مصری فیملی ہاؤس کے قیام کی دسویں سالگرہ کی تقریب میں امام اکبر کی تقریر

كلمة الإمام الأكبر في احتفالية بيت العائلة المصرية بمرور 10 سنوات على تأسيسه.jpeg

آج بروز پیر 8 نومبر 2021ء امام اکبر عالی جناب پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب شیخ ازہر نے مصری فیملی ہاؤس کے قیام کی 10ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب میں افتتاحی تقریر کی، جس میں انہوں نے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کرنے والوں مہمانوں کو احاطۂ ازہر اور گرجا گھروں میں خوش آمدید کہا اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مصری فیملی ہاؤس کا فکرہ ازہر اور کلیسا کے درمیان گہرے افہام وتفہیم کے نتیجہ میں سامنے آیا تھا جس میں ان دونوں اداروں نے مصر اور اہل مصر کو ان جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے مختلف ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے اور ہمارے گرد وپیش کے ممالک اور معاشروں کو ویران کرکے رکھ دیا ہے یہاں تک کہ قدیم زمانے سے چلی آرہی تہذیبوں کو بھی تہس نہس کر دیا ہے اور ان سب میں لاکھوں جانیں قربان، ہزاروں بچے یتیم اور سیکڑوں خواتین بیوہ ہوئیں ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں اور اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔
 
امام اکبر نے مزید کہا کہ ازہر اور مصری گرجا گھروں نے اس لعنتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے کی جانے والی ان سیاسی، قومی اور سلامتی کوششوں میں شرکت کی غرض سے مذہبی اداروں کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے مصری فیملی ہاؤس کو قائم کیا ہے تاکہ  وطن اور اہل وطن کو ان خرابیوں سے بچایا جا سکے جن کی پرورش اور پرداخت اندرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں اور دھیرے دھیرے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ ان سب کا مقصد مصر کو بھی زوال کی جانب اسی طرح ڈھکیلنا ہے جیسے کہ چھوٹے بڑے عرب ممالک مسلح خانہ جنگی کا شکار ہو چکے ہیں اور وہاں کی صورتحال انتہائی اب تک خراب ہے اور وہاں کے واقعات مقامی اور بین الاقوامی خبروں کی سرخیاں بنتے رہتے ہیں۔

شیخ ازہر نے اپنی تقریر میں مزید ان شکوک وشبہات کا بھی ازالہ کیا ہے جو مصری شہری کے امن وسلامتی، اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے دفاعی حق کو لے کر  اسلام اور عیسائیت کے درمیان بھائی چارے کے اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان دونوں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ اس بھائی چارے کے درمیان اختلاط قائم کرتے ہوئے دونوں میں سے ہر ایک کے آپسی فرق اور تقسیم کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اور یہ بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور دعوے ہو رہے ہیں  کہ "ابراہیمیت" یا دین ابراہیمی کے نام سے ایک نئے دین کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ - ایسا لگتا ہے - یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ملا کر ایک ایسے پیغام یا دین کی صورت میں پیش کرنا ہے جس پر تمام لوگ متفق ہو سکیں اور وہ ان کو ان تمام مصیبتوں اور تنازعات سے بچا لے جو بے گناہ جانوں کے ضیاع اور لوگوں بلکہ ایک ہی عقیدے کے ماننے والوں کے درمیان خونریزی اور مسلح جنگوں کا سبب بن رہی ہیں۔ 


شیخ ازہر نے کہا ہے کہ یہ دعوی بھی  گلوبلائزیشن، تاریخ کا خاتمہ، اور عالمگیر اخلاقیات جیسے دعووں کی طرح ہیں۔ اگرچہ دیکھنے میں یہ لگ رہا ہے کہ یہ انسانی اجتماع، اس کے اتحاد اور تنازعات اور کشمکشوں کے اسباب کے خاتمے کے لئے  ہو رہا ہے لیکن یہ دعوی خود انسان سے اس کی سب سے قیمتی چیز کو چھیننے کے لئے ہو رہا ہے اور وہ ایمان وعقیدہ اور اختیار کی آزادی ہے اور یہ سب وہ حقوق ہیں جن کی ضمانت تمام مذاہب نے دی ہے اور اس کی تاکید واضح نصوص میں کی گئی ہے۔ پھر یہ ایک ایسی بلا ہے جس میں جھوٹے جھوٹے ایسے خواب دکھائے گئے ہیں جن میں چیزوں کی حقیقتوں اور نوعیتوں کا صحیح ادراک تک نہیں ہے۔


