں جو ہمارے دلوں کو ہدایت سے روشن کردے، اور ہمارے بکھرے شیرازے کو یکجا کردے، اور ہم سے فتنوں کو دور فرما، اے پروردگار عالم۔
یہ تحریر مشیخہ ازهر میں 3 ذی الحجہ 1433 هجری مطابق 30 اکتوبر 2011کو تحریر کی گئی۔
شیخ ازہر
پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب