شیخ الازہر نے سوہاج یونیورسٹی کے وفد کے ساتھ لڑکیوں کے خلاف "قبائلی تعصب کی روایات " سے نمٹنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا
شیخ الازہر نے بالائی مصر کی یونیورسٹیوں کو ان معاشرتی مظاہر کا مقابلہ کرنے پر زور دیا جو خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی عزت و وقار کو پامال کرتے ہیں
شيخ الأزهر نے معاشرتی مسائل پر گفتگو کرنے اور ان کے حل کے لیے نصاب میں ( دیگر چیزوں) کی شمولیت کا مطالبہ کیا۔
شیخ الازہر: قبائلی تعصب اور لڑکیوں کو خاندان سے باہر شادی نہ کرنے پر مجبور کرنا اسلام کے زمانے میں کے عمل کا تسلسل" زمانہ جاہلیت کو توسیع دینا ہے۔
قبائلی تعصب اور لڑکیوں کو خاندان سے باہر شادی نہ کرنے پر مجبور کرنا زمانہ جاہلیت کی "لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم'' کے رجحان کا تسلسل ہے۔
امام اکبر: ہم بالائی مصر میں "قبائلی تعصب" کے خطرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ازہر شریف کے واعظین اور واعظات کو بروئے کار لانے کے لئے تیار ہیں۔
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم میں معاشرتی مسائل کو زیر بحث لانا چاہیے ۔اور تعلیمی نصاب کو معاشرتی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اور ان مناہج کو ایک منطقی نقطہ نظر اور قابلِ عمل حل کی عکاسی کرنی چاہیے۔ تاکہ ان رسم و رواج کا مقابلہ کیا جا سکے جن سے ہمارے معاشرے متاثر ہو رہے ہیں ۔اور یہ (رسم و رواج) نسل در نسل منتقل ہورہے ہیں ۔
امام اکبر نے سوہاج یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر حسان نعمانی ،دیگر شبعہ جات کے ڈینز ، اساتذہ اور طلباء کے ایک اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ بالائی مصر کی یونیورسٹیاں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور وقار کو نقصان پہنچانے والے سماجی مظاہر کا مقابلہ کریں بالخصوص لڑکیوں کے خلاف "قبائلی تعصب کے رجحان کا جو لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے پریشان کن، ظالم اور غیر منصفانہ رجحان ہے جو ان حقوق کو سماجی رسوم و رواج سے خارج تصور کرتا ہے اور اسی طرح کے دیگر غیر منصفانہ معاشرتی مظاہر جیسے کہ لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنا وغیرہ ہیں ۔
شیخ الازہر نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ مختلف اداروں اور متعلقہ فریقوں کے درمیان مناسب حل تلاش کرنے کے لیے کوششوں کو مربوط کیا جائے، اور تعلیم، میڈیا، مساجد اور گرجا گھروں کے کردار پر زور دیا کہ وہ مناسب حل پیش کریں جو خاندان پر اثر ڈال سکے، اور اس سوچ کو تبدیل کریں جس نے ہماری کئی بیٹیوں اور لڑکیوں کے مستقبل کو تباہ کر دیا ہے، اور خاندانوں کی ثقافت کو تبدیل کریں اور انہیں ان ظالمانہ رسوم و رواج کو چھوڑنے پر آمادہ کریں۔ نیز، ہر فریق کو اپنی ذمہ داریوں اور کردار کو نبھانے کی ضرورت ہے، اور ازہر شریف اپنے واعظین اور واعظات کو ان مظاہر کو ختم کرنے کے لیے وقف کرنے کے لیے تیار ہے، جو زمانہ جاہلیت میں "لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے" کے عمل کا تسلسل ہیں۔
اپنی جانب سے، ڈاکٹر حسان نعمانی، صدر سوہاج یونیورسٹی، اور ان کے ساتھ وفد نے امام اکبر سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا، اور اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ وہ علم، فکر اور دین کے قلعے ازہر شریف میں موجود ہیں، اور اسلام اور انسانیت کی خدمت میں امام اکبر کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امام اکبر کے نظریے سے متفق ہیں کہ معاشرتی منفی مظاہر، خاص طور پر بالائی مصر میں پھیلنے والے مظاہر، کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، اور امام اکبر کا یہ نظریہ اس لیے بنا کیونکہ انہوں نے بالائی مصر کے حالات اور مسائل میں زندگی گزاری ہے۔
سوہاج یونیورسٹی کے وفد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ شیخ الازہر کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ نصاب میں معاصر معاشرتی مسائل سے متعلق مواد شامل کیا جائے، اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یونیورسٹی کے پاس "معاشرتی مسائل" کا ایک کورس ہے جو معاشرتی مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور وہ "لڑکیوں کے خلاف قبائلی تعصب" کے مظاہر سے نمٹنے کے لیے اسے تعلیمی مواد شامل کرنے کے لیے تیار ہیں۔