 امام اکبر نے مزید کہا ہے کہ  ہم اپنے آسمانی پیغامات پر اپنے عقیدے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مذہب یا ایک الہی پیغام پر تمام مخلوق کو متحد کرنا اس نظام الہی میں ناممکن ہے جس کے ساتھ اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؛ کیونکہ لوگ اپنے عقائد، اپنی عقل وفکر اور اپنی زبان میں مختلف ہیں بلکہ ان کی انگلیوں کے نشان اور آنکھوں کے ریٹینا مختلف ہیں اور یہ سب تاریخی اور سائنسی حقیقت سے ثابت ہو چکے ہیں اور اس سے پہلے یہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس کے بارے میں قرآن نے تصدیق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ خدا نے لوگوں کو مختلف ہونے کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور اگر وہ ان کو ایک مذہب، ایک رنگ، ایک زبان یا کسی عمل کی ایک سمجھ کے مطابق پیدا کرنا چاہتا تو وہ ایسا کر دیتا۔



اب ہم امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب شیخ ازہر کی تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں: 
بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى إخوته من الأنبياء والمرسلين 



عالی جناب عدلی منصور صاحب سابق صدر جمہوریہ! عزت مآب پوپ تواضروس دوم صاحب، اسکندریہ کے فادر اور بطریرک کرازہ مرقسیہ! وزیر اعظم ڈاکٹر مصطفی مدبولی کے نائب عمر مروان صاحب وزیر انصاف کونسلر! مصر میں انجیلی برادری کے سربراہ ڈاکٹر قس اندریا زکی صاحب! قبطی کیتھولک سرپرست بطریرک انبا ابراہیم إسحاق صاحب، مصر میں اینگلیکن چرچ کے سربراہ نیافہ مطران شامی شحاتہ صاحب! ان کے علاوہ یہاں مرد وخواتین حضرات، وزراء، سفراء،  گورنر اور محترم حاضرین مجلس! 




السلام عليكم ورحمۃ  الله وبركاتہ
مصری فیملی ہاؤس کی ضیافت کے ساتھ آپ کے معزز ازہر اور قدیم مصری گرجا گھروں میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے استقبال ہے۔ یہ عظیم اور مستند فیملی ہاؤس جس کے قیام کی دسویں برسی آج ہم منانے جا رہے ہیں یہ ازہر اور کلیسا کے درمیان گہرے افہام وتفہیم کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے جس کے ذریعہ ان دونوں اداروں نے مصر اور اہل مصر کو ان جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے مختلف ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے اور ہمارے گرد وپیش کے ممالک اور معاشروں کو ویران کرکے رکھ دیا ہے یہاں تک کہ قدیم زمانے سے چلی آرہی تہذیبوں کو بھی تہس نہس کر دیا ہے اور ان سب میں لاکھوں جانیں قربان، ہزاروں بچے یتیم اور سیکڑوں خواتین بیوہ ہوئیں ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں اور اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔


معزز سامعین! اس فیملی ہاؤس کا فکرہ اس وقت سامنے آیا جب سنہ 2011 میں اسکندریہ کے ایک چرچ میں ایک حادثہ پیش آیا، ازہر شریف اور چرچ کے ذمہ داران متاثرین کی تعزیت کے لئے جمع ہوئےتھے، اس دن عزت مآب فادر شنودہ سوم اور ازہر شریف کے وفد کے درمیان بات ہوئی تھی، وفد میں ہمارے پروفیسر ڈاکٹر محمود زقزوق بھی شامل تھے جنہوں نے اس دنیا سے انتقال ہونے تک فیملی ہاؤس کے سیکرٹریٹ کی ذمہ داری سنبھالی، اور ان کے ساتھ ہمارے ساتھی پروفیسر ڈاکٹر محمود عزب بھی تھے جنہوں نے فیملی ہاؤس کے جنرل کوآرڈینیٹر کا عہدہ سنبھالا تھا، (اللہ ان سب پر رحم فرمائے اور انہیں اپنے فضل وکرم کی وسعت سے نوازے) ان افسوس ناک اور بڑے دکھ بھرے چیلنجوں کی روشنی میں اس فیملی ہاؤس کا خیال سامنے آیا جس واقعہ نے ضمیر، وطن اور شہریوں کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سب کے سامنے رکھ دیا اور ان میں سب سے خطرناک اور اہم چیلنج امن وسلامتی، اجتماعی استحکام کے ختم ہونے کے ساتھ دہشت گردی کے جرائم اور اس کے بڑھتے ہوئے خونی واقعات کا سامنے آنا تھا اور ہمیں یقین تھا کہ ان واقعات کو اگر اسی طرح چھوڑ دیا جائے تو وہ یقینی طور پر پورے ملک کو ایک فرقہ وارانہ جنگ کی آگ میں لپیٹ لے گا جو لامحالہ ہر خس وخاشاک کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔ اس دن ازہر شریف اور مصری گرجا گھروں نے یہ محسوس کیا کہ اس وقت مذہبی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ریاست کی طرف سے اس گھناؤنے منصوبے کو ناکام بنانے اور وطن اور شہریوں کو اس کے اثرات سے بچانے کے لئے کی جانے والی قومی، سلامتی اور سیاسی کوششوں میں حصہ لیں، کیوکنہ یہی وہ عناصر ہیں جن کی پرورش اور پرداخت اندرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں اور دھیرے دھیرے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ان سب کا مقصد مصر کو زوال کا شکار بنانا ہے جیسے کہ بڑے چھوٹے سبھی عرب ممالک مسلح خانہ جنگی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب تک وہاں کی صورتحال انتہائی بری ہے اور وہاں کے واقعات مقامی اور بین الاقوامی خبروں کی سرخیاں بنتے رہتے ہیں۔





اندرونی اور بیرونی فتنوں کے اس ہنگامہ خیز ماحول، اور دسمبر 2010ء کے آخر میں بغداد کے اندر ایک چرچ پر اور یکم جنوری 2011ء کو سینٹس چرچ پر ہونے والے حملوں کے واقعات کے بعد مذہبی اور قومی ضرورت کے تحت مصری فیملی ہاؤس کے نام سے ایک آزاد قومی ادارہ کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی اور چند مہینوں کے بعد ہی اس وقت کے وزیر اعظم کا فیصلہ ہوا کہ ازہر کے شیخ اور قبطی آرتھوڈوکس چرچ کے پوپ کی سربراہی میں مصری فیملی ہاؤس کے نام سے ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا جائے جس کا مرکزی ہیڈکوارٹر قاہرہ میں مشیخہ کے اندر ہو۔ 



خواتین وحضرات! اس فیملی ہاؤس اور اس کی مجلسوں وکمیٹیوں کے ذریعے خاموشی اور خلوص کے ساتھ جو قومی کردار ادا کیا گیا ہے اور اسی طرح  گزشتہ دس برسوں میں اس کی نمایاں ترین سرگرمیوں اور پندرہ گورنریٹ میں اس کی سولہ شاخوں کے بارے میں بات کی جائے تو  گفتگو بہت طویل ہو جائے گی؛ لہذا میں مناسب  سمجھتا ہوں کہ کانفرنس کی مجلسیں اور مذاکراتی جلسے ان پر اچھے انداز میں روشنی ڈالنے کے لئے زیادہ مناسب ہیں لیکن ابھی مجھے کچھ بات کہنے کی ذمہ داری دی گئی ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ اس جگہ  سے رخصت ہونے سے پہلے میں مختصرا کچھ  باتیں بیان کردوں، جن کا بیان کرنا میرے خیال میں یا ان باتوں سے آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ قطعی طور پر ان شکوک و شبہات کا ازالہ ہو سکے جنہیں بعض اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ اس فیملی ہاؤس سے توجہ ہٹ جائے  اور اسے مرنے کے لئے  چھوڑ دیا جائے یا پھر موت وحیات کے درمیان غیر متحرک جسم کی طرح باقی رہے۔




یہ معاملہ مصری شہری کے امن وسلامتی، اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے دفاعی حق کو لے کر اسلام اور عیسائیت کے درمیان بھائی چارے کو خلط ملط کرنے کی ایک کوشش ہے اور ان دونوں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ اس بھائی چارے کے درمیان اختلاط قائم کرتے ہوئے دونوں میں سے ہر ایک کے آپسی فرق اور تقسیم کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اور یہ بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور دعوے ہو رہے ہیں  کہ "ابراہیمیت" یا دین ابراہیمی کے نام سے ایک نئے دین کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ - ایسا لگتا ہے - یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو ملا کر ایک ایسے پیغام یا دین کی صورت میں پیش کرنا ہے جس پر تمام لوگ متفق ہو سکیں اور وہ ان کو ان تمام مصیبتوں اور تنازعات سے بچا لے جو بے گناہ جانوں کے ضیاع اور لوگوں بلکہ ایک ہی عقیدے کے ماننے والوں کے درمیان خونریزی اور مسلح جنگوں کا سبب بن رہی ہیں۔ 



یہ دعوی بھی  گلوبلائزیشن، تاریخ کا خاتمہ، اور عالمگیر اخلاقیات جیسے دعووں کی طرح ہیں۔ اگرچہ دیکھنے میں یہ لگ رہا ہے کہ یہ انسانی اجتماع، اس کے اتحاد اور تنازعات اور کشمکشوں کے اسباب کے خاتمے کے لئے  ہو رہا ہے لیکن یہ دعوی خود انسان سے اس کی سب سے قیمتی چیز کو چھیننے کے لئے ہو رہا ہے اور وہ ایمان وعقیدہ اور اختیار کی آزادی ہے اور یہ سب وہ حقوق ہیں جن کی ضمانت تمام مذاہب نے دی ہے اور اس کی تاکید واضح نصوص میں کی گئی ہے۔ پھر یہ ایک ایسی بلا ہے جس میں جھوٹے جھوٹے ایسے خواب دکھائے گئے ہیں جن میں چیزوں کی حقیقتوں اور نوعیتوں کا صحیح ادراک تک نہیں ہے۔


اگرچہ ہم اب تک اس نئے مذہب کے خد وخال سے واقف نہیں ہوئے ہیں  اور نہ ہم اس کی تفصیلات جانتے ہیں لیکن ہم آسمانی پیغامات پر اپنے ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مذہب یا ایک الہی پیغام پر تمام مخلوق کو متحد کرنا اس نظام الہی میں ناممکن ہے جس کے ساتھ اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؛ کیونکہ لوگ اپنے عقائد، اپنے عقل وفکر اور اپنی زبان میں مختلف ہیں بلکہ ان کی انگلیوں کے نشان اور آنکھوں کے ریٹینا  بھی مختلف ہیں اور یہ سب تاریخی اور سائنسی حقیقت سے ثابت ہو چکے ہیں اور اس سے پہلے یہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ خدا نے لوگوں کو مختلف ہونے کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور اگر وہ ان کو ایک مذہب، ایک رنگ، ایک زبان یا ایک سمجھ کے ساتھ پیدا کرنا چاہتا تو وہ ایسا کر لیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا  بلکہ اس نے یہ چاہا کہ لوگ مختلف زبان، مختلف رنگ اور مختلف اشکال کے ساتھ پیدا ہوں  پھر یہ بھی فرمایا کہ یہ اختلاف قیامت کے دن تک باقی رہے گا ؛ کیونکہ ارشاد باری ہے: (ترجمہ: اگر آپ كا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں كو أيك ہى راه پر أيك گروه كر ديتا- وه تو برابر اختلاف كرنے والے ہى رہيں گے)اسی طرح اللہ رب العزت نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں سے مؤمنین کو پیدا فرمایا ہے اور ان میں کافرین کو بھی پیدا فرمایا ہے،   اللہ رب العزت سورۃ التغابن کے شروع میں فرماتا ہے: (ترجمہ: اسى نے تمہيں پيدا كيا ہے سو تم ميں سے بعضے تو كافر ہيں اور بعض ايمان والے ہيں، اور جو كچھ تم كر رہے ہو الله تعالى خوب ديكھ رہا ہے--)[ 2] ہم ان مختصر الفاظ سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ازہر اور اس کے علماء کی طرف سے  کلیسیاؤں،  اور ان کے ذمہ داروں  اور  رہنمائوں کے لئے انفتاحیت، جن میں سب سے آگے آرتھوڈوکس کلیسا ہے اور اسی طرح مصری کلیسیاؤں کی طرف سے ازہر کے لئے کھلے پن ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ عقائد، مذاہب وفرق کے درمیان پا‏‏ئے جانے والے فرق کو مٹانے کی کوشش ہے اور یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ عقیدے کا احترام کرنے اور اس پر یقین کرنے کے درمیان کے فرق کو سمجھنا ہوگا؛ کیونکہ کسی کے عقیدے کا احترام کرنا الگ بات ہے اور اسے تسلیم کرنا بالکل الگ بات ہے۔۔  اس تناظر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (دین میں کوئی زبردستى نہیں ہے) [البقرہ: 256] اور اسی طرح ایک دوسرے فرمان: (تم میں سے ہر ایک کے لئے  ہم نے ایک دستور اور راه مقرر كردى  ہے۔[المائدہ: 48]  اور قرآن مجید کی دیگر  آیتوں کا فہم صحیح ہو جائے گا۔

  

جی ہاں! مصر کے اندر اور باہر دینی اداروں کے لئے ازہر کی کشادگی، توحید پرست مذاہب کے درمیان مشترک انسانی کو تلاش کرنے اور ان سے منسلک رہنے کے لیے ہے تاکہ انسانیت کو اس کے موجودہ بحران سے نکالا جا سکے اور اسے ظلم و ستم سے آزاد کیا جا سکے اور کمزوروں پر  طاقتوروں کے ظلم اور ظالموں کے تکبر کو روکا جا سکے۔

معزز سامعین! آج کا دن گزشتہ کل سے کتنا مشابہ ہے! ازہر اور مصری کلیسا آج کے جیسے بالکل ملتے جلتے کردار کا اس وقت سامنا کر چکے ہیں جب ان دونوں اداروں نے پچھلی صدی میں استعماری سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنے علماء اور پادریوں کے ساتھ مل کر ان کا سامنا کیا تھا اور کل کی سازشیں بھی آج کی سازشوں کی طرح ہی تھیں اوراس سے  میرا مطلب اس ملک کے قوم کے دو عناصر کے درمیان تعلقات کو خراب کرنا  ہے اور یہ دعویٰ کرنا ہے  کہ قبطی حضرات استعماری طاقت  کی حمایت کررہے ہیں لیکن اس چال کی زد میں ازہر اور اس کے علماء نہیں آئے بلکہ معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے  فورا ہی  قبطی گرجا گھروں کا رخ کیا جن میں سرفہرست ازہر کے سربراہان ہیں جیسے کہ مصطفیٰ القایاتی، محمود ابو العیون، عبد ربہ مفتاح، محمد عبداللطیف دراز اور علی سرور الزنکلونی۔۔۔ اس وقت شیخ القایاتی  کی طرف سے فادر سرجیوس کو ازہر کے منبر  پر چڑھ کر مقررین کے ساتھ تقریر کرنے کا موقع دیا گیا اور ازہر کے علماء نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے جنازوں میں بلا تفریق شرکت کی۔۔ شیخ ابراہیم سلیمان نے اپنے حب الوطنی پر مبنی اشعار لکھے ہیں جس میں انہوں نے آسان انداز  میں برادرانہ اتحاد کی دعوت دی ہے اور ان کا ایک حصہ بہت مشہور ہوا جس میں  انہوں نے کہا: 
ایک شیخ اور  ایک پادری مل کر  ہوئے دو پادری
اور اگر آپ چاہیں تو ان دونوں  کو  دو شیخ کہہ سکتے ہیں


