امام اکبر نے اینکٹس الازہر ٹیم سے ملاقات کی اور مصر کے لئے ان کی معزز نمائندگی کی تعریف کی
عزت مآب امام اکبر، شیخ ازہر جناب پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب نے مشیخہ الازہر میں مصر کی نمائندگی کرتے ہوئے انٹرپرینیورشپ اور کمیونٹی پروجیکٹس کے اینکٹس مقابلے میں دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی ازہر یونیورسٹی کی ٹیم کا استقبال کیا ہے جس نے 32 سے زیادہ حصہ لینے والے ممالک کی بڑی بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے طلبہ کو پیچھے چھوڑا ہے۔ امام اکبر نے اینکٹس الازہر ٹیم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ازہری طالب علم کے لئے ایک قابل احترام ماڈل ہے جو اس نے اپنے ملک اور انسانیت کے لئے سود مند ثابت ہوا ہے اور اس مناسبت سے امام اکبر نے نوجوانوں کو مبارکبادی دی ہے اور ازہر کے طلبہ کے ان ممتاز نمونوں پر اپنے فخر کا اظہار بھی کیا ہے کہ انہوں نے بین الاقوامی محفلوں میں اپنے ملک نمائندگی کی ہے اور اپنی کوشش جارے رکھنے اور جدید پروجیکٹس کرنے کے سلسلہ میں نوجوانوں پر زور دیا ہے جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے اور اپنے ملک کی نشاۃ ثانیہ میں حصہ لے سکیں اور یہ باقی طلبہ کے لئے ایک ترغیب اور ہمت افزائی کے طور پر کام کرے گا تاکہ وہ انٹرپرینیورشپ کی دنیا میں آگے بڑھیں۔
اینکٹس مصر کی سی ای او فاطمہ سری نے کہا کہ ازہر کے طلبہ نے مصر کے اندر اور باہر ازہر کے طلبہ کی قابلیت کو ثابت کیا ہے اور دنیا بھر کے شرکاء کو متاثر کیا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ٹیم نے یہ ایوارڈ جیتا ہے اور پہلی بار ایسا ہوا ہے پہلی مرتبہ شرکت کرنے والی کسی ٹیم نے یہ انعام جیتا ہے اور یہ ایک عظیم کوشش اور یونیورسٹی کے طلبہ، یونیورسٹی کے رہنماؤں اور تاجروں کے درمیان شراکت کا نتیجہ ہے اور ازہر کی ٹیم کا انتخاب 58 مقامی یونیورسٹیوں پھر بین الاقوامی 36 ممالک میں سے ہوا ہے۔
اینکٹس مصر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے پرزور انداز میں کہا ہے کہ وہ پروجیکٹ جو نوجوان ایجاد کرتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں وہ پائیدار ہوتے ہیں؛ کیونکہ طلبہ سے کسی بھی پروجیکٹ کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے زمین پر لاگو کیا گیا ہو، اور ہم فائدہ اٹھانے والوں کے پاس جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ اس پروجیکٹ سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں ؛ کیونکہ یہ منصوبے کارآمد ہیں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں اور لوگوں کی خدمت مسلسل اور وسیع پیمانہ پر کر سکتے ہیں اور یہ اینکٹس تاجروں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر نوجوان کاروباری افراد کی ایک پرجوش نسل تیار کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔
انٹرپرینیورشپ میں ورلڈ کپ جیتنے والے ازہر کے طلبہ نے امام سے ملاقات اور مقابلے کے تمام مراحل میں ان کے لئے ان کی حمایت پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے اور سماجی رابطوں کی سائٹس پر اپنے آفیشل پیج کے ذریعے امامِ اکبر کی مبارکبادی اور اور آج ان کے ساتھ ان کی فوری ملاقات ایک عظیم اعزاز اور ہمت افزائی کے مترادف ہے جس سے وہ مستعدی اور جدت کو جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہوئے ہیں اور یہ اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ امامِ اکبر ازہر کے طلبہ کے لئے ہر طرح سے حمایت کرنے، انہیں علم حاصل کرنے، ایجاد واختراع میں اس سے فائدہ اٹھانے اور مذہب، وطن اور انسانیت کی خدمت کرنے کی ترغیب دینے میں کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے ہیں اور یہ کامیابی ازہر کے طلبہ کی کارکردگی کی تصدیق کرتی ہے جنہوں نے کینیڈا، امریکہ اور جرمنی، چین اور بہت سے دوسرے ممالک کی ٹیموں کو پیچھے چھوڑ دیا جن کی تعداد 32 تھی جو سب سے معتبر بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے آئے تھے۔
طلبہ نے تصدیق کی ہے کہ اس پراجیکٹ کا آئیڈیا ان 70 آئیڈیاز میں سے آیا ہے جن پر انہوں نے تحقیق کی تھی اور اس کا مکمل جائزہ لینے کے لئے زمین پر اترے تو انہیں معلوم ہوا کہ قارون جھیل کو اس میں جھینگے کے چھلکے کو پھینک کر آلودہ کیا جا رہا ہے اور گاؤں اس چھلکے سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا ایک ذریعہ تھا اور آج وہ کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے اور 1500 سے زائد کشتیاں مچھلیوں کی کمی کی وجہ سے وہاں اپنا کام چھوڑ کر دوسرے گورنریٹس میں دوسری نوکری تلاش کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو پرجیویوں کو مار دیتی ہیں۔ اور یہ منصوبہ قارون جھیل کے علاقہ کے لوگوں کے لئے سامنے آیا ہے اور تعلیم چھوڑنے کے رجحان کو ختم کرنے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے آیا ہے۔
"ازہر اینیکٹس" ٹیم کا پروجیکٹ جسے 100 سے زائد ازہری طلبہ نے نافذ کیا ہے اس کا مقصد فیوم گورنریٹ کے گاؤں شکشوک میں غیر استعمال شدہ جھینگوں کے خولوں کو تبدیل کرنے کے لئے جدید طریقے تلاش کرنا ہے تاکہ پانچ بنیادی مصنوعات تیار کی جا سکیں: (مصالحے، نامیاتی کھادیں، طبی ماسک، جھینگے کے فارمز، اور آرگینک فلٹرز) اور اس کے علاوہ جھیل کو صاف کرنا بھی شامل ہے اور ٹیم نے تحقیق اور ترقی کے ایک سلسلے کے بعد گاؤں کی 800 سے زائد خواتین کو اپنے خاندانوں کے لئے مستقل کام تلاش کرنے کے قابل بنایا اور خاندانوں کی آمدنی میں 320 فیصد اضافہ ہوا اور مختلف تعلیمی مراحل میں 1,300 سے زائد طلبہ کے سکول چھوڑنے کی شرح میں کمی آئی۔