بنیادی آزادیوں کے متعلق ازهر كى دستاويزات
14 صفر 1433ھ بمطابق 8 جنورى 2012ء
دستاويز كا متن:
آزادی کے ان انقلابات کے بعد جس نے آزادیوں کی روح كو بیدار کردیا، اور مختلف جماعتوں کے اندر مکمل بیداری کی چنگاری سلگا دی، مصری قوم اور امت مسلمہ و عرب امت کے علماء اور اس کے انٹلیکچول افراد کی طرف امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ عادل اسلامی شریعت کے کلی اصول اور بنیادی آزادی کے قواعد وضوابط جن پر بین الاقوامی معاہدوں کا بھی اتفاق ہےاور جو مصری قوم کے تہذیبی تجربہ کا بھی نتیجہ ہے اس کے مابین تعلق كا تعين کریں، اس کی بنیادوں کی اصل کی طرح ڈالنے، اس کے ثوابت کی تاکید، اس کے ان شرائط كا تعين کرتے ہوئے جو تبدیلی اور ترقی کی تحریک کی حمایت کرتا ہو، اور مستقبل کے آفاق کو کھولتا ہو، وہ عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی، علمی بحث وتحقيق کی آزادی، فنی اور ادبی تخليق کی آزادی ہے، ایک ایسی بنیاد پر جس میں شریعت کے روشن مقاصد کی رعایت کی گئی ہو، جدید آئين سازى کی روح کا اداراک کیا گیا ہو، اور انسانی معرفت کی پیش قدمی کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہو، جو امت کی روحانی طاقت سے اسکے نشات ثانیہ کے لئے ایندھن تیار کردے، اور ترقی کے لئے وہ مہمیز کا کام کرے، اور مادی و معنوی ترقی کے لئے ایک راہ ہو، ایک ایسی پیہم کوشش کے ذریعہ جس میں روشن مذہبى بيانيہ کے ساتھ صحیح کلچرل خطاب ہم آہنگ ہو، اور دونوں ایک ثمر آور مستقبل کی ہم آہنگی کے ساتھ دونوں مل جائیں، جس میں ایسے مقاصد اور اہداف یکجا ہوں جن جس پر سب متفق ہوں، چنانچہ ازهر شریف کی زیر نگرانی جن ازهری علماء اور مصری تعلیم یافتہ افراد نے پہلا ازهری دستاویز جاری کیا تھا، انہوں نے اس کے بعد جمہوريت اور آزادی کی جانب پڑوسی عرب قوم کی تحریک کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا، اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور انسانی حقوق و آزادیوں پر مشترکہ فکری پہلوؤں پر غور وفکر کیا، اور ان آزادیوں کے لئے فیصلہ کن اصول و ضوابط کو تسلیم کیا- موجودہ تاریخی اور فیصلہ کن لمحہ کے تقاضوں کے پیش نظر اور سماجی اتفاق کے جوہر کی حفاظت کرتے ہوئے، اور جمہورى تبدیلی کے مرحلے میں مفاد عامہ کی رعایت کرتے ہوئے، تاکہ امت اللہ کی توفیق سے امن وسلامتی اور عدل کے ساتھ قانونی اداروں کی داغ بیل ڈالنے کی طرف منتقل ہوجائے۔
تاکہ ایسے خود غرض نعرے پھیل نہ جائے، جو بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے نام پر عام و خاص کی آزادی میں دخل دینے لگے، جو بات جدید مصر کی سماجی اور تہذیبی ترقی کے ساتھ مناسب نہیں ہے، اور ایسے وقت میں جب ملک کو اتحاد، اور دین کی وسطیت پر مبنی صحیح فھم کی سخت ضرورت ہے، اور یہی ازهر کا پیغام ہے، اور وطن اور سماج کے تئیں اس کی ذمہ داری ہے۔
پہلا: عقیدے کی آزادی جو حقوق وواجبات میں مکمل برابری پر کامل وطنیت کے حق سے مربوط ہے وہ جدید سماج کی تعمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، دینی نصوص قطعیہ اور صریح قانونی اور دستوری اصول سے اس کی ضامن ہے، جیساکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا (سورۀ البقرة: 256) "دین میں کوئی زور زبردستی نہیں"، اورہدایت گمراہی کے مقابل واضح اور نمایاں ہے، اور فرمایا ﱠ (سورۀ الكهف: 29) "جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے"۔
