شہريت اور بقائے باہم سے متعلق ازہر شريف كا اعلان
جمادى آخر 1438 ھ 1 مارچ 2017 ء
اعلان كا متن
ہمارے عرب معاشروں كى توقع كو مد نظر رکھتے ہوۓ اور جدید زمانہ کی ضروریات كو پورا كرنے كے پيش نظر، دين ومعاشرے اور قومى ممالک كو درپيش چيلنجز كا سامنا كرتے ہوۓ ، اور اپنے معاشروں اور ثقافتى ميدانوں ميں مختلف دينى تجربات كا ادراک كرتے ہوئے، گزشتہ سالوں سے ازہر شريف اور عالم عرب كى دوسرى دينى و سياسى تنظيموں كے انفرادى اور اجتماعى اقدامات و معاہدات اور كوششوں كو جارى ركھتے ہوئے، بقائے باہم كے لئے اسلامى اور عیسائی عزمِ مصمم كے تحت ، انتہاء پسندى كا انكار ، دين كے نام پر ہونے والے ظلم وتشدد اور جرائم (جن كا دين سےكوئى تعلق نہيں ) كى مذمت كرتے ہوئے ، اور جيسا كہ 2014ء ميں ازہرشريف كى كانفرنس " انتہاء پسندى اور دہشتگردى كا خاتمہ " ، اور اس كے بعد دوسرى كانفرسوں اور اجتماعى اجلاسوں كے بيان ميں آيا ہے، ان سب اموركے پيش نظر ازہر شريف اور مسلم دانشور کونسل نے " آزادى و شہريت .. اختلافات ويكجہتى " كے موضوع پر كانفرنس منعقد كرنے كا فيصلہ كيا، جس ميں عرب اور دنيا کے 60 ممالک كى 200 سے زياده اسلامى اور عیسائی دينى ، ثقافتى ، معاشرتى ، اور سياسى شخصيات نے شركت كى ،کانفرنس ميں مصر كے سياسی، ثقافتى اور صحافتى میدان کے نامور راہنما بھى شريک ہوئے ہيں۔
گز شتہ دو دنوں 28 فرورى اور يكم مارچ 2017 م سے ، شہريت ، آزادى وتنوع ، چيلنجز و تجربات اور اقدامات كے مسائل پركانفرنس میں شریک حضرات كے ليكچرز اور مشوروں، كے بعد " اعلانِ ازہر" جارى كيا گيا ہے جو مندرجہ ذيل بندوں پر مشتمل ہے:
پہلا بند:
شہريت دراصل ايک اسلامى اصطلاح ہے جو عہد نبوى ميں دستورِ مدينہ اور اس كے بعد ہونے والے معاہدوں سے ماخوذ ہے، جو مسلمانوں اور غير مسلموں كے تعلقات كو متعين كرتے ہيں، اعلان ازہر پہلے يہ يقين دہانى كرتا ہے كہ شہريت (بقائے باہم) كوئى بيرونى يا درآمد حل نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى نظام حكومت كا پہلا عملى قدم ہے جسے نبى كريم نے اپنے قائم كرده پہلے اسلامى معاشرے ميں نافذ فرمايا، اور وه مملكت مدينہ منوره تھى ۔
يہ عملى قدم اس وقت كے معاشرے ميں كسى گروه كى کسی بھى قسم كے تفرقہ اور عليحدگى پر مبنی نہيں تھا بلكہ يہ متعدد مذہبى ، نسلى اور معاشرتى سياست پر مشتمل تھا ، يہ ايسى مختلف دينى انفراديت (پر مبنى) تھا جس پر مكمل بقائے باہم اور مساوات كے بغيرعمل كرنا ممكن نہيں ہے ، جس كى مثال دستور مدينہ كى نص ہے جس کے مطابق " (اہل ايمان ) تمام (دنيا كے ديگر) لوگوں كے بالمقابل ايک عليحده امت يعنى قوميت ہيں" اور يہ كہ جو مسلمانوں كے حقوق ہيں وہى غير مسلموں كے حقوق ہيں اور جو مسلمانوں كى ذمہ دارياں ہيں وہى غير مسلموں كى ذمہ دارياں ہيں ۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوۓ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عربی اور اسلامی معاشرہ تنوع اور تعدد پر قائم ہے جس کے افراد ایک ساتھ زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی دولت سے مالامال ہيں۔
یہ ثابت اقدار اور روادارانہ رسوم و رواج آج تک بیرونی اور اندرونی نشانہ کا شکار رہے هيں ، اس لۓ ازہر شریف اور مسلم دانشور کونسل اور مشرق کے عیسائی آج ایک بار پھر اس ایمان کے ساتھ اکٹھے ہوۓ ہیں کہ مسلمان اور عیسائی ملکی حقوق و واجبات میں برابر کے شریک ہیں، دین کے مختلف ہونے کے باوجود وہ ایک ہی قوم ہیں جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دستور مدینہ میں مذکور ہے۔
اسی لۓ ملکی ذمہ داریوں میں سب برابر کے شریک ہیں۔
دوم: حقوق و مساوات اور شہریت کا مفہوم اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ان كاموں کی مذمت کی جائے جو شہریت کے اصولوں سے متعارض ہوں، اسلامی شریعت ایسے اعمال کا اعتراف نہیں کرتی جس کی بنیاد مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق پر قائم ہو، اس كا نتيجہ کے نتیجے میں تحقیر، نظر انداز پسماندگی، اور دوہرے معیارات، نيز کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم، گرفتاريوں، ايذا رسانيوں، دربدر اور قتل وغيره جيسے رويے جنہيں ایذا رسانی، نقل مکانی، قتل اور دیگر رویے جن کو اسلام مسترد کرتا ہے اور تمام مذاہب اور رسوم و رواج سے انكار کرتے ہیں-
ہم آہنگى اور مشترکہ ارادے کی ہم آہنگی اور مضبوطی کا پہلا عنصر وطنى اور آئينى رياست ہے جو شہریت، مساوات اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر مبنی ہو آئینی قومی ریاست ہے۔
- شہریوں، معاشروں اور ریاستوں کے درمیان ایک معاہدے کے طور پر چھوڑنا، ریاستوں کی ناکامی، مذہبی اداروں، ثقافتی اور سیاسی اشرا فیہ کی ناکامی، اور ترقی و پیشرفت میں خلل کا باعث بنتا ہے۔
ریاست اور استحکام کا پیچھا کرنے والوں کو وطن کی تقدیر اور صلاحیتوں سے کھلواڑ کرنے کے قابل بنانا۔
نیز، شہریت کے تصور اور اس کی ضروریات کو نظر انداز کرنا اقلیتوں اور ان کے حقوق کے بارے میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس مقام سے اعلان دانشوروں اور مفکرین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ "اقلیتوں" کی اصطلاح کا استعمال جاری رکھنے کے خطرے سے آگاہ رہیں، جو اپنے سايے ميں حقوق پر زور دینے کے لیے تفریق اور علیحدگی کے معنی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔
ہم نے دوبارہ "اقلیتوں" کی اصطلاح کے عروج کا مشاہدہ کیا ہے، جس کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ نوآبادیاتی دور کو لے کر اس پر قبضہ کر لیا گیا تھا، لیکن حال ہی میں اس کا استعمال مسلمانوں اور عیسائیوں، اور خود مسلمانوں کے درمیان تفریق کے لیے کیا گیا تھا۔
کیونکہ یہ وفاداریوں کی تقسیم کی طرف جاتا ہے اور بیرونی منصوبوں پر انحصار پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
سوم:اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ گزشتہ برسوں میں دین کے نام پر شدت اور دہشت گردی پھیل رہی ہے ، اور ہمارے معاشرے میں دوسرے مذہب و ملت کے افراد دباؤ اور خوف و ہراس، اغوا اور شہر بدری کے شکار ہیں، ازہر شریف کی جانب سے منعقد کی گئی اس کانفرنس میں اکٹھے تمام مسلمان و عیسائی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ تمام مذاہب دہشت گردی کی تمام شکلوں سے بری ہیں، اور وہ سب اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
اور جو لوگ اسلام یا کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں ان سے یہ مجمع مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فورا اس بہتان سے رک جائیں کیونکہ ان جیسی غلطیوں اور ارادی و غیر ارادی دعوں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات پیوست ہوچکی ہے۔
اس مجمع کا خیال ہے کہ اسلام کی جانب منسوب کچھ لوگوں کے كام اور مجرمانہ کاروائیوں کی وجہ سے اسلام پر بہتان تراشی تمام مذاہب پر دہشت گردی کے الزام کا دروازہ کھولے گی اور غلو کرنےوالے افراد کی بات کو تقویت ملے گی کہ معاشرے كے استحكام کیلئے تمام مذاہب سے چھٹکارا حاصل کرنا لازم ہے۔
چہارم: بلا شبه کسی بھی ملک کے باشندوں کی زندگی، انکی آزادی اور ملکیت، ان کے تمام شہری حقوق، انکی انسانیت و عزت نفس، اور زندگی کی حفاظت ملک کاپهلا فریضہ ہے، اور کسی بھی حال میں ملک اس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش نہیں ہوسکتا ۔
جدید اور قدیم تاریخ کے صفحات اس بات کی گواہ ہیں کہ کسی ملک کی کمزوری باشندوں کے حقوق کے ضائع ہونے کا سبب ہے، اور ملک کی طاقت باشندوں کی طاقت کے مترادف ہے۔ بلاشبہ عرب دنیا کے تہذیب یافتہ اور برگزیدہ حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کی کوشش کریں خواہ اس کے جوبھی اسباب ہوں، دینی، تہذیبی، نسلی، یا معاشرتی۔آج ہمارے جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اصل، حقیقت اور انجام ایک ہے، اسی لۓ ہمارے مذہبی و ملی، انسانی و سیاسی وجود کی حمایت کے لئے تعاون ،یکجہتی اور مشترک جد و جہد کا مطالبہ ہے، اور اس کی اہمیت کے سبھی لوگ قائل بھی ہیں، پس دینی، تہذیبی، شہری، اور معاشرتی زندگی کے میدان میں اس شعور کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
