شیخ الازہر نے قومی ادارہ برائے تعلیمی معیار و منظوری کے سربراہ کا استقبال کیا

شيخ الأزهر يستقبل رئيس الهيئة القوميَّة لضمان جودة التَّعليم والاعتماد .jpeg

شیخ الازہر نے تعلیم کے مستقبل کی پیش بینی کے لیے تعلیم، تربیت، سماجیات اور نفسیات کے بڑے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دینے کی دعوت دی۔
 
بروز  پیر عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے مشیخۃ الازہر میں  قومی ادارہ برائے معیارِ تعلیم و منظوری کے سربراہ ڈاکٹر علاء عشماوی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر محمد الضوینی (وکیل الازہر) اور ڈاکٹر راجیہ طہ نائب سربراہ ادارہ بھی موجود تھیں۔
 
شیخ الازہر نے کہا کہ ہمارے عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مغربیت کی یلغار کا مقابلہ کریں، جو بعض غیر ملکی اور بین الاقوامی اسکولوں کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے اور جس کے نتیجے میں قومی تعلیمی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیم، تربیت، نفسیات اور سماجیات کے بڑے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ مستقبل کے تعلیمی منظرنامے کا جائزہ لیا جا سکے۔ بصورت دیگر ہمیں چند دہائیوں بعد یہ صورت حال پیش آ سکتی ہے کہ ہماری قوم مغربی ذہنوں کے زیر اثر ہو، جو مشرقی یا عربی اقدار سے خالی ہوں۔ شیخ الازہر نے تعلیم کو تجارتی سامان بنانے اور اسے غیر قانونی منافع کے سودوں میں بدلنے کی مہم سے بھی خبردار کیا اور عربی تعلیم و عربی شناخت کی حفاظت پر زور دیا۔
 
 
 
 
انہوں نے اس تشویشناک رجحان کی طرف بھی اشارہ کیا کہ بعض خاندان اپنے بچوں کی غیر ملکی زبانوں پر مہارت کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ عربی زبان کے بنیادی اصولوں تک سے ناواقف ہیں اور بعض اوقات تو صحیح طریقے سے پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ شیخ الازہر نے کہا کہ اگرچہ غیر ملکی زبانوں کا سیکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ غیر ملکی تعلیم ثقافتی، سماجی اور سیاسی پیغامات بھی اپنے ساتھ لاتی ہے، جو اگر درست اور منصوبہ بندی کے ساتھ نہ دی جائے تو نئی نسل کو اپنی شناخت اور اپنے وطن و امت کے مسائل سے کاٹ سکتی ہے۔
 
 
 
اپنی گفتگو میں قومی ادارہ برائے معیارِ تعلیم و منظوری کے سربراہ نے شیخ الازہر سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کی تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں تعلیمی اداروں اور جامعات کی ایک بڑی تعداد نے اس ادارے سے منظوری کی اسناد حاصل کی ہیں، اور یہ محض رسمی منظوری نہیں تھی بلکہ کئی معیارات پر مبنی تھی، جن میں تعلیمی عمل، تنقیدی سوچ، عمارتوں و سہولیات کی عمومی حالت، اور کثافتِ طلبہ کے مسائل کو جدید طریقوں سے حل کرنے کی کوششیں شامل تھیں۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025