امام اکبر نے ازہر یونیورسٹی کی آب و ہوا کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران کہا ہے کہ گزشتہ صدی میں جو مادی ترقی ہوئی ہے اس کے مقابلہ میں انسانی اخلاقی میدان میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔
فلسفیوں اور مفکرین کو ایک بہت ہی تباہ کن خطرے کا اندیشہ تھا جو مادی ترقی اور اخلاقی پسماندگی کی وجہ سے انسانیت کو لاحق ہوگی لیکن یہ توقع بیسویں صدی میں بہت ہی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوا کیونکہ ہتھیاروں کی صنعت کے میدان میں تکنیکی ترقی تو ہوئی لیکن صحیح انسانی سمت میں اس ترقی کو کنٹرول کرنے والے اخلاق کا فقدان رہا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا منظر دیکھنے کو ملا ہے اور شیخ ازہر اور امام اکبر نے کہا ہے کہ گزشتہ صدی کی خصوصیات میں سے ایک مادی ترقی ہے جو انسانیت کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور اس میدان میں اس صدی کو دوسری تمام صدیوں پر ترجیح اور فوقیت حاصل ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کامیابی اور ترقی کے دور میں انسانی اور اخلاقی میدان میں کافی گراوٹ آئی ہے جبکہ یہی وہ پہلو ہے جو انسانیت کی سمت کو درست کر سکتا ہے اور جب فکر وسوچ اور عمل میں اچھائی اور برائی مل جاتی ہے تو یہی وہ پہلو ہے جو اس کے سلوک کو صحیح کر پاتا ہے اور امام اکبر نے ازہر یونیورسٹی کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران مزید کہا کہ اس زمانہ کے انسان کی تہذیب میں مادی ترقی اور اخلاقی زوال کے درمیان تعلق کو کنٹرول کرنے والی صفت میں تضاد ہے جس کے پیش نظر فلسفیوں اور مفکرین نے ایک ایسے تباہکن خطرے کی توقع کی تھی جو پوری انسانیت کو متاثر کر دے گی اور اسے قبل از تاریخ کے دور میں پہنچا دے گی۔۔۔
ان میں سے بہت سے لوگوں نے آگاہ کیا تھا کہ اس تباہ کن خطرے کے اثرات انیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی ظاہر ہونے لگے ہیں اور یہ صدی نظریہ ارتقا اور ترقی کی صدی کے نام سے مشہور ہے، اور سائنسی دنیا میں علمی دھماکے اور ہر قسم کے فلسفیانہ مکاتب یہاں تک کہ سماجی ناانصافیوں اور انسانی پسماندگی کے عوامل کے خلاف انقلاب کی صدی کے نام سے معروف ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ لوگوں کی نوآبادیات کو وسعت دینے، ان کی صلاحیتوں پر غلبہ پانے، ان کی دولت چوری کرنے اور ان کی اقدار واستحکام کو تباہ کرنے کی صدی بھی ہے بلکہ یہ وہ صدی ہے جس میں استعمار کے عزائم اور اس کے سیاسی تنازعات کو پورا کرنے کے لئے سائنس کی معروضیت اور اس کی غیر جانبداری کے ساتھ مذاق اڑایا گیا ہے اور اس کا ثبوت ان جھوٹے سائنسی نداؤوں سے ملتا ہے جو اس صدی میں تمام انسانی نسلوں پر شمالی نسلوں کی فکری اور ثقافتی برتری اور ان کی سربلندی کے لیے پھیلائی گئیں اور یہ بھی کہا گیا کہ آریائی نسل سائنس، ثقافت اور تہذیب کی ہر کامیابی خواہ قدیم ہو یا جدید ہو ہر کی واحد مالک ہے، اور خود امریکہ - جیسا کہ جدید عربی ادب کے ماہر العقاد کہتے ہیں - ان مبلغین سے خالی نہیں ہے اور کیسے نہ ہو! یہ تو خود سفید، سرخ اور کالے نسل والوں کے درمیان تنازعہ کا میدان بنا ہوا ہے بلکہ خود تارکین وطن کے باپ دادا کے درمیان فخر کا میدان بنا ہوا ہے جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے، جیسے: سیکسن، لاطینی، اور شمالی اور جنوبی کی قومیں۔