اور اس بنیاد پر دین میں زور زبردستی یا اس کی وجہ سے ظلم اور تفرقہ کا ہر مظہر ایک جرم ہے، دوسرے کے حق کو ٹھیس پہونچائے بغیر آسمانی عقائد کی حفاظت کرتے ہوئے،معاشرے میں ہر فرد کو حق ہے وہ جو فکر چاہے اختیار کرے، تینوں خدائی مذاہب کے لئے اس کا تقدس ہے، اسکے افراد کو دوسروں کے احساس کو ٹھیس پہونچائے یا اس کی حرمت کو پامال کئے بغیر قول کے ذریعہ ہو یا فعل کے ذریعہ یا عام نظام میں خلل ڈالے بغیر اپنے شعائر کو قائم کرنے کی پوری آزادی ہے۔
چونکہ وطن عرب آسمانی وحی کے اترنے کی جگہ اور خدائی مذاہب کا گہوارہ ہے تو اس پر ان کے تقدس، اس کے شعائر اور اس پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کی آزادی، کرامت اور اخوت میں رعایت کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔
پہلا: عقیدے کی آزادی
عقیدے کی آزادی کا مطلب کہ حقوق واجبات میں یکساں طور پر مواقع فراہم کیا جائے، شراکت اور شہریت کی ٹھوس بنیاد پر ان کے درمیان مساوات، اور ہر شہری کا دوسرے شہری کے جذبات کی رعایت کرنا، اور حق اختلاف کا خیال رکھنا، اور تعدد کی مشروعیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے، جس کے نتیجہ میں یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اعتقاد کی آزادی کا احترام، اقصاء اور تکفیر کے نظریوں کا رد، اور ان کی توجہات کا انکار، جو دوسروں کے عقائد کی مذمت کرتے ہیں، اور ان عقائد کی بنیاد پر مؤمنين کے دلوں میں تفتیش کرتے ہیں۔ دستوری نظاموں کی بنیاد پر بلکہ اس سے قبل علمائے مسلمین کے یہاں جو حدیث شریف سے جس کو قطعی صریح احکام نے مقرر کیا ہے کہ، "کیا تم نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا ہے" جس کو امام اہل مدینہ امام مالک :نے اس اصول سے طے کیا ہے، اگر کسی کی جانب سے کوئی ایسی بات صادر ہو جس میں سو وجوہات کفر کے ہوں اور ایک وجہ ایمان کی تو، اس کو ایمان پر محمول کیا جائے گا۔ ائمہ مجتہدین اور اہل قانون نے اسلام میں عقل کے مرتبہ کو بلند کیا ہے، اور ایک سنہرا اصول یہ بنایا ہے کہ جب عقل و نقل میں تعارض ہو تو عقل کو مقدم کیا جائے گا، اور نقل کی تاویل کی جائے گی، مصلحت کے پیش نظر اور مقاصد شریعت کو بروئے کار لاتے ہوئے۔
دوسرا : اظہار رائے کی آزادی
آزادی رائے تمام آزادیوں کی جڑ ہے، اور رائے کی آزادی کا اظہار کتابت، خطابت، اور فنی تخلیق، اور كميونيكيشن کی آزادی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اور وہی سوشل آزادی کا مظہر ہے جو افراد سے گذرکر دوسروں کو بھی شامل ہے، جیسے پارٹی تشکیل دینا، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بنانا، جیساکہ صحافت، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی اپنی رائے ظاہر کرنے کے لئے، اور بنیادی معلومات کے حصول کی آزادی وغیرہ ہیں۔ اور یہ ضروری ہے کہ اس کی ضمانت قانونی نصوص کے ذریعہ ہوں، تاکہ وہ عمومی قابل تبديل قانون سے بلند ہو، مصر میں اعلی دستوری عدالت نے اظہار رائے کی آزادی کے مفہوم کو وسیع کیا تاکہ وہ تعمیری تنقید کو بھی شامل ہو اگرچہ عبارت سخت ہے اور صراحت کی ہے کہ تمام مسائل میں اظہار رائے کی آزادی کو عدم تجاوز سے قید کرنا درست نہیں، بلکہ اس میں درگذر ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ تینوں خدائی مذہب کے عقائد اور اس کے شعائر کا احترام ضروری ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے قومی سلامتی اور اتحاد کو خطرہ ہے۔