معزز حاضرین!آج جب ازہر شریف نے گرجا گھروں کا رخ کیا  ہے، سب کے لئے محفوظ بقائے باہمی کے حق، شہریت، حقوق اور فرائض میں برابری کے لئے وطن اور شہریوں کی خاطر گرجا گھروں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا ہے  اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سب کام اپنے خالص اسلامی ثقافت، وراثت  اور علوم کی بنیاد پر کر رہا ہے  اور یہ  اس اصول پر بھی  مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "ان کے لئے وہ حقوق ہیں جو ہمارے لیے ہیں اور ان پر بھی وہ  حقوق لازم ہیں جو ہم پرواجب اور  لازم ہیں" اور اسی طرح یہ  اسلامی بھائی چارے کے اصول پربھی مبنی ہے؛ کیونکہ ہماری شریعت، قرآن ، اور نبی نے بھی ایسا ہی بتایا ہے اور  ان سے پہلے کی شریعت، کتابوں اور انبیاء کا طریقہ بھی یہی رہا ہے اور اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اخوت رہی ہے کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ" دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں لوگوں کے مقابلہ میں حضرت مریم کے بیٹے حضرت  عیسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے" اور ایک دوسری حدیث میں آپ کا فرمان ہے: "میں اپنے والد ابراہیم کی دعا ہوں،اور اپنے بھائی عیسیٰ کی بشارت ہوں اور میری ماں نے جب وہ حاملہ ہوئیں تو اس وقت  دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا ہے جس نے شام کے محلات کو منور کر دیا"۔۔۔ ہم نے قرآن سے اپنے آقا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام کی تعریف کرنا نہیں سیکھا ہے  بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ان کے  پیروکاروں کی تعریف کرنا بھی سیکھا ہے، ارشاد باری ہے:  (ترجمہ: ان كے بعد پھر بھى ہم اپنے رسولوں كو در پے بھيجتے رہے اور ان كے بعد عيسى بن مريم (عليہ السلام) كو بھيجا اور انہيں انجيل عطا فرمائى اور ان كے ماننے والوں  دلوں ميں شفقت اور رحم پيدا كرديا )۔

اللہ کی پناہ کہ اسلامی عقیدہ، شریعت اور وراثت کے محافظ ازہر  شریف کی طرف سے  آسمانی مذاہب کے لئے کھلے پن کے اس رویہ کو  افراط وتفریط کا نام دے دیا جائے یا  اسی طرح کے دیگر  شکوک و شبہات اور چہ مے گوئیوں کو پھیلایا جائے جن کی بنیاد اسلام کے ساتھ غلط فہمی ہے اور اس کی حقیقت ، اس کے فلسفے اور پچھلے الہی پیغامات کے ساتھ اس کے تعلق کو نہ جاننا ہے  اور خاص طور پر محبت  ومودت کے اس  رشتہ کو نہ جاننا ہے جس کی بنیاد پر مسلمان اور عیسائی اسلام کی تاریخ کے آغاز سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں  اور تاقیامت ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رہیں گے۔

معزز مہمان کرام! آج مصری فیملی ہاؤس کی تقریب میں آپ کا آنا  ایک بہت بڑا اخلاقی تعاون ہے جس سے  ہمارے عزم  وارادے کو دن بہ دن بڑھتے  ہوئے چیلنجوں اور مسائل کا مقابلہ کرنے اور  کوششیں جاری رکھنے میں مزید تقویت ملے گی اور ہم آپ کی مسلسل حوصلہ افزائی کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس فیملی ہاؤس کی انتظامیہ کے اندر  شہریوں کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں فراہم کردہ خدمات کی سطح کو بڑھانے  میں سنجیدگی کے ساتھ  حصہ لینے کی صلاحیت ہے، اور  خاص طور پر مختلف گورنریٹ کے دیہاتوں، بستیوں اور چھوٹے چھوٹے گاؤوں میں اپنی شاخوں کے ذریعہ بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے  اور صدر جمہوریۂ مصر عبدالفتاح سیسی کی جانب سے گزشتہ سال سے جنوری میں شروع کیے  گئے "باوقار زندگی" نامی  اس اقدام کے ساتھ مل کر بھی یہ ہاؤس اپنا کرداد انجام دے سکتا ہے،  اور ہمیں امید ہے کہ اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے اس اقدام کو کامیاب بنانے میں فیملی ہاؤس کا اہم حصہ ہوگا اور آخر میں آپ سب حضرات کا اور معزز مہمان کرام  کا شکریہ ادا کرتا ہوں  اور ایک بار پھر آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025