امام اکبرنے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ بیسویں صدی کے آتے ہی لوگوں کو توقع تھی کہ سائنسی، فلسفیانہ اور ثقافتی ترقی کے لحاظ سے جو کچھ ہوا اور ہوگا وہ انسان کو تعلیم دینے، اس کے اخلاق کو سنوارنے اور اس کے احساسات کو بہتر بنانے کے قابل ہوگا اور وہ دوسرے پر تسلط جمانے، طاقت دکھانے اور غنڈہ گردی کرنے کے اس کے رجحانات پر قابو پانے کے لئے کافی ہوگا لیکن مایوسی اور ناکامی پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت اور تکلیف دہ تھی اور ابھی تو اس صدی کا نصف حصہ نہیں گزرا تھا کہ اس کی خونی تاریخ میں دو عالمی جنگوں کا واقعہ درج ہو چکا جس میں تقریباً 80 ملین لوگ مارے گئے جن میں بغیر کسی منطقی جواز اور بغیر کسی معقول وجہ کے بہترین مرد وخواتین اور نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اگر ان سب کا سبب تلاش کیا جائے تو بس کج روی، ضمیر کی موت، انانیت پسندی اور یورپ میں نسل پرستی نظر آئے گی اور سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ نیوکلیئر بم کا ظہور ہوا جو ایک نئی وحشت لے کر آيا جس کی وجہ سے چند امیر غریبوں کی اکثریت کی دولت پر اجارہ داری کر سکے گا، پھر اکیسویں صدی ایک نئی نوآبادیاتی پالیسی کے ساتھ اور بہت ہی پرتشدد اور ظالمانہ رویہ کے ساتھ نمودار ہوئی اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ کوئی یہ بحث کرے گا کہ ہم، عرب اور مسلمان اس کے نتائج سے گزر رہے ہیں اور ہم آج خون، گندگی، آنسوؤں اور تباہی سے ملی ہوئی ایک افسوسناک حقیقت سے جھوجھ رہے ہیں۔
امام اکبر نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس وقت مغرب اور مشرق کے بہت سے عصر حاضر کے علماء اس بات کے قائل ہیں اور اسے ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ سائنسی ترقی - بدقسمتی سے - کے بالمقابل اخلاقیات کے باب میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے اور تکنیکی ترقی خاص طور پر مہلک ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں صحیح انسانی سمت کے سلسلہ اس کا رخ موڑنے والے تمام اقدار سے خالی ہے بلکہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے جیسے جیسے سائنسی ترقی ہورہی ہے جنگوں کا شعلہ تیزی سے ساتھ بھڑکتا جا رہا ہے یہاں تک کہ اب یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ سائنسی ترقی اور جنگ کی لپٹ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے دوڑ کے میدان میں ہیں اور تیسری سائنسی کانفرنس برائے ماحولیات اور پائیدار ترقی کے عنوان سے ازہر یونیورسٹی کانفرنس کے سیشن "موسمیاتی تبدیلی؛ چیلنجز اور محاذ آرائی" کے عنوان سے تجمع خامس کے منارہ ہال میں منعقد ہوں گے جو تین دنوں کے دوران (ہفتہ، اتوار اور پیر) 18 سے 20 دسمبر 2021 تک ہوں گے اور یہ متعدد کانفرنسوں، سیمینارز اور ورکشاپس کے انعقاد کا معاملہ اقوام متحدہ کی کانفرنس COP27 کی تیاری اور حمایت میں ہو رہا ہے جس کی میزبانی مصر نومبر 2022 میں شرم الشیخ شہر میں کرنے جا رہا ہے۔