پنجم:ہم سب نے گزشتہ سالوں میں انفرادی و اجتماعی طور پر تصحیح اور نظر ثانى كے سلسلے ميں بہت کوششیں کی ہیں۔
ہم بحيثيت مسلمان و عیسائی اپنی تہذیب و ثقافت اور سوسائٹیوں کی کاوشوں کی تجدید اور ترقی کے لئے مزید نظر ثانى کے ضرورتمند ہیں۔
اس نظر ثانى کے ضمن میں عالم عربی اور تمام عالم كے دینی اداروں کے ساتھ تعلقات و روابط کو مضبوط بنانا ہے، تو ہم نے واٹیکن سیٹی، اور کانٹربری کے پادریوں اور بین الاقوامی چرچ کونسل وغیرہ کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔تبلیغی میدان، دینی و اخلاقی تربیت، شہرییت وطنیت کى نشو نما، بین الاقوامی اور عربی دینی اداروں کے ساتھ مفاهمتى تعلقات ميں اضافے، اور اسلامی و عیسائی تہذیب و ثقافت کے ما بین تعلقات کو استوار رکھنے کے لۓ عالم عربی کے تمام بین الاقوامی اداروں کا مل کر کام کرنا ضروری ہے۔
ششم: ازہر شریف اور مسلم دانشور کونسل کی اس کانفرنس سے يه امید وابستہ ہے کہ تمام عربی باشندوں کے درمیان خواہ وہ مسلم ہوں یا عیسائی یا وہ کوئی اور نسبت رکھتے ہوں، ان سبھی کے درمیان اس بات پر نئی شراکت یا عہد و پیمان کی تجدید ہوگی کہ باہم افہام و تفہیم ہوگا، ایک دوسرے کو قبول کیا جائے گا، اور شہریت و آزادی قائم ہوگی، اور یہ کام محض ایک نيك وسیلہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے، ہمارے ملک ، اور ہماری نئی پيڑھى کی ترقی کے لئے زندگی کی ایک اشد ضرورت ہے۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے مکمل شراکت و عہد کی مثال ایک دو منزلہ کشتی پر موجود ایک جماعت سے دی ہے، کہ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت پیش آئی تو وہ اوپر آئے، ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: کہ اگر ہم خود اپنے حصہ میں کھود لیں تو اوپر والوں کو ہم سے تکلیف نہیں ہوگی، تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس پر یہ ارشاد فرمایا: "فإنْ تركوهم وما أرادوا هلَكُوا وهلَكُوا جميعًا، وإن اخَذُوا على أيدِيهم نَجَوْا ونجَوْا جميعًا"۔ کہ اگر ان لوگوں کو انکے ارادوں پر چھوڑ دیا جایے تو خود بھی ہلاک ہونگے اور سب کو ہلاک کرینگے، اور اگر انکا ہاتھ پکڑ لیا جایے تو خود بھی نجات پائيں گے اور دسروں کو بھی نجات ملے گی۔
ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار، ایک ہی معاشرہ میں رہنے والے اور ایک ہی خطرہ سے دوچار ہیں جو خطرہ ہماری زندگی، ہمارے ملک و معاشرے اور ہمارے دین کو چلینج کر رہا ہے، تو ہم ایک متحد ارادے اور متحد نسبت کے ساتھ جس کے نتیجہ میں ہم سب برابر کے شریک ہیں یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاشرے اور ملک کو بچانے کے لئے اور تمام دنیا کے ساتھ تعلقات کی بازیابی کیلئے سنجیدہ کوشش کریں تاکہ ہماری اولاد کو مستقبل میں اچھے مواقع فراہم ہوں اور اور انکی زندگی بہتر ہوسکے۔
بلاشبہ یہاں جمع تمام مسلمان اور عیسائی اپنى بھائی چارگی کے عہد کی تجدید کرتے ہیں، اور ہر ایسی کوشش کی تردید کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہو، اور یہ لگے کہ عیسائیوں کو انکے ہی ملک میں نشانہ بنایاجا رہا ہے، اور اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ دہشت گردی ہمارے مشترک تجربات کو ناکام کرنے ، اور معاشرے میں ہماری زندگی کے اقدار کو نشانہ بنانے کے لئے چاہے جتنے جتن کر لے ہمارے ایک ساتھ رہنے اور ترقی کرنے کے اور فکری و عملی شہریت کے عزم و ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتى۔
اللہ ہماری نیتوں کا حال جاننے والا ہے – اور وہ ہمارے لئے کافی ہے۔
شيخ الازہر- دفتر شيخ الازہر- :
2 جمادى الآخرة 1438هـ 1 مارچ 2017ء