امام اکبر کا فرانس کی پولیٹیکل سائنس یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب: آپ ہی سے امن کا حصول ہو سکتا ہے اور امید بھی آپ ہی سے کی جا سکتی ہے تاکہ دنیا مشرق اور مغرب میں امن اور آشنائی سے رہ سکے
عزت مآب امام اکبر، شیخ ازہر جناب پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب نے فرانس کی پولیٹیکل سائنس یونیورسٹی کے ایک وفد کا استقبال کیا ہے جس میں سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات کے متعدد ماہرین اور یونیورسٹی میں مختلف قومیتوں کے 27 طلباء شامل تھے۔ امام اکبر نے کہا کہ نئے تنازعات نے مذہبی جنگوں کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے جس کا مقصد گمراہ کرنا اور حقیقت کے برخلاف یہ باور کرانا ہے کہ مذاہب جنگوں کا سبب ہیں؛ کیونکہ یہ جنگیں صرف مذاہب کے نام پر ہوئیں ہیں اور انہوں نے مزید کہا کہ اس کو درست کرنے میں یونیورسٹی کے نوجوانوں کا اہم کردار ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ مذاہب کبھی بھی جنگوں کا سبب نہیں رہے ہیں بلکہ یہ مذاہب انسانیت کو خوش کرنے، انسانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے اور رحمت پھیلانے کے لئے آئے ہیں چاہے وہ جس کسی جنس، نسل یا مذہب سے ہو۔
امام اکبر نے یہ بھی واضح کیا کہ انسانی سفر کے جائزہ کے ذریعہ مذاہب کے ماہرین کی یہ توقع تھی کہ انسانی المیے ختم ہو جائیں گے اور علم کی ترقی سے جنگیں رک جائیں گی اور انسانیت خوشی اور خوشحالی سے زندگی بسر کرے گی لیکن جو کچھ ہوا وہ تمام توقعات کے خلاف تھا کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا اور اسے إذا فراہم کیا۔
امام اکبر نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ ازہر دونوں اندرونی اور بیرونی سطحوں پر بھرپور کوششیں کر رہا ہے تاکہ بقائے باہمی اور بھائی چارے کے اصول کو قائم کیا جا سکے اور اسی کا ایک حصہ ان کے اور ویٹیکن کے پوپ فرانسس کے درمیان مسلسل رابطے بھی شامل ہیں جس کا اختتام "انسانی بھائی چارے" دستاویز پر دستخط کے ذریعہ ہوا ہے جو ازہر اور ویٹیکن سٹی کے درمیان تعلقات کی تاریخ کی سب سے اہم دستاویز ہے اور انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مصری معاشرے میں مسلمانوں اور قبطیوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے جذبے قائژ ہیں جو مصری فیملی ہاؤس کے تجربے کے نتیجے میں ہوا ہے اور مذاہب کے کردار کی زندہ مثالوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے امور میں مہارت رکھنے والی ایک تعلیمی مشیر اور یونیورسٹی کی استاد لمیس عزب نے امام اکبر سے ملاقات پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے اور شہریت، مشترکہ زندگی، امن وسلامتی کی اقدار کو فروغ دینے اور انتہاء پسندی اور تشدد کو ختم کرنے اور اسلامی ملکوں کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے مزید تعارف کرانے اور مصری شناخت کو اس طرح اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرنے میں ان کے عظیم کردار کی تعریف بھی کی ہے جس سے وہاں کی عوام ایک دوسرے سے مربوط ہو جائے۔
میٹنگ کے اختتام پر امام اکبر نے نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاہب کی تاریخ پر تحقیق کریں اور یہ ثابت کریں کہ وہ انسانیت کو خوش کرنے اور لوگوں کے درمیان امن کے پیامبر بننے کے لئے آئے ہیں اور انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ انسانوں کے لئے انسانی احترام پر مبنی ثقافت، اور پیار اور پرہیزگاری کے جذبے کو پھیلانے کے علاوہ کوئی امید نہیں ہے۔