لیکن آزادی رائے کے نام پر یہ کسی کو حق نہیں کہ وہ فرقہ وارانہ فتنے، اور مسلکی نعروں کو بلند کرے، اگرچہ اجتہاد کا حق ہے وہ جو دلیل کی بنیاد پر علمی رائے سے متصل ہو اور مخصوص حلقوں میں فتنہ گری سے دور ہو، جیساکہ علمی تحقیق کی آزادی میں یہ بات گذرچکی ہے۔
شرکاء اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا حقیقی مظہر ہے، اور وہ نئى نسل کو دوسروں کے احترام، حق اختلاف، اور آزادی کے کلچر پر پرورش اور تربیت کی گذارش کرتے ہیں، اسی طرح میڈیا میں سیاسی، کلچرل اوردینی خطاب کے میدان میں کام کرنے والے افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اہم پہلو کا خیال رکھیں اور ایسی عام رائے بنانے میں جو درگذر، وسعت اور ڈائيلاگ کو اپنانے، تعصب سے گریز ہو پوری حکمت سے کام لیں۔
اس کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عدل و انصاف، عفو ودرگذر سے آراستہ اسلامی فکر کی روايات کا استحضار کیا جائے جس کے بارے میں ائمہ مجتہدین کہا کرتے تھے " میری رائے درست ہے اور غلطی کا احتمال ہے، اور دوسرے کی رائے غلط ہے لیکن اس کے درست ہونے کا احتمال ہے"- اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کہ ڈائيلاگ کے اصول و آداب کے موافق دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا جائے اور اسی پر ترقی یافتہ سماجوں میں تہذیبی روايات ثابت عرف مستقر ہے۔
تیسرا: علمی تحقیق کی آزادی
ریاضی، سائنسی اور انسانی علوم میں سنجیدہ بحث و تحقیق کو ہی انسانی ترقی کا انجن اور انسانیت کی بھلائی کے لئے دنیا کے طریقوں اور اس کے قوانین کو کھوج کرنے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے، امت کی پوری طاقت اور توانائی جھونکے بغیر اس کی فکری اور تطبیقی نظریات کے پھل سامنے نہیں آسکتے، انسانیت اور دنیا کے تکوینی مظاہر كے بارے ميں سوچ ، غور و فکر، تدبر، اور استنباط وقياس پر قرآن نے ابھارا ہے، اور مشرق کی تاریخ میں سب سے بڑی علمی اٹھان کی راہ ہموار کی، جو حقیقی صورتحال پر اتری اور مشرق و مغرب کے انسانوں کو سعادت سے بہره ور کیا، علماء اسلام نے اس کی قیادت کی اور اس كے شعلوں نے یورپ کے بیداری کے عہد کو روشن کیا، جیساکہ معروف اور ثابت ہے۔
اگرچہ مختلف معارف اور فنون میں سوچنا ایک اسلامی فریضہ ہے، جیساکہ مجتہدین کہتے ہیں، تجرباتی اور نظریاتی بحث و تحقیق اس فکر کا آلہ ہے، اور اس کے اہم شرائط میں سے ہے کہ بحث و تحقیق کے ادارے اور ماہر علماء امكانات اور مفروضات کے تجربہ کیلئے ایک آزادانہ اکیڈمی کے مالک ہوں اور انکا انتخاب باریک علمی معیاروں کے ساتھ ہو، ان اداروں کا حق ہے کہ وہ ايسى تخلیقی سوچ اور تجربہ کے مالک ہوں جو جدید تحقیقات اور نتائج میں اضافہ کرے، اور اس سلسلے میں ان کی بہتر رہنمائی علم اور اس کے مناھج، اخلاقیات اور ثوابت ہی کر سکتی ہے، بڑے بڑے مسلم اسکالرز اور سائنسدان جیسے رازی، ابن ہیثم، ابن نفیس اور انکے علاوہ علمی معرفت کے أقطاب متعدد صدیوں تک مشرق و مغرب میں علمى ستارے رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ و عربیہ طاقت کی دوڑ، اور معرفت کے زمانے میں داخل ہوں، آج علم ہی ترقی، خوشحالی اور فوجی و اقتصادی قوت کا سبب اور مصدر ہے، اور آزادانہ علمی تحقیق ہی تعلیمی بیداری، علمی وفکری بالادستی، اور پروڈکشن کے مراکز کی ترقی کا راز ہے، کیونکہ اس کے لئے بھاری بھرکم بجٹ خاص کیا جا تا ہے، اور اس کے لئے ٹيم ورک بنایا جاتا ہے اور بڑے بڑے پروجیکٹ کی تجویز پیش کی جاتی ہے، اور ان سب کے لیے ضروری ہے کہ انسانی بحث و تحقیق کا معیار اور سطح کافی بلند ہو۔ قريب تها کہ یورپ تمام عملی ترقی پر قبضہ کر لیتا اور علم كے قافلے کا باگ دوڑ اپنے ہاتھ لے لیتا اگر جاپان، چین، اور ہندوستان و جنوب شرق ايشيا کی بیداری نہ ہوتی، جس نے اس تسلط کو توڑنے اور علم و معرفت کے وسیع باب میں داخل ہونے کے روشن نمونے پیش کئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مصری اور عرب مسلمان تہذیبی، علمی کمپٹیشن کے میدان میں اتریں، کیونکہ ان کے پاس ایسی روحانی، مادی اور بشری طاقت ہے جو ان کو اس کا اہل بنا سکتی ہے اس کے علاوہ ترقی کے وہ شرائط بھی ایک ایسی دنیا میں جو کمزوروں اور پسماندہ کا احترام نہیں کرتی۔
چوتھا : فنی ادبی تخليق اور جدت پسندی کی آزادی
اختراع کی دو قسمیں ہیں ایک علمی جو علمی تحقيق سے تعلق رکھتا ہے، اور دوسرا ادبی فنی تخليق ، شعرو شاعری، ڈرامہ ناول، کہانی، بایو گرافی، بصری اور تشکیلی فنون، سینما، اور ٹیلی ویژن اور موسیقی کی شکل میں رونما ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ دوسری جدید فنکارانہ اشکال جو ظاہر ہوتے ہیں۔
اور ان تمام آداب وفنون کا مقصد بیداری پیدا کرنا، خیال کو سرگرم بنانا، خوبصورت احساس کو پروان چڑھانا، انسانی حواس کو بہتر بنانا، اس کے مدارک کو وسعت دینا،زندگی اور معاشرے سے متعلق انسان کے تجربے کو گہرائی دیناہے، جیسے کبھی سماج پر تنقید کرنا جس کے ذریعے اس سے بہتر افضل اور اچھے کی طرف دیکھنا،اور یہ سب کے سب بلند فرائض ہیں جو درحقیقت زبان، ثقافت اور خیال کو قوت، فکر کو بالیدگی اخلاقی فضائل، بلند دینی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے عطا کرتا ہے۔
عربی زبان اپنی ادبی سرمائے اور قابل رشك بلاغت سے ممتاز ہوئى تاآنکہ قرآن مجید بلاغت اور اعجاز کے اعلی معیار کو لے کر آیا، تو اس نے اس کے حسن اور عبقریت کو مزید دو آتشہ کردیا، شعر و شاعری، نثر اور حکمت کو اس سے غذا ملی، تمام جنسوں کے شعراء جو اسلام کے تابع ہوئے ان کے جوہر اسی سے کھلے، بغیر کسی حرج کے انہوں نے تمام فنون میں ہر دور میں تخلیق و اختراع کیا، بلکہ بہت سارے عرب کلچر کے علماء اور شیوخ شعر و شاعری اور ناول کے بڑے جانکار تھے، جو بنیادی قاعدہ اختراع اور جدت پسندی میں آزادی کی حدود بندی کرتی ہے وہ ایک ناحیہ سے، ادبی اور فنی اختراع میں تراث اور تجدید کے سرمائے کا استیعاب کرنے میں معاشرے کی قابلیت ہے اور دوسرے ناحیہ سے یہ کہ موجودہ اخلاقی اقدار اور دینی احساسات کو ٹھیس نہ پہونچائے، چنانچہ ادبی اور فنی تخليق بنیادی آزادیوں کی ترقی کا اہم مظہر رہے گا اور معاشرے کے اندر بیداری اور اس کے وجدان کے ساز کو چھیڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا، اور جس قدر صحیح آزادی راسخ ہو گی وہ اس کے مہذب ہونے پردلیل ہوگی، اس لئے آداب و فنون معاشروں کی ضمیروں کا آئینہ ہے اور ان کے ثوابت اور تبدیلیوں کی سچی تعبیر ہے، اور روشن مستقبل کی طرف ان کے تمناؤں کی ایک تروتازہ تصویر پیش کرتی ہے۔
یہ تحریر مشیخہ ازهر میں 8 جنوری 2012ءموافق14 صفر 1433 ہجری کو تحریر کی گئی ۔
شیخ ازہر
پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب